Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 23 Zahr e Ishque زہرِعشق Solutions

مثنوی ایک عربی لفظ ہے، لیکن عرب میں اسے زیادہ مقبولیت نہیں ملی۔ دراصل، مثنوی فارسی ادب کا ایک تحفہ ہے، اور وہاں اس صنف میں بہت اہم کام کیا گیا ہے۔ فارسی مثنویاں اردو مثنویوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشہور اور مقبول ہیں۔ شاہنامہ فردوسی، بوستان سعدی، سکندر نظامی اور مثنوی معنوی جیسی فارسی مثنویاں اپنی اہمیت اور شہرت میں کسی دیوان سے کم نہیں۔ جبکہ اردو مثنویوں کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جو غزل کو نصیب ہوئی۔

مثنوی کی تعریف کرتے ہوئے گیان چند کہتے ہیں: “مثنوی ایسی نظم ہے جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ایک جیسے قافیے میں ہوں، لیکن ہر شعر کے بعد قافیہ تبدیل ہوتا جائے۔ دو دو ہم قافیہ مصرعوں کی وجہ سے اسے مثنوی کہا جاتا ہے، کیونکہ مثنوی کا مطلب ہے ‘دو دو’۔ بنیادی طور پر، مثنوی ایک مخصوص ترتیب کی نظم ہے، لیکن روایات نے اس کی ہیئت کو بھی طے کر دیا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے جس طرح غزل، قصیدہ، ریختی، واسوخت، اور مرثیہ ایک دوسرے سے الگ پہچانے جاتے ہیں، اسی طرح مثنوی بھی ایک خاص طرزِ فکر کی نمائندگی کرتی ہے۔”

فرق یہ ہے کہ مثنوی کا دائرہ کار دوسری اصناف کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع اور جامع ہوتا ہے۔ اردو ادب میں مثنوی لکھنے والوں میں مرزا شوق لکھنوی، دیا شنکر نسیم، میر حسن، شوق، نوی، ملا وجہی اور خواصی جیسے شاعروں کا نام قابل ذکر ہے۔

شوق لکھنوی کا اصل نام تصدق حسین خاں تھا اور تخلص شوق رکھتے تھے۔ وہ 1783ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آغا علی خاں تھے، جو ایک مشہور طبیب تھے۔ شوق کا خاندان طبیبوں کے پیشے سے وابستہ تھا اور لکھنو میں اچھی شہرت رکھتا تھا۔

نواب مرزا شوق نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد میں اپنے زمانے کے مشہور اساتذہ سے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے علم طب میں بھی مہارت حاصل کی اور اپنے خاندانی پیشے کو اپناتے ہوئے طبابت اختیار کی۔ واجد علی شاہ کے دور حکومت میں وہ شاہی معالج مقرر ہوئے۔ شوق لکھنوی کا انتقال 1871ء میں لکھنو میں ہوا۔

مرزا شوق نے شاعری کا آغاز غزل سے کیا، لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ یہ ان کا میدان نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے غزل کو چھوڑ کر مثنوی کی طرف توجہ دی۔ مثنوی کے میدان میں شوق کو بڑی کامیابی ملی، اور اردوادب میں وہ ایک معروف مثنوی نگار کے طورپر پہچانے جانے لگے۔ ان کی مشہور مثنویاں زہر عشق،بہارعشق اورفریب عشق ہیں،جوان کی شہرت کا باعث بنیں۔ان مثنویوں میں سے زہرعشق کو سب سے زیادہ مقبولیت اورشہرت ملی۔

زہرِ عشق کی کہانی ایک دردناک اور جذباتی محبت کی داستان ہے، جس میں شاعر اپنی یک طرفہ محبت کے گہرے درد اور اس میں مبتلا ہونے والے دل کی بے بسی کو بیان کرتا ہے۔ مثنوی کی ابتدا میں شاعر قصہ سنانے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ ایک غم انگیز اور حیرت انگیز داستان ہے، جو سننے والوں کوحیرت میں ڈال دے گی۔

