ڈاکٹر عبد المغنی
ڈاکٹر عبد المغنی بہار کے مشہور دانشور اور تنقید نگار تھے۔ انہوں نے موجودہ دور میں شعر و ادب اور فکر کو صاف اور وسیع انداز میں پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے والد مولانا عبدالروف ایک معروف عالم دین تھے۔ ڈاکٹر عبد المغنی کی پیدائش 1934ء میں اورنگ آباد بہار میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور پھر مدرسہ شمس الہدیٰ میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے عالم کی سند حاصل کی۔ مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے جدید تعلیم کی طرف بھی توجہ دی اور انگریزی میں ایم اے کیا۔
جب ملازمت کا وقت آیا تو ان کا تقرر پٹنہ یونیورسٹی کے پٹنہ کالج میں انگریزی کے لیکچرر کے طور پر ہوا۔ بعد میں ان کا تبادلہ بی این کالج میں ہو گیا جہاں سے وہ ریٹائر ہوئے۔ پروفیسر عبد المغنی نے شعر و ادب کے مختلف موضوعات پر لکھا اور اقبال ان کا خاص موضوع تھا۔ وہ تقریباً نو کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے زندگی اور ادب کے بارے میں ایک خاص تعمیری سوچ کو اپنی تحریروں میں پیش کیا۔
ان کی مشہور تنقیدی کتابوں میں جادہ اعتدال، نقطہ نظر،معیار و اقدار، تشکیل جدید اور اقبال اورعالمی ادب شامل ہیں۔ پروفیسر عبد المغنی کا انتقال 5 ستمبر 2006ء کو پٹنہ میں ہوا۔
“ادب کی پہچان” کا خلاصہ
اس مضمون میں ادب کی پہچان اور اس کی قدر کے مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضمون یہ وضاحت کرتا ہے کہ آج کے دور میں ادب پڑھنے والے تو زیادہ ہیں، لیکن اسے صحیح معنوں میں سمجھنے اور پرکھنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ ناول، افسانہ اور رسالے ہر کسی کی دسترس میں ہیں لیکن ان میں موجود ادبی معیار کی شناخت اور فرق کرنا عام لوگوں کے لیے مشکل ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں ادب اور غیر ادب آپس میں خلط ملط ہو چکے ہیں۔
ادب کی تعریف اور پہچان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ادب کی تعریف کرنا ہمیشہ سے ایک مشکل کام رہا ہے۔ کچھ لوگ ہر اچھی تحریر چاہے وہ کسی بھی موضوع پر ہو کو ادب مانتے ہیں جبکہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ادب کو مخصوص صنفوں، جیسے شاعری، ناول، ڈراما، افسانہ وغیرہ تک محدود سمجھا جائے۔ مزید یہ کہ ادب کے اندر تخلیقی انفرادیت کا ہونا ضروری ہے اور سطحی، رسمی یا فرسودہ چیزوں کو ادب نہیں کہا جا سکتا۔
مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ ادب کا ایک بلند معیار ہونا ضروری ہے اور ادب کی مکمل تخلیق میں فکر اور فن دونوں کا اعلیٰ ہونا لازمی ہے۔ اس کے باوجود ہر تحریر ادب کے اعلیٰ معیار پر نہیں ہوتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تحریر مکمل طور پر غیر ادب ہے۔ ادب کو سمجھنے کے لیے اس کی پہچان کے ساتھ ساتھ اس کی پرکھ بھی ضروری ہے تاکہ معیاری اور عمدہ ادب کو پہچانا جا سکے اور اس کی قدر کی جا سکے۔
آخر میں مضمون اس بات پر زور دیتا ہے کہ ادب کی شناخت اور قدر شناسی بہت اہم ہے تاکہ ادب کا معیار برقرار رکھا جا سکے اور سطحی یا غیر معیاری تحریروں سے بچا جا سکے۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ نصاب میں شامل مضمون “ادب کی پہچان” کے مضمون نگار کون ہیں؟
جواب ۔ مضمون “ادب کی پہچان” کے مضمون نگار ڈاکٹر عبد المغنی ہیں۔
سوال 2 ۔ ڈاکٹر عبد المغنی کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب ۔ ڈاکٹر عبد المغنی کی پیدائش 1934ء میں ضلع اورنگ آباد بہار میں ہوئی تھی۔
سوال 3 ۔ ڈاکٹر عبد المغنی کی دو کتابوں کے نام لکھئے۔
جواب ۔ “جادہ اعتدال” اور “نقطہ نظر”۔
سوال 4 ۔ ڈاکٹر عبد المغنی نے کسی مدرسے میں کہاں تک تعلیم حاصل کی؟
جواب ۔ انہوں نے مدرسہ شمس الہدیٰ سے “عالم” کی سند حاصل کی۔
سوال 5 ۔ ڈاکٹر عبد المغنی نے اپنی ملازمت کا آغاز کس کالج سے کیا؟
