bihar board class 12 kahkashan chapter 5 ahmad jamal pasha hijrat احمد جمال پاشا ، ہجرت

احمد جمال پاشا 1929 میں الہ آباد کے محلے خلد آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شجاعت حسین اور دادا کا نام نجف علی تھا۔ شجاعت حسین کی دو شادیاں ہوئیں۔ احمد جمال پاشا دوسری بیوی سروری خاتون کے بیٹے تھے۔ شجاعت حسین 1940 میں الہ آباد سے لکھنو آئے اور امین آباد کے کیا احاطہ میں اپنا گھر خریدا جس کا نام انہوں نے سروری منزل رکھا۔

احمد جمال پاشا نے 1950 میں کوئٹس ہائی اسکول لکھنو سے میٹرک، 1953 میں کرشچین کالج سے انٹر، 1956 میں لکھنو یونی ورسٹی سے بی اے اور 1958 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1957 میں انہوں نے سرسید ہال میگزین اسکالر کا پیروڈی نمبر نکالا۔ اسی سال جھلک بک ڈپو، علی گڑھ نے ان کی کتاب مجاز کے لطیفے شائع کی۔ علی گڑھ سے ایم اے کرنے کے بعد وہ لکھنو واپس آئے اور ماہنامہ اودھ پنچ کا آغاز کیا۔ 1961 میں روزنامہ قومی آواز کے ایڈیٹوریل شعبے میں شامل ہوئے، جہاں جولائی 1976 تک کام کرتے رہے۔

احمد جمال پاشا نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے علاحدگی کے بعد 1966 میں ان کی دوسری شادی سرور جہاں سے ہوئی جو بعد میں سرور جمال کے نام سے مشہور ہوئیں۔ 1976 میں وہ ہمیشہ کے لیے اپنی سسرال سیوان چلے گئے جہاں اسی سال انہیں ذکیہ آفاق اسلامیہ کالج میں اردو لیکچرار کی نوکری مل گئی۔ 28 ستمبر 1987 کو دورانِ ملازمت ہی پٹنہ میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔ 29 ستمبر 1987 کو تارہٹہ (سیوان) میں ان کی تدفین ہوئی۔

احمد جمال پاشا پورے وقت لکھنے پڑھنے کے کام سے جڑے رہے۔ طنز و مزاح ان کا خاص فن تھا۔ اسی وجہ سے غالب اکیڈمی نے انہیں 1986 کا ساگر سوری غالب ایوارڈ دیا۔ ان کی اہم کتابوں کے نام یہ ہیں (۱) اندیشہ شہر (۲) ستم ایجاد (۳) لذت آزار (۴) مضامین پاشا (۵) چشم حیراں (۶) پتیوں پر چھڑکاؤ (۷) ظرافت اور تنقید (۸) اردو کے چار مزاحیہ شاعر (۹) فن لطیفہ گوئی (۱۰) ملا نصیر الدین کے لطیفے (۱۱) مجاز کے لطیفے (۱۲) شوکت تھانوی کی مزاحیہ صحافت (۱۳) دنیا کی لوک کہانیاں (۱۴) بہادر ٹمبا (۱۵) ہجویات میر (۱۶) غالب سے معذرت کے ساتھ۔

بنجاروں کی بستی میں ہر طرف زندگی چلتی نظر آتی ہے۔ لڑکیاں رسّیاں بٹتی ہیں، عورتیں سلیں بناتی ہیں، ٹوکریاں تیار ہوتی ہیں، لڑکے کرتب کی مشق کرتے ہیں اور چولھے کے پاس بلیاں اور کتے بیٹھے رہتے ہیں۔ بنجارے شکار لٹکائے ہنستے ہوئے واپس آتے ہیں۔ میں روزانہ اس بستی کے دو تین چکر لگا لیتا ہوں اور اس سادہ ماحول میں معصومیت اور سکون محسوس کرتا ہوں جیسے میں قدرت کی گود میں ہوں۔ ایک صبح میں نے دیکھا کہ بستی کوچ کی تیاری میں ہے۔ خیمے، سامان، بچے، بکریاں، کتے سب اپنے اپنے طریقے سے سفر کے لیے چل پڑے۔ سردار آگے آگے سینہ تان کر چل رہا تھا اور سب اس کے پیچھے تھے۔ کتے بھی یوں چل رہے تھے جیسے اس جگہ سے جدا ہونے کا دکھ لیے ہوں۔

