Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 32 Geet Jamuna Ki Lahren Uthti Hai گیت جمنا کی لہریں اٹھتی ہیں Solutions

گیت ہندی شاعری کی ایک قدیم اور مقبول صنف ہے، جو اردو شاعری میں بھی اہم مقام رکھتی ہے۔ جس طرح غزل اردو شاعری میں مقبول ہے، اسی طرح ہندی شاعری میں گیت کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اردو زبان نے فارسی، انگریزی اور دیگر زبانوں سے اثرات قبول کیے، اسی طرح یہ ہندی زبان کے اثرات بھی قبول کرتی رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اردو شاعری میں گیت نگاری کی روایت قائم ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ترقی بھی ہوئی۔

گیت کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دیہات کی عوامی زندگی اور ان کے جذبات کی سادہ اور خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔ کھیتوں میں کام کرتے وقت یا شادی بیاہ کی تقریبات میں جو گانے گائے جاتے ہیں، وہی گیت کہلاتے ہیں۔ یہ نغمے دیہاتی لوگوں کے دلوں کو تازگی اور خوشی فراہم کرتے ہیں۔ گیت کا اہم پہلو اس کی سادگی اور نغمگی ہے، جس میں ہندی کے نرم اور شیریں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے، جو سننے والے کے دل کو چھو لیتے ہیں۔

گیت کی بناوٹ سادہ ہوتی ہے، لیکن اس میں نغمگی اور مٹھاس کی خاصیت پائی جاتی ہے، جو اسے منفرد بناتی ہے۔ اردو شاعری میں بھی کئی شاعروں نے اس صنف کو اپنایا ہے، جن میں قلی قطب شاہ سے لے کر آج تک کے بہت سے شاعر شامل ہیں۔ موجودہ دور میں سلام مچھلی شہری، بیکل اتساہی، اجمل سلطان پوری، زبیر رضوی اور وسیم بریلوی جیسے شاعر گیت کو خوبصورتی سے پیش کر رہے ہیں، جو ان کے لیے قابل فخر بات ہے۔

سلام مچھلی شہری کا اصل نام عبد السلام تھا، اور ان کی پیدائش جولائی 1921ء میں یوپی کے قصبے مچھلی شہر، جونپور میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام عبد الرزاق اور دادا کا نام محمد اسمعیل تھا۔ والد کی مالی حالت اچھی نہیں تھی، جس کی وجہ سے سلام کسی طرح فیض آباد کے فاریس ہائی اسکول میں داخل ہوئے اور وہاں اللہ قاسم کے بچوں کو پڑھانے لگے تاکہ گزارہ ہو سکے۔ فیض آباد میں قیام کے دوران وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگے اور تحریک آزادی ہند کا حصہ بن گئے۔ اسی وقت سے ان کی شاعری کا آغاز ہوا، اور انہوں نے تحریک آزادی کے پس منظر میں انقلابی نظمیں لکھنی شروع کیں۔

سیاست میں دلچسپی کی وجہ سے ان کی تعلیم متاثر ہوئی اور وہ میٹرک کے امتحان میں ناکام ہو گئے۔ بعد میں میٹرک کے مساوی کوئی امتحان پاس کر کے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، لیکن وہاں بھی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ اس دوران ان کی تحریکی شاعری نے زور پکڑا، اور انہوں نے انقلابی نظموں کا مجموعہ “میرے” شائع کیا، جسے برطانوی حکومت نے ضبط کر لیا۔

سلام مچھلی شہری کو منظوم خطوط لکھنے کی بھی عادت تھی۔ اس دوران ان کا رابطہ آچاریہ نریندر سے ہوا اور وہ فیض آباد کے رسالہ “نغمہ” کے ایڈیٹر بنے۔ سلام نے چودہ سال کی عمر میں شاعری شروع کی، اور ان کی پہلی نظم 1935ء میں “نیرنگ خیال” میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے لیکن اپنی شاعری میں نیا رنگ لانے کے لیے تجربے بھی کیے۔ ان کے گیتوں کے مجموعے “پائل”، “باز و بند کھل جائے” اور “تین ہیرے” بہت مقبول ہوئے۔

سلام مچھلی شہری کا دوسرا مجموعہ “وسعتیں”1944 ء میں شائع ہوا، جس میں نئی اور پرانی نظمیں شامل تھیں۔ انہوں نے غزلیں بھی کہیں، جن میں انقلاب کی لے نمایاں تھی، اور یہ لے کبھی کبھار غربت اور افلاس کی دنیا کی طرف لے جاتی تھی، جو ان کی شاعری کا ایک بڑا موضوع رہا۔