جواب ۔ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز پٹنہ کالج میں انگریزی کے لیکچرر کے طور پر کیا۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ ڈاکٹر عبد المغنی کی تنقید نگاری پر پانچ جملے لکھئے
جواب ۔
ڈاکٹر عبد المغنی اردو ادب کے ایک ممتاز تنقید نگار تھے جنہوں نے شعر و ادب کی تخلیقات پر گہرے اور بامعنی مطالعے پیش کیے۔
ان کی تنقید نگاری میں موضوعات کی وسعت اور اظہار کی شفافیت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اقبال پر ان کا کام ان کی تنقید نگاری کا اہم حصہ ہے جہاں انہوں نے اقبال کی شاعری اور فلسفے کی جامع تشریح کی۔
ڈاکٹرعبد المغنی نے ادب کے معیار اور قدر و قیمت کے حوالے سے اصولی و تعمیری تنقید پیش کی جس سے ادب کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
ان کی تنقید نگاری میں ادب کو زندگی اور انسانی تہذیب کے حوالے سے پرکھا گیا ہے اور ادب کے فکری اور فنّی معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوال 2 ۔ ادب کی پہچان پر مختصر روشنی ڈالئے
جواب ۔
ادب کی پہچان میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ادب محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ فکر و فن کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ادب ایک ایسی تخلیقی تحریر ہے جس میں جدت، تازگی اور گہرائی پائی جاتی ہو۔ ادب کی ایک خاص پہچان یہ بھی ہے کہ اس میں انسانی تہذیب، اخلاقیات اور جمالیات کی بہترین قدریں نمایاں ہوں۔ ادب کے دو اہم پہلو ہوتے ہیں ایک اسلوب اور دوسرا مواد اور ان دونوں کے درمیان ہم آہنگی ادب کو مکمل اور مؤثر بناتی ہے۔ ادب کی پہچان کا معیار اس کی تخلیقی انفرادیت، اظہار کی تازگی اور موضوع کی گہرائی میں پوشیدہ ہوتا ہے۔
سوال 3 ۔ ادب کی پہچان کے حوالے سے ادب کی مختصر تعریف لکھئے
جواب ۔
ادب وہ تحریری فن ہے جو انسانی جذبات، خیالات اور تجربات کو خوبصورت اور منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ ادب میں تخلیقی انفرادیت، فنکارانہ اظہار اور موضوع کی گہرائی کا امتزاج ہوتا ہے۔ یہ زندگی کے جمالیاتی اور اخلاقی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے اور انسانی تہذیب کے اعلیٰ اصولوں کا مظہر ہوتا ہے۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ ڈاکٹر عبد المغنی کی تنقید نگاری پر تفصیلی روشنی ڈالئے
جواب ۔
ڈاکٹر عبد المغنی اردو ادب کے معروف تنقید نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو زبان و ادب کی فکری اور فنّی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی تنقید نگاری کا اہم موضوع اقبال کی شاعری اور عالمی ادب رہا ہے اور انہوں نے اس موضوع پر گہری تحقیق اور تفصیل سے لکھا ہے۔ ڈاکٹر عبد المغنی کی تنقید نگاری کا خاص پہلو یہ ہے کہ وہ ادب کو صرف فن کے طور پر نہیں بلکہ زندگی اور معاشرت کے اہم پہلوؤں سے جوڑ کر دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک ادب صرف ایک تفریح یا دلچسپی کا ذریعہ نہیں بلکہ انسان کی فکری، اخلاقی اور جمالیاتی ترقی کا وسیلہ ہے
انہوں نے اپنے تنقیدی کام میں ادب کی تخلیقی انفرادیت اور ادبی معیارات پر خاص زور دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ادب کو سطحی یا رسمی انداز میں نہیں لکھا جانا چاہیے بلکہ اس میں گہرائی اور سنجیدگی ہونی چاہیے۔ ان کی تنقید میں ادب کے فلسفیانہ، سماجی اور تہذیبی پہلوؤں پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ انہوں نے ادب کی اہمیت کو اس کے فنّی اور فکری معیار کے حوالے سے پرکھا اور یہ باور کرایا کہ ادب میں نہ صرف تخلیقی تازگی ہونی چاہیے بلکہ اس کا مقصد زندگی کی معنویت کو واضح کرنا اور انسانیت کی فلاح کے اصولوں کو فروغ دینا بھی ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر عبد المغنی کی تنقید نگاری میں ایک اور اہم عنصر یہ ہے کہ وہ ادب کی تخلیقات کو معروضی اور تعمیری انداز میں پرکھتے تھے۔ ان کے نزدیک ہر ادبی تخلیق کو ایک خاص معیار پر پرکھا جانا ضروری ہے تاکہ وہ ادب کے اصولوں پر پورا اتر سکے۔ ان کی تنقید میں فلسفہ، تاریخ اور سماجیات کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان کا تنقیدی شعور ادب کی فکری اور فنّی ترقی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