کچھ دیر بعد جہاں بستی تھی وہاں صرف سنّاٹا رہ گیا۔ تب خیال آیا کہ بنجارہ تو ہمیشہ سفر میں رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ خوراک، پانی اور پناہ کی تلاش میں رہنے والا آوارہ مسافر ہے بالکل ان سائبیریائی پرندوں کی طرح جو موسم بدلتے ہی ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف پرواز کرتے ہیں اور پھر واپس لوٹ آتے ہیں۔ ان خانہ بدوشوں کے سامنے مہذب انسان کمزور لگتا ہے کیونکہ اس کی پوری زندگی ایک گھر بنانے، جوڑنے اور اسی سے چپکے رہنے میں گزر جاتی ہے۔ جبکہ خانہ بدوش کا گھر مٹی کا ایک عارضی بناو ہے جو روز بدلتا رہتا ہے۔ وہ اپنی دنیا خود بناتا ہے اور خود ہی توڑ دیتا ہے۔ بنجارے سماج سے دور رہتے رہتے ایک الگ سماج بن چکے ہیں۔ جھونپڑیوں کے باہر پڑاو ڈالتے ہیں، قانون بھی ان پر سخت ہوتا ہے اور ہر چھوٹی بڑی بات میں انہیں الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا جینا ایک ختم نہ ہونے والا بن باس بن چکا ہے۔

جب میں ہجرت پر غور کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ انسان کی ابتدائی ہجرت تو جنت سے ہوئی تھی۔ اسی دن سے وہ ایک بہتر جگہ، بہتر زندگی اور آخرکار جنت کی طلب میں سفر کرتا رہا ہے۔ سیاست ہو، علاقہ بدلے یا روزگار انسان کا سفر جاری رہتا ہے۔ وطن چھوٹ جائے تو انسان بے جڑ پودے کی طرح ہو جاتا ہے۔ سائنس بھی جب اپنی انتہا پر پہنچتی ہے تو روحانیت سے ملنے لگتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سائنس دان سیاروں پر نئی جگہیں تلاش کر کے کوئی آسان راستہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ شاید جنت تک رسائی کا کوئی شارٹ کٹ مل جائے۔

ہجرت تو ہر کسی نے کرنا ہے چاہے روزگار کے لیے، تبادلے میں یا بہتر مستقبل کی تلاش میں۔ ملازمت والے تو ویسے بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ گھر بنتا ہے مگر کب تک رہیں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔ جو لوگ یورپ، عرب یا امریکہ کا رخ کرتے ہیں وہ بھی ایک طرح سے بنجارے ہیں۔ مگر وہاں کی تنہائی، فاصلے اور جدائی ان پر بھاری پڑتی ہے۔ چاہے سہولتیں ہوں، گاڑیاں ہوں، بڑے گھر ہوں انسان کی اصل سکون تو اپنے لوگوں سے ملتا ہے اور وہ دور رہ کر کمی محسوس کرتا ہے۔

آخر میں یہی لگتا ہے کہ ہجرت انسانیت کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ دنیا کی پوری تاریخ ہجرتوں سے بھری ہے۔ قومیں، افراد، تہذیبیں سب حرکت میں ہیں۔ ہجرت دنیا کو زندہ اور متحرک رکھتی ہے۔ انسان کی کہانی بھی ہجرت کی کہانی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

الف) لکھنو
ب) بجنور
ج) الہ آباد
د) علی گڑھ

الف) 1956
ب) 1958
ج) 1957
د) 1961

الف) دہلی
ب) سیوان
ج) الہ آباد
د) لکھنو

الف) فراق ایوارڈ
ب) غالب میموریل ایوارڈ
ج) ساگر سوری غالب ایوارڈ
د) شمس الرحمٰن ایوارڈ

الف) ریگستان کے اونٹ
ب) سائبیریا کی موسمی مرغابیاں
ج) شہد کی مکھیاں
د) ساحلی پرندے

الف) زیادہ دولت
ب) مسلسل سفر
ج) گھر سے وابستگی
د) سخت موسم

الف) مکہ
ب) بابل
ج) جنت
د) مصر

الف) کھلی فضا میں آزادی
ب) خزاں کے موسم جیسی ویرانی
ج) سونے کے پنجرے میں قید
د) نئی دنیا کی خوشحالی

الف) بڑے بھائی
ب) بیچ کے بھائی
ج) چھوٹے بھائی
د) ہم عمر بھائی

الف) کمزوری
ب) استحکام اور وسعت
ج) نقصان
د) محرومی

جواب ۔  ہجرت انشائیہ صنفِ ادب سے تعلق رکھتا ہے۔

جواب ۔ بنجاروں کو خانہ بدوش کہا جاتا ہے۔

جواب ۔ اس کا مطلب ہے کہخانہ بدوش کسی ایک جگہ کے پابند نہیں ہوتے پوری دنیا ہی ان کا گھر ہے۔