سلام مچھلی شہری کا انتقال 1973ء میں لاہور میں ہوا۔

اس گیت میں شاعر نے جمنا ندی کی لہروں کو ایک جادوئی اور شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے، جو نہ صرف قدرت کی خوبصورتی کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ انسانی احساسات اور خوابوں کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔

گیت کی ابتدا میں جمنا کی لہریں اٹھتی ہیں، جو کچھ کہتی اور کچھ گاتی ہیں۔ ان لہروں کی موسیقی میں ایک خاص جاذبیت ہے، جو سننے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ یہ لہریں نہ صرف فطرت کی آواز ہیں بلکہ زندگی کے رازوں کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔

شاعر یہ بیان کرتا ہے کہ لہریں گاتے گاتے خوابوں کی دنیا میں کھو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ خوابوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، جو زندگی کی خوشیوں اور امیدوں کی علامت ہیں۔ لہریں زندگی کی چالاکیوں اور رازوں کو چھپائے ہوئے ہیں، جو ہمیں ان کی خوبصورتی کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔

شاعر کا کہنا ہے کہ یہ لہریں آسمان کے ہنس مکھ تاروں سے بات کرتی ہیں، جو ایک خوشگوار اور مسرت بھرا احساس پیدا کرتی ہیں۔ یہ بات اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ قدرت کے مظاہر میں بھی ایک جڑت اور محبت موجود ہے، جو انسان کو کائنات کے ساتھ جوڑتی ہے۔

تاج محل کا ذکر کرتے ہوئے شاعر بیان کرتا ہے کہ جب یہ کچھ کہتا ہے تو ممتاز کی صورت ہنستی ہے۔ یہ تشبیہ عشق اور حسن کی ایک شاندار مثال ہے، جو محبت کی طاقت اور اس کی خوبصورتی کو اجاگر کرتی ہے۔ شاعر نے تاج محل کو نہ صرف ایک تاریخی علامت کے طور پر دیکھا ہے بلکہ اسے محبت کے اظہار کی صورت بھی سمجھا ہے۔

شاعر اپنے خوابوں کو ان لہروں پر بھیجنے کا عہد کرتا ہے۔ یہ خواب آنسوؤں، نازک کلیوں، چاندنی، اور مہتاب کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ عناصر زندگی کی نازکی اور خوبصورتی کی نمائندگی کرتے ہیں، جو ہمیں دکھاتے ہیں کہ ہر لمحے میں کچھ خاص ہوتا ہے۔

شاعر یہ بیان کرتا ہے کہ کچھ امیدیں فنا ہو جانے کے باوجود کچھ جگہوں پر امرت رس بہتے ہیں۔ یہ بات اس احساس کی عکاسی کرتی ہے کہ زندگی میں مشکلات کے باوجود خوشی اور سکون کے لمحات ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ شاعر نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ انسان کی زندگی میں کبھی کبھار مشکل وقت آتا ہے، لیکن ان مشکلات کے باوجود خوشیوں کے لمحات کو جینے کا ایک موقع ملتا ہے۔

اس گیت میں شاعر نے ایک دلکش اور جادوئی منظر پیش کیا ہے، جہاں جمنا کی لہریں انسانی جذبات، خوابوں، اور زندگی کی حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ گیت نہ صرف قدرت کی خوبصورتی کو بیان کرتا ہے بلکہ انسانی تجربات اور احساسات کے گہرے پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ شاعر کی زبان سادہ اور نرم ہے، جو ہر ایک کے دل کو چھو جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ گیت ایک خوشبو کی طرح محسوس ہوتا ہے، جو پڑھنے والے کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتا ہے، جہاں محبت، امید، اور زندگی کی خوشیوں کا ایک نیا افق کھلتا ہے۔

جواب ۔ (د) گیت

جواب ۔ (الف) اتر پردیش

جواب ۔ (د) شاہجہاں

جواب ۔ کیا جانے کیا کہہ جاتی ہیں آکاش کے ہنس مکھ تاروں سے۔

جواب ۔ (د) آسمان

سلام مچھلی شہری کا اصل نام عبد السلام تھا۔

وہ 1921 میں مچھلی شہر، جونپور (یوپی) میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے تحریک آزادی ہند کے دوران شاعری شروع کی۔

