سرسید احمد خان
سرسید احمد خان 1817ء میں ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش ان کی والدہ کی نگرانی میں ہوئی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1862ء میں غازی پور میں انہوں نے ایک انجمن بنائی جس کا نام “سائنٹفک سوسائٹی” تھا۔ 1869ء میں سرسید انگلستان گئے اور واپسی کے بعد انہوں نے “تہذیب الاخلاق” نام سے ایک رسالہ جاری کیا، جس میں سماجی، تہذیبی اور ادبی موضوعات پر مضامین شائع ہوتے تھے۔
سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں ایک اسکول قائم کیا جو 1878ء میں “محمڈن اینگلو اور نیشنل کالج” بنا اور بعد میں یہ ادارہ “علی گڑھ مسلم یونیورسٹی” کی شکل اختیار کر گیا۔ 1878ء میں سرسید احمد خان کو “سر” کا خطاب ملا جو ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ سرسید احمد خان کی مشہور تصانیف میں “آثار الصنادید” اور “اسباب بغاوت ہند” خاص طور پر اہم ہیں۔
سرسید نے اردو نثر میں نئی بنیاد رکھی اور مختصر مضمون نگاری کو فروغ دیا۔ انہوں نے لمبی تحریروں کے بجائے مختصر اور جامع انداز اپنایا۔ ان کی نثر میں ان کی شخصیت کی طرح وقار اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ سرسید احمد خان کا انتقال 1898ء میں ہوا اور انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دفن کیا گیا۔
“ریا” کا خلاصہ
یہ کہانی “ریا” یعنی دکھاوے اور بناوٹ کے موضوع پر ہے جس میں سرسید احمد خان نے ان لوگوں پر روشنی ڈالی ہے جو اپنے حقیقی کردار کو چھپاتے ہیں اور خود کو کچھ اور ظاہر کرتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کے ریاکار لوگوں کی مثالیں دیتے ہیں ایک طبقہ وہ ہے جو خود کو زیادہ بُرا ظاہر کرتا ہے جتنا وہ حقیقت میں ہے اور دوسرا طبقہ وہ جو زیادہ نیک اور دیندار ہونے کا ڈرامہ کرتا ہے۔ لیکن ان سب سے زیادہ خطرناک وہ لوگ ہیں جو اپنی اندرونی برائیوں کو بھی نہیں سمجھ پاتے اور خود کو نیک تصور کرتے ہیں۔
سرسید اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے دشمنوں کی تنقید پر غور کرنا چاہیے کیونکہ دشمن ہمارے عیبوں کو تلاش کرتا ہے اور اکثر حقیقت بیان کرتا ہے جب کہ دوست ہماری خامیوں کو نظرانداز کرتے ہیں یا بہت نرمی سے بیان کرتے ہیں۔ دشمن کی تنقید ہمیں اپنی خامیوں سے آگاہ کرتی ہے اور انہیں دور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
آخر میں سرسید انسان کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال اور خیالات کو مذہبی اصولوں کے مطابق جانچیں اور اپنی زندگی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ساتھ موازنہ کریں۔ اس طرح ہمیں اپنی پوشیدہ برائیاں اور خامیاں سمجھ میں آ سکتی ہیں اور ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔
ریا مضمون میں سرسید احمد خان نے بناوٹ اور دکھاوے پر بات کی ہے اور اس میں انسان کے باطن اور ظاہر کے فرق کو بیان کیا ہے۔ وہ ان لوگوں پر تنقید کرتے ہیں جو خود کو زیادہ دیندار یا بد ظاہر کرتے ہیں جتنا وہ دراصل ہیں۔ سرسید کے مطابق سب سے زیادہ خطرناک وہ لوگ ہیں جو خود کو نیک سمجھتے ہیں مگر اپنی اندرونی برائیوں سے واقف نہیں ہوتے۔ انہوں نے ایسے اصول بیان کیے ہیں جن کے ذریعے انسان اپنے دل کی پوشیدہ خامیوں کو جان سکتا ہے اور اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ سرسید کی پیدائش کب ہوئی؟
جواب۔ سرسید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو ہوئی تھی۔
سوال 2 ۔ سرسید کی والدہ کا نام کیا تھا؟
جواب ۔ سرسید کی والدہ کا نام عزیز النساء بیگم تھا۔