جواب ۔ بادِ شمال شمال کی طرف سے آنے والی سرد ہوا۔

برفانی حصار شدید سردی اور برف سے بنی قدرتی رکاوٹ یا ماحول۔

جواب ۔ سائبیریا کی موسمی مرغابیاں۔

جواب ۔ خانہ بدوشوں کے مقابلے میں مہذب انسان معذور ہے۔

جواب ۔ انشائیہ میں تین ملکوں کا ذکر ہے

عرب ،یورپ اور امریکہ

جواب ۔ مغرب کو غلامی کی علامت کہا گیا ہے۔

جواب ۔ حضرتِ انسان / ابنِ آدم کو جنت سے حکمِ سفر ہوا۔

جواب ۔ انسان کی آخری ہجرت جنت کی طرف واپسی ہے یعنی جنت میں دوبارہ پہنچنا۔

خانہ بدوشوں کا قافلہ کسی منصوبہ بند فوج یا کارواں کی مانند نہیں ہوتا مگر اس میں ترتیب اور ایک خاص طرزِ حرکت واضح طور پر ضرور ہوتا ہے۔ قافلے کی شکل یوں بنتی ہے کہ خیمے، گھریلو ساز و سامان اور روزمرہ کی ضروریات خچروں، گدھوں اور دیگر جانوروں پر لدی ہوتی ہیں۔ آگے سردار یا قافلہ کا سربراہ بڑی شان سے چلتا ہے اس کے پیچھے گھرانے لڑکیاں، عورتیں، لڑکےقطار میں چلتے ہیں۔ ہر ایک کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی چیز ہوتی ہے کسی کے پاس گائے کی رسی کسی کے پاس بکری کی ڈوری وغیرہ۔ بچے بعض اوقات جانوروں پر یا کشادہ جگہوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں کچھ سامان پنجرے یا ٹوکریوں میں بندھے دکھائی دیتا ہے۔ کتے اور بلیاں پیچھے پیچھے ساتھ چلتی ہیں جو اس مقام کے جانے کا دکھ اپنے انداز میں ظاہر کرتی ہیں۔ یوں خانہ بدوشی کا قافلہ ایک متحرک، عملی اور بآہمی مربوط نظام کی مانند بنتا ہے جس میں ہر فرد اور ہر چیز کا ایک مخصوص رول ہے  سامان، جانور، خاندان اور سردار مل کر ایک روایتی کوچ کا منظّم منظر بناتے ہیں۔

ہجرت بذاتِ خود استحکام کے حصول کا ایک طریق کار ہے۔ ظاہری طور پر ہجرت کو حرکت بے گھر پن یا عدم استحکام سمجھا جاتا ہے مگر مصنف کے نزدیک ہجرت دراصل بہتر حالات، مستقل روزگار اور محفوظ مستقبل کی تلاش ہے۔ اس نقطۂ نظر کی وضاحت درج ذیل نکات سے کی جا سکتی ہے

مقصدِ بہتر زندگی ۔ لوگ بہتر حالات اور بہتر مستقبل کے لیے ہجرت کرتے ہیں  نوکری، رزق، سکون یا پناہ حاصل کرنے کے لیے۔ لہٰذا حرکت کا مقصد آخر کار استحکام حاصل کرنا ہوتا ہے۔

استحکام کے لیے پلاننگ ۔ جو لوگ ہجرت کرتے ہیں وہ مقامی وسائل، موسم اور حالات کا جائزہ لے کر نئے ٹھکانے ڈھونڈتے ہیں مثال کے طور پر پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنا یا موسم کے مطابق مقام بدلنا  یہ سب استحکام کی خواہش کی علامتیں ہیں۔

تعمیرِ مستقبل ۔ مصنف کہتا ہے کہ ہجرت کرنے والے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کر لیتے ہیں تا کہ بہتر حالات کی بنیاد رکھ سکیں یعنی ہجرت ایک عبوری عمل ہے جو آخر کار مقامِ رہائش، روزگار اور تہذیبی تثبیت میں بدل جاتا ہے۔

قدرتی قانون ۔ متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوسروں کے لیے جگہ خالی کرنا نہ صرف تہذیبی عمل بلکہ قدرت کا قانون ہے  ہجرت اجتماعی توازن اور بقا کا ذریعہ بن کر استحکام کا سبب بنتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہجرت محض بھاگنے یا بےثباتی نہیں بلکہ زندگی کو بہتر، محفوظ اور پائیدار بنانے کی جستجو ہے اسی لئے مصنف کے نزدیک ہجرت استحکام کی علامت بن سکتی ہے  کیونکہ یہ استحکام پانے کا ایک روڈ میپ فراہم کرتی ہے۔