ان کی کچھ مشہور نظمیں “سڑک بن رہی ہے” اور “پیتل کا سانپ” ہیں۔

ان کا انتقال 1973 میں لاہور میں ہوا۔

شاہجہاں نے تاج محل اپنی پسندیدہ بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔ یہ ایک عظیم مقبرہ ہے جو محبت کی علامت ہے۔

سلام مچھلی شہری

بیکل اتساہی

اجمل سلطان پوری

زبیر رضوی

شاعر نے اس نظم میں تاج محل کو ممتاز کی صورت میں پیش کیا ہے، جو ہنستی ہے۔

آشائیں فنا ہو کر امرت رس بہاتی ہیں۔

سلام مچھلی شہری، جن کا اصل نام عبد السلام ہے، 1921 میں مچھلی شہر، جونپور (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا، جہاں ان کے والد عبد الرزاق اور دادا محمد اسمعیل نے زندگی کی سختیاں برداشت کیں۔ مالی مشکلات کے باوجود، سلام نے فیض آباد کے فاریس ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور وہاں پڑھانے کا کام بھی شروع کیا۔

سلام کی زندگی کا ایک اہم موڑ تحریک آزادی ہند کے ساتھ جڑتا ہے۔ وہ سیاست میں دلچسپی رکھنے لگے اور اس دوران ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔ انہوں نے انقلاب آفریں نظمیں لکھنا شروع کیا، جن میں آزادی کے نظریات اور عوامی مسائل کی عکاسی کی گئی۔ لیکن ان کی تعلیمی زندگی میں رکاوٹیں آئیں؛ وہ میٹرک کے امتحان میں ناکام رہے اور پھر لکھنو یونیورسٹی میں داخلہ لیا، لیکن جلد ہی ان کا یہ تعلیمی سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ اس کے باوجود، ان کی شاعری نے ایک نئی سمت اختیار کی اور ان کے انقلابی خیالات کی بھرپور عکاسی کرنے لگی۔

سلام مچھلی شہری نے انقلابی نظموں کا ایک مجموعہ “میرے نئے” شائع کیا، جو برطانوی حکومت نے ضبط کر لیا۔ ان کی شاعری میں منظوم خط لکھنے کی عادت بھی شامل تھی، جس کی وجہ سے ان کا رابطہ اہم شخصیات، جیسے آچاریہ نریندر، سے ہوا۔ وہ فیض آباد کے ایک رسالے “نغمہ” کے ایڈیٹر بھی رہے۔

سلام نے اپنی شاعری کا آغاز چودہ سال کی عمر میں کیا، اور 1935 میں ان کی پہلی نظم نیرنگ خیال میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے، لیکن وہ اپنے انداز میں کچھ منفرد کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے گیتوں کے مجموعے جیسے پایل، بازو بند کھل جائے، اور تین ہیروں پر بھی کام کیا، جو ان کے وقت میں بہت مقبول ہوئے۔ ان کی نظمیں سڑک بن رہی ہے اور پیتل کا سانپ اب بھی یاد کی جاتی ہیں، جن میں زندگی کے سچے تجربات اور انفرادیت کی جھلک موجود ہے۔

1944 میں، ان کا دوسرا مجموعہ وسعتیں شائع ہوا، جس میں کچھ نئی اور کچھ پرانی نظمیں شامل تھیں۔ انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں، لیکن ان کی غزلوں میں وہی انقلاب کا پیغام موجود ہے۔ یہ دنیا ہمیشہ غربت و افلاس کے موضوعات کو اجاگر کرتی ہے۔

سلام مچھلی شہری کا انتقال 1973 میں لاہور میں ہوا۔ ان کی شاعری آج بھی اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہے، اور ان کی انقلابی خیالات کی وجہ سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

شاعر اپنی نظم “جمنا کی لہریں اٹھتی ہیں” میں جمنا ندی کی لہروں کی خوبصورتی اور ان کی گہرائی کو پیش کرتا ہے۔ نظم میں شاعر نے جمنا کی لہروں کو زندہ، متحرک اور بولتا ہوا دکھایا ہے، جو کچھ کہتی ہیں، کچھ گاتی ہیں اور سپنوں کی دنیا میں کھو جاتی ہیں۔ یہ لہریں شاعر کے احساسات کی عکاسی کرتی ہیں، جو آسمان کے ستاروں سے بات کرتی ہیں اور دنیا کے خوبصورت نظاروں سے کچھ سننے کی کوشش کرتی ہیں۔