سوال 3 ۔ سرسید کی وفات کب ہوئی؟
جواب ۔ سرسید احمد خان کا انتقال 27 مارچ 1898 کو ہوا۔
سوال 4 ۔ سرسید کا کون سا مضمون آپ کے نصاب میں شامل ہے؟
جواب ۔ ہمارے نصاب میں سرسید احمد خان کا مضمون ریا شامل ہے۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ سرسید کی زندگی کے بارے میں پانچ جملے لکھئے۔
جواب۔
سرسید احمد خان ایک عظیم مفکر اور مصلح تھے۔
وہ 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔
سرسید نے علی گڑھ تحریک کی بنیاد رکھی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام کیا۔
وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلیمی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے کے خواہاں تھے۔
ان کا انتقال 27 مارچ 1898 کو ہوا۔
:سوال 2 ۔ درج ذیل الفاظ کو جملوں میں استعمال کیجیے
جواب ۔
موتی: سمندر سے نکلے ہوئے موتی بہت قیمتی ہوتے ہیں۔
کتاب: میں نے اپنی پسندیدہ کتاب آج مکمل کر لی۔
وقت: وقت کی قدر کرنے والا شخص ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔
نام: اس لڑکے نے اپنے اچھے اخلاق سے بہت نام کمایا۔
قلم: قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہوتی ہے۔
سوال 3 ۔ مضمون کے بارے میں پانچ جملے لکھئے۔
جواب ۔
“ریا”میں سرسید احمد خان نے انسان کی ظاہر اور باطن میں فرق کو بیان کیا ہے۔
اس مضمون میں وہ ریاکاری اور بناوٹ پر تنقید کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو زیادہ نیک یا بد ظاہر کرتے ہیں۔
سرسید یہ بھی بتاتے ہیں کہ دشمن کی تنقید سے ہم اپنے عیب جان سکتے ہیں۔
آخر میں وہ ہمیں نصیحت کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کو مذہبی اصولوں کے مطابق جانچنا چاہیے۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ سرسید کی ادبی خدمات پر ایک مضمون لکھئے۔
جواب ۔
سرسید احمد خان کو اردو ادب اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان کی خدمات کی بدولت ایک مصلح اور مفکر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی ادبی خدمات کا آغاز 19ویں صدی میں ہوا جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا زوال اور برطانوی حکومت کا عروج ہو رہا تھا۔ سرسید کو یہ احساس ہوا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی بڑی وجہ ان کی تعلیمی و علمی پستی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے کے لیے انتھک محنت کی اور اس مقصد کے لیے اردو زبان کو فروغ دیا۔
سرسید کی سب سے اہم ادبی خدمت علی گڑھ تحریک تھی جس کا مقصد مسلمانوں میں جدید تعلیم کو عام کرنا تھا۔ انہوں نے یہ تحریک علی گڑھ میں شروع کی جس کے نتیجے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تحریک نے مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ اور ان کی سماجی و سیاسی حالت بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سرسید کے مضامین کا انداز حقیقت پسندانہ تھا۔ انہوں نے سماجی مسائل، تعلیم، مذہب اور سیاست پر مضامین لکھے۔ ان کی تحریریں سادہ، پر اثر اور دلنشین تھیں جو عوام الناس کے دلوں تک پہنچ جاتی تھیں۔ ان کی مشہور تحریروں میں ’آثارالصنادید‘، ’خطباتِ احمدیہ اور ’تہذیب الاخلاق‘ شامل ہیں۔ “آثارالصنادید” ایک تاریخی کتاب ہے جس میں دہلی کی قدیم عمارتوں اور یادگاروں کا ذکر ہے جبکہ “خطباتِ احمدیہ” میں انہوں نے اسلام اور جدید سائنس کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیا۔
