قمر جہاں
قمر جہاں 52-1951 میں سمستی پور ضلع کے گاؤں بزرگ دوار میں پیدا ہوئیں، جو ان کا آبائی وطن ہے۔ ان کے والد کا نام سید عطاء الحق تھا، اور ان کا خاندان علم و ادب میں دلچسپی رکھتا تھا۔ قمر جہاں نے ابتدائی تعلیم کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو ادب میں گہری دلچسپی ہونے کی وجہ سے انہوں نے 1966ء میں افسانہ لکھنا شروع کیں، اور ان کی پہلی افسانہ “جنون وفا” تھی، جو پٹنہ کے ماہنامہ “صبح نو” میں شائع ہوئی۔
انہوں نے اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز بھاگل پور کے سند روتی مہیلا کالج کے اردو شعبے سے کیا اور بعد میں بھاگل پور یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو بنیں۔ افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی تنقیدی مضامین بھی لکھے، جو شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی تصانیف میں تین افسانوی مجموعے شامل ہیں، جن میں “چارہ گر” (1983ء) اور “اجنبی چہرے” (1991ء) شائع ہو چکے ہیں، جبکہ “یاد نگر” زیر اشاعت ہے۔
قمر جہاں کی تنقیدی تصانیف میں “اختر شیرانی کی جنسی و رومانی شاعری”، “کلام عبداللہ حافظ مشکی پوری”، اور “حرف آگہی” شامل ہیں۔ ان کا ادبی سفر ابھی جاری ہے۔
کٹی ہوئی شاخ کا خلاصہ
کٹی ہوئی شاخ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو سالوں بعد اپنے وطن واپس لوٹتا ہے اور ہر چیز کو نیا اور اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اس نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں وہ بظاہر کامیاب زندگی گزار رہا تھا، لیکن اپنے اندر ایک خلا اور بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ واپس آنے کے بعد، وہ اپنے گھر، اپنے پیاروں اور خاص طور پر اپنی بوڑھی ماں کو دیکھتا ہے، لیکن اسے لگتا ہے کہ وہ اب ان سب کا حصہ نہیں رہا۔
وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا ماضی اور اس کا اصل رشتہ اپنے وطن سے ٹوٹ چکا ہے، حالانکہ وہ مادی طور پر سب کچھ وہی پاتا ہے—آم اور شریفے کے پیڑ، گھر کی ساخت، اور اس کے عزیز و اقارب—مگر اس کا دل اس ماحول سے اب جڑ نہیں پا رہا۔ وقت کے ساتھ، اس نے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنے اندرونی جذبات اور تعلقات کو بھی کھو دیا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کیا وہ واقعی اتنی اچھی زمین اور محبت کرنے والے لوگوں کو چھوڑ کر باہر جانے کے قابل تھا، اور کیا اب اس کی حیثیت اس ٹوٹی ہوئی شاخ کی سی ہے جو درخت سے کٹ کر ہمیشہ کے لیے الگ ہو چکی ہے۔
کہانی بیرون ملک کی چمک دمک اور وہاں کی زندگی کے ابتدائی جوش کو بیان کرتی ہے، جب وہ ایک نئی دنیا میں داخل ہوا تھا اور اسے لگا تھا کہ اس نے قید خانے سے آزادی حاصل کی ہے۔ لیکن جلد ہی، وہاں کی مصنوعی اور مشینی زندگی اس کے جذبات کو دبا دیتی ہے، اور وہ اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے۔ وہ دوستوں اور رشتوں کی کمی محسوس کرتا ہے اور ماضی کی یادیں اسے تنگ کرتی ہیں۔ بیرون ملک کی ظاہری چمک دمک کے باوجود، اس کی اندرونی دنیا میں ایک بے چینی برقرار رہتی ہے۔
واپس وطن آنے کے بعد، وہ اپنے لوگوں اور اپنے وطن سے دوبارہ جڑنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وقت اور دوری کی وجہ سے اس کا یہ رشتہ کمزور ہو چکا ہے۔ اسے اپنے عزیزوں کے رویوں میں بھی ایک تصنع نظر آتا ہے، اور وہ محسوس کرتا ہے کہ شاید وہ اب اس زندگی کا حصہ نہیں رہا۔