شاعر نے اس نظم میں تاج محل کا ذکر کیا ہے، جو شاہجہاں نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کیا۔ شاعر کہتا ہے کہ جب تاج محل کچھ کہتا ہے تو ممتاز کی صورت ہنستی ہے، جو محبت کی علامت ہے۔ یہ نازک لمحہ ندی کی لہروں میں چھپا ہوا ہے، جو زندگی کی گہرائیوں کو بیان کرتا ہے۔

شاعر نے ان لہروں کو اپنی آرزوؤں اور خوابوں کی ترجمانی کرنے کے لیے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ ان لہروں پر جیون کے ہزاروں خواب بھیجیں گے، جس میں آنسو، نازک کلیاں، چاندنی، اور مہتاب شامل ہیں۔ یہ خواب اور امیدیں زندگی کی مختلف کیفیات کی عکاسی کرتی ہیں، جیسے خوشی، محبت، اور یادیں۔

نظم میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ شاعر امید کا پیغام دیتا ہے کہ آشائیں، یعنی امیدیں، فنا ہو جانے کے بعد بھی کچھ امرت رس بہاتی ہیں۔ یہ ایک گہرا فلسفہ ہے جو زندگی کی ناپائیداری اور اس کی خوبصورتی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ نظم نہ صرف جمالیات کی عکاسی کرتی ہے بلکہ انسانی جذبات، محبت، اور زندگی کے تجربات کو بھی بیان کرتی ہے۔ شاعر نے اپنی الفاظ کے ذریعے ہمیں ایک خوبصورت تصویری منظر پیش کیا ہے جو نہ صرف دل کو چھو لیتا ہے بلکہ ہمیں زندگی کی سچائیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ نظم ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کی لہریں ہمیشہ بلند ہوتی ہیں اور ہمیں ان کی خوبصورتی کو سمجھنا چاہیے۔

لہریں:         جمنا کی لہریں ہمیشہ خوبصورت اور پُر سکون ہوتی ہیں۔

نظاروں:       باغ کے نظارے چمن میں بہار کی خوشبو پھیلانے والے ہیں۔

حسین:         چاندنی رات کا منظر بہت حسین ہوتا ہے۔

صورت:       تاجمحل کی صورت دنیا کی سب سے خوبصورت عمارتوں میں شامل ہے۔

فنا:            محبت فنا ہو جاتی ہے، مگر یادیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔

نازک:          یہ نازک کلیاں بہار کی آمد کی علامت ہیں۔

چاندنی:        چاندنی رات میں ہر چیز خوبصورت لگتی ہے۔

خواب:         خواب دیکھنا زندگی کا ایک خوبصورت حصہ ہے، جو ہمیں نئی امیدیں دیتا ہے۔

پر چھائیں:    اس کے چہرے پر چھائیں خوشی کی علامت ہیں۔

جیون:          جیون کی راہوں میں کبھی خوشی، کبھی غم آتا ہے، مگر ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔

گیت ایک قدیم اور معروف شاعری کی صنف ہے، جو بنیادی طور پر محبت، زندگی، اور جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ ہندی شاعری میں گیت کی روایت بہت قدیم ہے اور یہ عوامی زندگی کے تجربات اور احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔ گیت کا آغاز دیہاتوں میں ہوا، جہاں کسان اور مزدور اپنے کام کے دوران گنگناتے تھے۔

اردو شاعری نے بھی گیت نگاری کی روایت کو اپنایا اور اسے اپنی زبان میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ اردو گیت میں ہندی کے نرم و نازک الفاظ کا استعمال ہوتا ہے، جو اسے خاص مٹھاس عطا کرتا ہے۔ گیت کا موضوع عام طور پر محبت، خوشی، اور غم کے گرد گھومتا ہے۔ قلی قطب شاہ جیسے قدیم شعراء سے لے کر آج کے دور کے شاعروں تک، گیت نے ہمیشہ اردو ادب میں اپنی جگہ بنائے رکھی ہے۔

سلام مچھلی شہری، بیکل اتساہی، اجمل سلطان پوری، زبیر رضوی، اور وسیم بریلوی جیسے شاعروں نے اردو گیت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے گیت عوامی احساسات، محبت کی داستانیں، اور زندگی کی سچائیوں کو پیش کرتے ہیں۔

عہد حاضر میں، گیت کی شکل میں جدت آئی ہے، جہاں شاعری کو جدید موضوعات اور سٹائل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ آج بھی، گیت کی صنف اردو ادب میں اہمیت رکھتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں بستی ہے۔

گیت کی ارتقاء ایک سفر ہے جو عوامی جذبات اور تجربات کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ اردو ادب کی خوبصورتی اور تنوع کو اجاگر کرتا ہے۔

Scroll to Top