سوال 2۔ ادب کی پہچان کے حوالے سے ادب کے تعلق سے مختلف نظریات بیان کیجئے
جواب ۔
ادب کی پہچان کے حوالے سے مختلف نظریات موجود ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ادب ایک مخصوص طرز بیان کا نام ہے اور ہر وہ تحریر جو ادبیت کے ساتھ لکھی جائے ادب کہلاتی ہے چاہے وہ کسی بھی موضوع پر ہو۔ اس نظریے کے مطابق ادب کا اسلوب ہی اصل پہچان ہے اور اس کا مواد یا موضوع ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ادب صرف ایک مخصوص مواد اور صنف کی تحریر کو کہا جاتا ہے جیسے شاعری، ناول، افسانہ وغیرہ۔ اس نظریے کے مطابق ادب کا صرف اسلوب ہی نہیں بلکہ اس کا موضوع بھی خاص ہونا چاہیے اور ادب کی تخلیقات کو مخصوص ہیئتوں میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اس نظریے میں ادب کی پہچان اس کی صنفوں اور موضوعات سے کی جاتی ہے اور ادب کی حدیں معین ہوتی ہیں۔
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ادب کی پہچان اس کی تخلیقی انفرادیت اور جدت میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہر تحریر کو ادب نہیں کہا جا سکتا بلکہ صرف وہ تحریریں ادب کہلاتی ہیں جو تخلیقی اور فنی لحاظ سے منفرد ہوں اور ان میں تازگی اور گہرائی ہو۔ اس نظریے کے مطابق رسمی، فرسودہ اور سطحی تحریریں ادب کے دائرے سے باہر ہیں اور ادب وہی ہے جس میں معیار اور انفرادیت ہو۔
ایک اور مکتب فکر یہ کہتا ہے کہ ادب صرف تب مکمل اور اعلیٰ ہوتا ہے جب اس میں موضوع کی سنجیدگی، فن کی لطافت اور اسلوب کی نفاست ہو۔ یہ نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ادب کا مقصد زندگی کی بہتر تفہیم اور انسانی تہذیب کی ترقی ہونا چاہیے اور صرف وہ تحریریں ادب کہلانے کے لائق ہیں جن میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
سوال 3 ۔ اردو ادب میں تنقیدی روایات کا جائزہ لیجئے
جواب ۔
اردو ادب میں تنقیدی روایات کا آغاز ابتدائی دور میں شعری تنقید سے ہوا۔ اردو شاعری کے مختلف اصول و ضوابط پر تنقید کی گئی اور قدیم دور میں زیادہ تر تنقید شاعری کے صنفی اصولوں پر مرکوز تھی۔ حالی اور شبلی جیسے ادیبوں نے اردو تنقید کو ایک علمی اور فکری اصول کے طور پر متعارف کرایا اور ان کے کام نے اردو تنقید کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔
اردو ادب کی تنقیدی روایات میں حالی نے “مقدمہ شعر و شاعری” کے ذریعے ادب کی فنّی اور فکری بنیادوں پر غور و فکر کا راستہ کھولا۔ انہوں نے شاعری کے اصول و ضوابط کی وضاحت کی اور اسے فنی اور اخلاقی اصولوں کے مطابق پرکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شبلی نعمانی نے بھی اردو تنقید میں اہم کردار ادا کیا انہوں نے ادب کی تاریخ اور فلسفے کو تنقیدی بنیادوں پر پرکھا اور اردو ادب کو عالمی تناظر میں دیکھنے کا رجحان پیش کیا۔
جدید دور میں تنقید نگاری میں مزید وسعت آئی اور ناقدین نے ادب کی مختلف جہتوں پر گہری تحقیق کی۔ جدید تنقید نگاروں نے ادب کو صرف فن کی نظر سے نہیں بلکہ فلسفہ، سماجیات اور نفسیات کے تناظر میں بھی پرکھا۔ اس دوران ڈاکٹر عبد المغنی جیسے ناقدین نے ادب کی تخلیقی اور فکری بنیادوں پر زور دیا اور ادب کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ ان کی تنقید میں ادب کی تخلیقی انفرادیت، فکر کی گہرائی اور فنّی جدت کو پرکھا گیا جس نے اردو ادب میں تنقیدی شعور کو مزید تقویت دی۔
مجموعی طور پر اردو ادب میں تنقید کی روایات نے ادب کو ایک علمی، فکری اور فنی اصول کے طور پر سمجھنے اور پرکھنے کا موقع فراہم کیا۔ جدید دور میں تنقید کی وسعت اور اس کا عملی اطلاق ادب کی تخلیقی اور فکری ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اردو ادب میں تنقیدی روایات ہمیشہ سے ادب کو معیاری اور بامقصد بنانے کے لئے کارگر ثابت ہوئی ہیں۔