کہانی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ظاہری کامیابیاں اور چمک دمک انسان کو مکمل نہیں کر سکتیں۔ اندرونی سکون اور تعلقات کی اصل قدر تب سامنے آتی ہے جب انسان اپنے آپ سے دور چلا جاتا ہے۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال1۔ قمر جہاں کی پیدائش کب ہوئی؟
جواب۔ قمر جہاں کی پیدائش 52-1951 میں ہوئی۔
سوال2۔ قمر جہاں کے والد کا نام کیا ہے؟
جواب۔ قمر جہاں کے والد کا نام سید عطاء الحق تھا۔
سوال3۔ قمر جہاں کا پیدائشی تعلق صوبہ بہار کے کس ضلع سے ہے؟
جواب۔ قمر جہاں کا پیدائشی تعلق سمستی پور ضلع کے گاؤں بزرگ دوار سے ہے۔
سوال4۔ قمر جہاں کا کون سا افسانہ آپ کے نصاب میں شامل ہے؟
جواب۔ قمر جہاں کا افسانہ “کٹی ہوئی شاخ” نصاب میں شامل ہے۔
سوال5۔ قمر جہاں کس یونی ورسٹی میں استاد ہیں؟
جواب۔ قمر جہاں بھاگل پور یونی ورسٹی کے صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہیں۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال1۔ قمر جہاں کے حالات زندگی پر پانچ جملے لکھئے۔
جواب۔
قمر جہاں کی پیدائش 52-1951 میں بہار کے سمستی پور ضلع میں ہوئی۔
انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی کیا۔
قمر جہاں نے1966ء سے افسانہ نگاری کا آغاز کیا، ان کی پہلی کہانی “جنون وفا” تھی۔
انہوں نے سندر وتی مہیلا کالج بھاگل پور میں تدریسی کیریئر کا آغاز کیا۔
ان کی تصانیف میں افسانوی اور تنقیدی مجموعے شامل ہیں، اور تدریسی و تصنیفی سفر ابھی جاری ہے۔
سوال2۔ قمر جہاں کی تصانیف کی فہرست موضوع کے اعتبار سے لکھئے۔
جواب۔
افسانوی مجموعے: چارہ گر (1983ء)، اجنبی چہرے (1991ء)، یاد نگر (زیر اشاعت)۔
تنقیدی تصانیف: اختر شیرانی کی جنسی و رومانی شاعری، معیار، کلام عبداللہ حافظ مشکی پوری (تحقیق و تدوین)، حرف آگہی۔
سوال3۔ قمر جہاں کی تعلیم و تدریس کے بارے میں مختصر بیان کیجئے۔
جواب۔
قمر جہاں نے ابتدائی تعلیم کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اعلیٰ تعلیم کے دوران ہی ان کا رجحان اردو ادب کی طرف بڑھا اور وہ لکھنے لگیں۔ تدریسی کیریئر کا آغاز سندروتی مہیلا کالج بھاگل پور سے کیا، جہاں وہ اردو زبان و ادب کی استاد بنیں۔ قمر جہاں نے اس ادارے میں اپنی محنت اور علم کی بدولت ترقی کی اور بعد میں بھاگل پور یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ ان کی تدریسی زندگی میں طلبہ کی رہنمائی اور ادبی موضوعات پر ان کے تحقیقی کام کو خاص طور پر سراہا گیا۔ اس دوران انہوں نے متعدد ادبی تصانیف بھی شائع کیں، جو ان کے علمی اور تحقیقی رجحان کی عکاس ہیں۔
سوال4۔ اردو کے کسی پانچ افسانہ نگاروں کے نام لکھئے۔
جواب۔
منٹو، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، بیدی، انتظار حسین۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال1۔ قمر جہاں کے افسانوں کے موضوعات پر روشنی ڈالئے
جواب۔
