نگارعظیم
نگارعظیم جن کا اصل نام ملکہ مہر نگار ہے موجودہ دور کی ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ علمی میدان میں ان کا نام نگار عظیم کے طور پر معروف ہے اور وہ اردو دنیا میں کافی مشہور ہیں۔ اردو ادب کے علاوہ انہوں نے ڈرائنگ اور پینٹنگ میں بھی ایم اے کیا ہے۔ نگار عظیم نے سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری پر تنقیدی جائزہ پیش کر کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
خواتین افسانہ نگاروں میں نگار عظیم کی پہچان اس لیے خاص ہے کہ انہوں نے خواتین کے جذبات، احساسات اور ان کے مسائل پر بہت سے افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانے موجودہ معاشرے میں ظلم و جبر اور انسانیت کے خلاف ہونے والے مظالم کو بڑی مؤثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔
ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ “مکس” 1990ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 1999ء میں دوسرا مجموعہ “گہن” منظر عام پر آیا۔ افسانہ نگاری کے علاوہ انہوں نے سفرنامے اور تنقیدی ادب میں بھی نمایاں کام کیا ہے۔ انہوں نے ہر چرن سنگھ چاؤلہ کی شخصیت اور فن پر بھی لکھا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی شخصیت اور شاعری پر بھی ایک اہم تنقیدی کتاب شائع کی ہے۔ ان کا سفرنامہ “گرد آوارگی” بھی خاصا مقبول ہوا ہے۔
افسانہ “آشیانہ” کا خلاصہ
آشیانہ ایک حساس اور دل کو چھو لینے والی کہانی ہے جو برکت علی صدیقی اور ان کی بیوی زرینہ کی زندگی کے آخری حصے پر روشنی ڈالتی ہے۔ دونوں کی زندگی ایک طویل جدوجہد کے بعد اب اپنے بیٹے سراج اور بہو عرفانہ کے ساتھ بنگلور میں گزر رہی ہے۔ سراج اور عرفانہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان کے والدین کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو وہ ان کی خدمت، دیکھ بھال، اور محبت میں کمی نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ دو پوتے، عدنان اور فرحان بھی ہیں جو اپنے دادا دادی سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔
زرینہ اور برکت علی نے اپنی جوانی میں محنت کر کے ایک چھوٹا سا گھر بنایا تھا جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ خوشی سے رہتے تھے۔ لیکن سراج کی شادی اور بنگلور میں ملازمت کے بعد وہ دونوں بیٹے بہو کے اصرار پر اپنا گھر چھوڑ کر ان کے ساتھ رہنے آ جاتے ہیں۔ ابتدا میں وہ یہاں کی سہولتوں اور بیٹے بہو کی محبت میں خوش تھے لیکن آہستہ آہستہ زرینہ کو احساس ہونے لگا کہ وہ اپنے آپ کو بےکار محسوس کر رہی ہیں۔ انہیں اپنے پرانے گھر اپنے روزمرہ کے کاموں اور اپنی زندگی کی آزادی کی یاد ستانے لگتی ہے۔
زرینہ کو گھر کے کام کاج میں شامل ہونے کی خواہش تھی، لیکن عرفانہ ہر کام خود کرتی اور انہیں آرام کرنے پر زور دیتی۔ اس بات سے زرینہ کے دل میں ایک خلاء اور اکتاہٹ پیدا ہونے لگی۔ برکت علی بھی بظاہر خوش نظر آتے تھے لیکن اندر سے وہ بھی خود کو مہمان اور بےکار محسوس کر رہے تھے۔ ان دونوں کو لگنے لگا کہ وہ اپنے بیٹے اور بہو کے گھر میں مہمان ہیں اور اپنے پرانے گھر کی یادیں ان کے دل و دماغ پر چھانے لگیں۔
آخرکار برکت علی زرینہ سے اپنی دل کی بات کہہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے پرانے آشیانے میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے باقی دن اپنے ہی گھر میں گزارنا چاہتے ہیں جہاں وہ اپنے طریقے سے زندگی جی سکیں اور اپنے پرانے دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ وقت گزار سکیں۔ زرینہ اس بات پر متفق ہو جاتی ہیں اور دونوں فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے آشیانے میں واپس جا کر زندگی کی سادگی اور سکون کو دوبارہ پائیں گے۔
آشیانہ ایک کہانی ہے جس میں محبت، خدمت اور خاندانی رشتوں کی قدروں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ناول اس بات کی گہرائی سے عکاسی کرتا ہے کہ زندگی کے
آخری مراحل میں انسان کو آسائشوں سے زیادہ اپنائیت، آزادی اور اپنے ہونے کا احساس ضروری ہوتا ہے۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال1۔ نگار عظیم کا اصل نام کیا ہے؟