کہانی میں شاعر بیان کرتا ہے کہ سوداگر کی بیٹی ایک نادر اور لاجواب حسن و جمال کی مالک تھی۔ وہ اپنی جوانی میں حسن کا نمونہ تھی، اور اس کے والدین اس کی عزت اور حفاظت کے لیے فکر مند تھے۔ اس کا حسن یوسف جیسا اور چال ڈھال بہت ہی شائستہ اور نفیس تھی۔ اس کے والدین اسے نظر بد سے بچانے کی کوشش کرتے تھے، لیکن ایک دن قدرت کا نظام ایسا ہوتا ہے کہ شاعر کی نظر اس پر پڑ جاتی ہے۔

شاعر اسے پہلی بار دیکھتے ہی دل ہار بیٹھتا ہے۔ اس کی نظر جیسے ہی سوداگر کی بیٹی پر پڑتی ہے، وہ بے ساختہ محبت کا شکار ہو جاتا ہے۔ شاعر کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ خاموش کھڑا رہتا ہے، گویا کوئی تصویر ہو، اور اس کے دل پر غم و محبت کا شدید اثر ہوتا ہے۔ وہ اسے بار بار دیکھتا ہے، لیکن اظہار محبت کرنے کی ہمت نہیں کر پاتا۔ وہ محبت کے تیر سے زخمی ہو جاتا ہے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔

مثنوی میں شاعر محبت کی بے بسی اور دل کی کیفیت کو نہایت دلکش انداز میں بیان کرتا ہے۔ وہ محبوبہ کے حسن کا قائل ہو کر اس کے آگے بے بس ہو جاتا ہے، اور اس کی محبت میں گرفتار ہو کر ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب شام ہو جاتی ہے، تو سوداگر کی بیٹی کی ایک کنیز شاعر کے پاس آتی ہے اور اسے پیغام دیتی ہے کہ اس کی ماں اسے بلا رہی ہے۔

شاعر نے اپنی محبت کو اپنی زبان سے نہیں بلکہ اپنی آنکھوں اور دل کی کیفیت سے بیان کیا ہے۔ وہ محبوبہ کے سامنے چپ کھڑا رہتا ہے، جیسے کوئی مجسمہ ہو، اور اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔

اس مثنوی میں عشق کی شدت اور اس کے اثرات کا گہرائی سے اظہار کیا گیا ہے۔ شاعر کی محبت یک طرفہ ہے، اور وہ اس کے درد میں مبتلا ہے۔

شاعر کا دل عشق کے غم میں الجھتا رہتا ہے، اور وہ اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پاتا۔

اس کہانی میں شاعر اور محبوبہ کے درمیان کوئی براہ راست گفتگو یا ربط نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی محبت کی شدت اور جذبات کا اظہار بہت گہرا اور مضبوط ہے۔

زہر عشق” ایک ایسی مثنوی ہے جو عشق کی کڑواہٹ اور اس کے زہریلے اثرات کو بیان کرتی ہے، جہاں محبت”

کی شدت انسان کو بے اختیار اور بے بس کر دیتی ہے، اور آخر میں یہ محبت ایک غم کی داستان بن جاتی ہے۔

جواب ۔ (ب) تصدق حسین خاں

جواب۔  (د) 1783

جواب ۔ (ب) طبابت کا

جواب ۔ (الف) 1871

جواب ۔ (ج) فریب عشق

زیر نصاب نظم مثنوی کی صنف سے تعلق رکھتی ہے۔

مثنوی شاعری کی ایک صنف ہے جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں لیکن ہر نئے شعر میں قافیہ بدل جاتا ہے۔ مثنوی میں اکثر طویل داستان یا واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔

شام کا نقشہ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ جب چرخ پر ابر چھایا اور بادل برسے، تو آسمان پر قوس (رینبو) نکل آئی اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔

سوداگر کی لڑکی کی آنکھوں کی مثال غزال (ہرن) کی آنکھوں سے دی گئی ہے۔

زہرِ عشق کی کہانی میں شاعر سوداگر کی خوبصورت بیٹی کو دیکھتے ہی دل ہار بیٹھتا ہے۔ وہ اپنے دل کی حالت کو بیان نہیں کر پاتا اور اس کی محبت یک طرفہ رہ جاتی ہے۔ شاعر اس کے حسن کا قائل ہوتا ہے، لیکن اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پاتا۔ یہ مثنوی محبت کی شدت اور اس کی بے بسی کو بیان کرتی ہے۔

مرزا شوق لکھنوی کا اصل نام تصدق حسین خاں تھا اور وہ 1783ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان طبیبوں کا تھا، اور ان کے والد آغا علی خاں بھی نامور طبیب تھے۔ شوق نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور بعد میں اپنے وقت کے مشہور اساتذہ سے مختلف علوم سیکھے۔ ان کو طبابت میں بھی مہارت حاصل تھی اور اپنے خاندانی پیشے کو اپناتے ہوئے انہوں نے علاج معالجے کا کام شروع کیا۔ واجد علی شاہ کے دور میں انہیں شاہی معالج مقرر کیا گیا۔ مرزا شوق کا انتقال 1871ء میں لکھنو میں ہوا۔

شاعری کے میدان میں شوق نے ابتدا غزل سے کی، لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ غزل ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے غزل کو ترک کر کے مثنوی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے نے انہیں مثنوی نگار کی حیثیت سے بے پناہ شہرت دی۔ ان کی مشہور مثنویاں “زہر عشق”، “بہار عشق”، اور “فریب عشق” ہیں، جنہوں نے اردو مثنوی نگاری میں انہیں ایک خاص مقام دلایا۔

مرزا شوق لکھنوی کو اردو مثنوی نگاری میں اہم مقام حاصل ہے۔ اگرچہ انہوں نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی تھی، لیکن مثنوی میں ان کا نام سب سے زیادہ معروف ہوا۔ ان کی مشہور مثنویاں “زہر عشق”، “بہار عشق” اور “فریب عشق” ہیں، جن میں “زہر عشق” کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی۔ ان مثنویوں میں عشق و محبت کی داستانیں، جذبات کی شدت اور انسانی فطرت کی باریکیاں نہایت خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں۔

مرزا شوق کی مثنویوں میں نہ صرف محبت کے جذبات کو پیش کیا گیا ہے، بلکہ سماجی حالات اور انسانی رویوں کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ ان کی مثنویوں کا زبان و بیان نہایت سادہ، پراثر اور دلکش ہے، جس کی وجہ سے وہ عام لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئیں۔ “زہر عشق” میں محبت کی بے پناہ شدت اور عاشق کی بے بسی کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے، جو قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

اسم ایک ایسا لفظ ہے جو کسی شخص، چیز، جگہ یا حالت کا نام ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر

شخص: علی، زینب، احمد

چیز: کتاب، قلم، گاڑی

جگہ: لاہور، کراچی، مدرسہ

حالت: خوشی، غم، محبت

اسم کی کئی اقسام ہوتی ہیں، جیسے اسمِ ذات (کسی خاص شخص یا چیز کا نام)، اسمِ نکرہ (کسی عام شخص یا چیز کا نام)، اسمِ صفت (کسی چیز کی خصوصیت یا حالت کا نام) وغیرہ۔

ضد دو الفاظ کے درمیان وہ تعلق ہے جس میں ایک لفظ کا مطلب دوسرے کے بالکل برعکس یا الٹ ہو۔ 

غریب:     امیر 

حسین:     بدصورت 

ارض:      فلک 

عزت:      ذلت 

اعلیٰ:       ادنیٰ

Scroll to Top