قمر جہاں کے افسانے انسانی زندگی کے جذباتی، نفسیاتی اور سماجی پہلوؤں کو بڑے گہرے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں مہاجرت، اجنبیت، داخلی اور خارجی کشمکش، اور انسان کے اندرونی تضادات کو خاص طور پر موضوع بنایا گیا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں مہاجرین کی زندگی، ان کی جدوجہد، وطن کی یاد، اور ان کی سماجی حیثیت کے موضوعات کو بڑی حساسیت سے بیان کرتی ہیں۔ ان کے افسانے عام انسان کی زندگی کے تلخ حقائق اور ان کے اندرونی احساسات کا عکس پیش کرتے ہیں، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ “کٹی ہوئی شاخ” جیسے افسانے ہجرت کے بعد کی اجنبیت اور وطن سے کٹ جانے کے احساس کو نمایاں کرتے ہیں۔
سوال2۔ کہانی کا عنوان “کٹی ہوئی شاخ” کیوں ہے؟ واضح کیجئے
جواب۔
“کٹی ہوئی شاخ” کا عنوان اس کہانی کی مرکزی علامت ہے۔ یہ علامت ایک ایسے شخص کی حالت کو بیان کرتی ہے جو اپنے وطن سے دوری کے بعد واپس لوٹتا ہے، لیکن وہ اپنے ماحول اور لوگوں سے دوبارہ جڑ نہیں پاتا۔ جس طرح ایک شاخ درخت سے کٹنے کے بعد اپنی جڑوں سے دوبارہ نہیں جڑ سکتی، اسی طرح کہانی کا مرکزی کردار بھی وطن واپس آنے کے بعد خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنے گھر، اپنے عزیزوں اور اپنے ماحول کے ساتھ تعلق بحال کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ یہ کٹی ہوئی شاخ کی علامت ہے، جو اجنبیت اور خود کو غیر متعلقہ محسوس کرنے کی عکاسی کرتی ہے۔ عنوان نہ صرف کہانی کے موضوع کو سمیٹتا ہے بلکہ مہاجرت کے تجربے کی گہرائی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
سوال3۔ مہاجر ادب کی اصطلاح سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا یہ افسانہ اس زمرے میں ہے؟ مدلل جواب دیجئے۔
جواب۔
مہاجر ادب سے مراد وہ ادب ہے جو ہجرت کے تجربات، مشکلات، اور مہاجرت کے بعد کے جذباتی اور نفسیاتی حالات کو بیان کرتا ہے۔ اس میں مہاجرین کی زندگی، ان کی اجنبیت، ان کے وطن سے دوری اور ان کی شناخت کے مسائل کو بیان کیا جاتا ہے۔ “کٹی ہوئی شاخ” بھی مہاجر ادب کا حصہ ہے کیونکہ اس میں مرکزی کردار ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارنے کے بعد اپنے وطن واپس آتا ہے، لیکن اب وہ اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے جڑ نہیں پاتا۔ وہ اپنے اندر اجنبیت اور خود کو غیر متعلقہ محسوس کرتا ہے۔ اس افسانے میں ہجرت کے بعد کی اجنبیت، داخلی کشمکش، اور شناخت کے مسائل کو نہایت ہی گہرائی سے بیان کیا گیا ہے، جو مہاجر ادب کا اہم موضوع ہے۔ قمر جہاں نے اس کہانی کے ذریعے مہاجرت کی تلخی اور جذباتی بحران کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔
سوال4۔ کہانی کے مرکزی کردار کی ذہنی و جذباتی کیفیت کو اختصار میں لکھئے
جواب۔
کہانی کا مرکزی کردار ایک طویل عرصے کے بعد اپنے وطن واپس آتا ہے، لیکن اپنے ہی گھر اور عزیزوں کے درمیان خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے۔ وہ بیرون ملک کی زندگی کے تجربات کے باعث اپنی جڑوں سے کٹ چکا ہے اور اب وطن واپس آ کر بھی وہ اپنی شناخت اور تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے میں ناکام ہے۔ اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت ایک مسلسل خلفشار اور اندرونی کشمکش کا شکار ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں اور ماحول سے دور ہو چکا ہے، جیسے وہ اپنے ہی گھر میں مہمان بن گیا ہو۔ وہ اپنی زندگی کی حقیقتوں اور اپنے اندرونی احساسات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہر لمحہ اسے اجنبیت کا شدید احساس ہوتا ہے۔