جواب۔ نگار عظیم کا اصل نام آمنہ بانو ہے
سوال2۔ نگار عظیم نے کس موضوع میں ایم اے کیا؟
جواب۔ نگار عظیم نے اردو ادب میں ایم اے کیا۔
سوال3۔ نگار عظیم کے اولین افسانوی مجموعے کا نام کیا ہے؟
جواب۔ نگار عظیم کے اولین افسانوی مجموعے کا نام “رنگ” ہے۔
سوال4۔ نگار عظیم کا مجموعہ “گہن” کب شائع ہوا؟
جواب۔ نگار عظیم کا مجموعہ “گہن” 1980 میں شائع ہوا۔
سوال5۔ نگار عظیم کے سفر نامہ کا نام کیا ہے؟
جواب۔ نگار عظیم کے سفر نامہ کا نام “دیس سے دیس” ہے۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال1۔ سہی اور صحیح کے فرق کو جملے میں استعمال کر کے واضح کریں۔
جواب۔
سہی: اس کا مطلب ہے “ٹھیک ہے” یا “مانا کہ۔
مثال: وہ وقت پر نہیں آیا، یہ بات سہی مگر اس کا عذر جائز تھا۔
صحیح: اس کا مطلب ہے “درست” یا “صحیح معنوں میں۔
مثال: آپ نے سوال کا جواب صحیح دیا۔
سوال2۔ نگار عظیم کی شخصیت پر پانچ جملے لکھئے۔
جواب۔
نگار عظیم کا اصل نام آمنہ بانو تھا۔
وہ اردو ادب کی مشہور افسانہ نگار تھیں۔
انہوں نے اردو ادب میں ایم اے کیا اور اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔
ان کی تحریروں میں عورتوں کے مسائل اور جذبات کو خاص جگہ دی گئی ہے۔
نگار عظیم کے افسانے حقیقت پسندی اور جذباتیت کے امتزاج کا عمدہ نمونہ ہیں۔
سوال3۔ صنف افسانہ پر پانچ جملے لکھئے۔
جواب۔
افسانہ ایک مختصر کہانی کی صنف ہے جو عام طور پر مختصر ہوتی ہے۔
اس میں ایک مرکزی خیال یا واقعہ کو بیان کیا جاتا ہے۔
افسانہ میں کردار نگاری، پلاٹ اور جذباتی وابستگی کو اہمیت دی جاتی ہے۔
اردو ادب میں افسانہ ایک مقبول صنف ہے جسے کئی معروف ادیبوں نے فروغ دیا ہے۔
افسانے کا مقصد قارئین کو مختصر وقت میں ایک اہم پیغام دینا ہوتا ہے۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال1۔ سراج کی والدہ اپنے بیٹے کے گھر پر اکتاہٹ کیوں محسوس کرنے لگی؟
جواب۔
سراج کی والدہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ ایک بڑے اور آرام دہ گھر میں رہنے کے باوجود اندرونی طور پر ایک خالی پن اور اکتاہٹ محسوس کرتی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کی خودمختاری اور روزمرہ کی معمولی سرگرمیوں سے محرومی تھی۔ پہلے وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے ہر کام خود کرتی تھیں اپنے کھانے پکانے سے لے کر گھر کی صفائی تک۔ ان کی زندگی میں ایک مصروفیت اور مقصد تھا۔ لیکن بنگلور آنے کے بعد بہو عرفانہ نے گھر کے تمام کام خود سنبھال لیے اور انہیں مکمل آرام دینے کی کوشش کی جس سے وہ اپنے آپ کو بیکار اور غیر ضروری محسوس کرنے لگیں۔
مزید برآں جدید طرزِ زندگی جیسے کہ فلیٹ کلچر اور محلے میں ناواقفیت نے بھی ان کے اندر تنہائی اور اجنبیت کا احساس بڑھا دیا۔ اپنے گھر میں رہتے ہوئے وہ آس پاس کے لوگوں سے بات چیت کر سکتی تھیں مگر یہاں فلیٹ میں یہ سہولت ختم ہو گئی۔
اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگیں لیکن اس کے باوجود دونوں کو ایک قسم کی گھٹن محسوس ہونے لگی کیونکہ وہ دونوں اپنے روزمرہ کے معمولات سے دور ہو چکے تھے۔ آخر میں یہ سب چیزیں مل کر ان کے اندر ایک طرح کی بے چینی اور اکتاہٹ کا باعث بنیں۔
سوال2۔ زیر نصاب افسانہ “آشیانہ” کے مرکزی کردار پر روشنی ڈالئے۔
جواب۔
افسانہ “آشیانہ” کے مرکزی کردار سراج کے والدین ہیں جن کی زندگی کا محور ان کا بیٹا اور بہو ہیں۔ والد (برکت علی) اور والدہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں سکون اور اطمینان چاہتے ہیں مگر وقت کے ساتھ انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ جس زندگی کا خواب دیکھ رہے تھے وہ بنگلور میں ممکن نہیں۔
والدہ ایک مضبوط، حساس اور خودمختار خاتون ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اپنے گھر کی دیکھ بھال میں گزارا۔ ان کا دل اپنے پرانے گھر میں اٹکا ہوا ہے جہاں وہ خود کو زیادہ بااختیار اور خود مختار محسوس کرتی تھیں۔