’تہذیب الاخلاق’ سرسید کا ایک اہم رسالہ تھا جس میں انہوں نے مسلمانوں کی ذہنی تربیت اور سماجی اصلاح کے لیے اہم مضامین لکھے۔ یہ رسالہ اردو ادب کی ترقی میں ایک سنگِ میل ثابت ہوا جس نے مسلمانوں کو جدید تعلیم، سائنسی سوچ اور معاشرتی اصلاحات کی طرف راغب کیا۔ اس رسالے کے ذریعے سرسید نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر وہ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر نہ چلے تو پسماندہ رہ جائیں گے۔
سرسید احمد خان کی ایک اور ادبی خدمت اردو زبان کی ترویج و ترقی ہے۔ انہوں نے اردو کو علمی زبان کے طور پر فروغ دینے کے لیے مختلف کتابیں اور مضامین لکھے اور اسے جدید تعلیم کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے اردو زبان میں مغربی علوم و فنون کی کتابوں کا ترجمہ کیا تاکہ مسلمان ان علوم سے فائدہ اٹھا سکیں۔
مختصر یہ کہ سرسید احمد خان کی ادبی خدمات کا مقصد مسلمانوں میں تعلیم و تربیت کو فروغ دینا، ان کی سماجی اصلاح کرنا اور انہیں دنیاوی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔ ان کی تحریریں آج بھی اردو ادب میں زندہ ہیں اور مسلمانوں کو تعلیم و شعور کے میدان میں آگے بڑھنے کی تحریک دیتی ہیں۔
سوال 2 ۔ زیر نصاب مضمون “ریا” کا مرکزی خیال پیش کیجئے۔
جواب ۔
سرسید احمد خان کا مضمون “ریا” انسان کے ظاہر اور باطن میں تضاد اور بناوٹی دینداری پر تنقید کرتا ہے۔ اس مضمون کا بنیادی مقصد ریاکاری اور بناوٹ کی حقیقت کو بیان کرنا اور لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ صرف ظاہری نیکی یا دینداری کا مظاہرہ کرنے سے انسان بہتر نہیں بن سکتا۔ حقیقی نیکی وہ ہے جو دل سے ہو اور جس میں انسان کا عمل اور نیت دونوں پاکیزہ ہوں۔
سرسید اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی اصلیت سے زیادہ نیک یا بد ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی برائیوں کو چھپاتے ہیں اور دوسروں کو اپنی نیکی کا جھوٹا دکھاوہ پیش کرتے ہیں جبکہ ان کا دل ان کی ظاہری دینداری کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے آپ کو زیادہ گناہگار ظاہر کرتے ہیں تاکہ دنیا انہیں برا سمجھے حالانکہ ان کے دل میں ایسی برائی موجود نہیں ہوتی۔
مضمون کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے پوشیدہ عیبوں کو سمجھنا چاہیے اور اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ سرسید کے مطابق خود کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندرونی جذبات اور نیتوں کا تجزیہ کریں۔ اس کے لیے وہ مختلف اصولوں کا ذکر کرتے ہیں جیسے کہ ہمیں اپنے دشمنوں کی تنقید کو سننا چاہیے کیونکہ وہ ہمیں ہماری خامیوں سے آگاہ کرتے ہیں جبکہ دوست اکثر ہماری تعریف کر کے ہماری برائیوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
سرسید یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انسان کو اپنی زندگی کو مذہبی اصولوں کے مطابق جانچنا چاہیے تاکہ وہ اپنے اندرونی عیبوں کو دور کر سکے۔ وہ یہ نصیحت کرتے ہیں کہ انسان کو اپنے دل کی پوشیدہ برائیوں سے بچنے کے لیے ہمیشہ خدا کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔
مضمون کا اختتام اس نصیحت پر ہوتا ہے کہ حقیقی نیکی وہ ہے جو انسان کے دل سے ہو نہ کہ وہ جو دنیا کے سامنے دکھاوے کے طور پر کی جائے۔ سرسید نے یہ واضح کیا ہے کہ ریاکاری نہ صرف انسان کو دوسروں کے سامنے نیک ظاہر کرتی ہے بلکہ انسان خود اپنے آپ کو بھی دھوکہ دیتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے دل کے سچائی کو تلاش کرنا اور اپنی حقیقی اصلاح کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