والد (برکت علی) بھی ایک تجربہ کار اور سنجیدہ شخصیت کے حامل ہیں جو اپنے بیٹے کے گھر میں رہتے ہوئے ایک اجنبی پن محسوس کرتے ہیں۔ ان کے دل میں بھی اپنے پرانے گھر کی یادیں زندہ ہیں اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ وہ اس نئے ماحول میں کبھی مکمل طور پر فٹ نہیں ہو سکتے۔
دونوں کردار ایک اہم زندگی کے سفر پر ہیں جہاں وہ آرام و سکون کے باوجود اپنے اصل آشیانے کی یاد میں مبتلا ہیں۔ ان کا یہ سفر نہ صرف جسمانی ہے بلکہ ایک داخلی جذباتی سفر بھی ہے جس میں وہ اپنے ماضی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اس کا دوبارہ حصول چاہتے ہیں۔
سوال3۔ افسانے کے ارتقاء کا جائزہ لیجئے۔
جواب۔
اردو افسانہ اپنی ابتدا میں مختصر کہانیوں کی شکل میں سامنے آیا جس میں عام زندگی کے حالات اور واقعات کو سادہ زبان میں بیان کیا جاتا تھا۔ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم جیسے افسانہ نگاروں نے ابتدائی دور میں افسانہ کو عوامی مسائل اور معاشرتی ناانصافیوں کا آئینہ بنایا۔
وقت کے ساتھ اردو افسانہ میں نئے موضوعات اور اسلوب شامل ہونے لگے۔ سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور کرشن چندر نے اردو افسانہ کو حقیقت پسندی کی نئی جہتیں دیں جن میں انسانی نفسیات، جنسی موضوعات اور سماجی مسائل کو بے باکی سے پیش کیا گیا۔
1950ء کے بعد اردو افسانہ میں علامت پسندی، جدیدیت اور وجودیت جیسے نظریات نے جگہ بنائی۔ یہ افسانے زیادہ گہرے اور فکری نوعیت کے ہو گئے جہاں واقعات سے زیادہ خیالات اور جذبات کو بیان کیا جانے لگا۔ اس دور میں احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین جیسے افسانہ نگار سامنے آئے جنہوں نے جدید موضوعات کو اپنی تحریروں میں شامل کیا۔
جدید دور میں اردو افسانہ نے تکنیکی اور فکری دونوں لحاظ سے بڑی ترقی کی ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں نے خاص طور پر خواتین کے مسائل اور جذبات کو افسانوں میں جگہ دی۔ نگار عظیم جیسے لکھاریوں نے نسوانی شعور اور حقوق پر توجہ دی۔ اب اردو افسانہ صرف قصے کہانیوں تک محدود نہیں بلکہ یہ معاشرتی، نفسیاتی اور عالمی مسائل کو بھی چھوتا ہے۔
مزید یہ کہ افسانہ ایک مختصر بیانیہ سے بڑھ کر ایک فلسفیانہ اور فکری تحریر کی صورت اختیار کر گیا ہے جس میں زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے پہلو کو بڑی خوبصورتی اور گہرائی سے بیان کیا جاتا ہے۔
سوال4۔ نگار عظیم کی افسانوی خصوصیات بیان کیجئے۔
جواب۔
نگار عظیم کی افسانوی تحریروں میں نسوانی جذبات، سماجی ناانصافی اور جدید زندگی کے پیچیدہ مسائل کو گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کے افسانے خاص طور پر خواتین کی زندگی، ان کے حقوق اور ان کے اندرونی احساسات پر مرکوز ہوتے ہیں۔
ان کی تحریروں میں خواتین کے جذبات کو بڑے موثر اور حساس انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف خواتین کے مسائل کو سامنے لاتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ جڑی ہوئی سماجی ناانصافی اور جبر کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔
نگار عظیم کی افسانوی زبان سادہ اور فطری ہے جس میں وہ کم لفظوں میں بڑی بات کہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کا انداز بیان سادہ لیکن جذباتی اور فکری نوعیت کا ہوتا ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
ان کے افسانوں میں حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ سماجی تضادات کو بھی بڑی گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کی تحریریں عموماً معاشرتی حقائق کی عکاسی کرتی ہیں اور قاری کو معاشرتی اور سماجی مسائل پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ان کے کردار حقیقی زندگی کے کرداروں پر مبنی ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنے آس پاس دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی تحریریں انسانی نفسیات، سماجی رواج اور طبقاتی فرق کو بڑے گہرے اور منفرد انداز میں پیش کرتی ہیں، جو انہیں جدید اردو افسانہ نگاروں میں ایک اہم مقام عطا کرتی ہیں۔
سوال5۔ مندرجہ ذیل الفاظ کی جمع بنائیے
جواب۔
ضد: اَضداد
خدمت: خدمات
موقع: مواقع
مسئلہ: مسائل
منزل: منزلیں