مصنف نے خانہ بدوشوں کو “زندگی کا کمھار” کہا ہے  یہ استعارہ ایک بناتے اور سنوارنے والے کاریگر کی تصویر کھینچتا ہے۔ اس کی تشریح یوں کی جا سکتی ہے

روزانہ نئی تشکیل ۔ کمھار یعنی مٹی پہ کام کرنے والا جس طرح چاک سے برتن بناتا ہے خانہ بدوش بھی روزانہ نئے گھر، نئے سامان اور نئے کاروبار گھڑتے ہیں  ان کے پاس مستقل فیکٹری یا ورشاپ نہیں مگر وہ چھوٹے چھوٹے گھروندے اور وسائل روز بر روز ترتیب دیتے رہتے ہیں۔

تبدیلی میں مہارت ۔ جب زندگی کے کھیل، حالات یا موسم بدلتے ہیں تو خانہ بدوش فوراً مادّی شکل بدل دیتے ہیں  کھلونے، ٹوکریاں، پنجرے، خیمے وغیرہ بناتے درست کرتے یا دوبارہ جوڑتے ہیں۔ یہ تخلیق و ترتیب دینے کا عمل انہی کو کمھار بناتا ہے۔

بچوں کا کھیل حقیقت بن جاتا ہے ۔ متن میں ذکر ہے کہ خانہ بدوش کا گھر بچوں کے ریت کے گھر کی طرح ہوتا ہے  یعنی عارضی مگر تخلیقی وہ چیزیں جو دوسرے لوگ کھلونے سمجھتے ہیں خانہ بدوش ان سے حقیقی زندگی بناتے ہیں۔

معاشی لچک اور پیداوار ۔ خانہ بدوش مختلف ہنروں اور کاروباروں میں ہاتھ ڈال کر خود مختار رہتے ہیں  اسی سے مقامی معیشت اور روزگار کی متنوع شکلیں جنم لیتی ہیں۔

اس طرح خانہ بدوش ایک ایسی قوت ہیں جو کم وسائل میں بھی زندگی کے نئے نقشے، گھر اور روزگار گھڑ دیتے ہیں  اس عمل کو مصنف نے کمھار کہہ کر سراہا ہے۔

سائبیریا کی موسمی مرغابیوں کی ہجرت کی وجوہات درج ذیل ہیں

سردی سے بچاؤ ۔ شمالی پہاڑوں اور وادیوں میں سخت سردی اور برف کا ماحول رہتا ہے مرغابیاں شدید سردی میں شکار اور بسنا مشکل پاتی ہیں اس لیے جنوب کی جانب پرواز کرتی ہیں جہاں موسم معتدل ہو۔

خوراک کی تلاش ۔ برف پوش علاقوں میں خوراک کم ہو جاتی ہے مرغابیاں گرم علاقوں کی نیلی جھیلوں اور چشموں کی طرف جاتی ہیں جہاں کھانے اور آرام کی جگہیں دستیاب ہوں۔

بقاء اور تولیدی سائیکل ۔ موسمِ بہار میں واپس آ کر دلچسپی اور افزائش نسل کا عمل بہتر طریقے سے ممکن ہوتا ہے لہٰذا سردی ختم ہونے پر وہ اپنے گھوںسلوں یا ساحلوں پر واپس لوٹ آتی ہیں۔

فطری موسمی چکر ۔ یہ ایک موسمی، منظم اور قدرتی ہجرت ہےپرندے موسموں کے ساتھ حرکت میں آتے ہیں طوفانوں اور آندھیوں کا سامنا کرتے ہیں مگر بہار کی تلاش میں مسلسل سفر کرتے رہتے ہیں۔

فطری قوت پرواز ۔ متن میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ مرغابیاں شمال کے برفانی حصار کو توڑ کر جنوب کی طرف پرواز کرتی ہیں  یعنی یہ ایک قدرتی موسمی سرکٹ کا حصہ ہیں جو نسلوں سے جاری ہے۔

مختصر یہ کہ شکار، خوراک، حفاظتی ماحول اور تولیدی ضروریات کی وجہ سے سائبیریائی مرغابیاں موسمِ سرما کے دوران جنوب کی جانب ہجرت کرتی ہیں اور موسم بدلنے پر واپس آ جاتی ہیں۔

احمد جمال پاشا سائنس دانوں کے حوالے سے مخلوط تاثرات دکھاتے ہیں  تعظیم، تجسس اور تنقیدی شبہ تینوں شامل ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر مندرجہ ذیل ہیں۔

سائنس کا احترام مگر روحانیت کی طرف پلٹاؤ ۔ جب سائنس اپنی حدوں تک پہنچتی ہے تو وہ آخر کار نیچر یعنی فطرت اور روحانیت سے ملنے لگتی ہے اس لئے سائنس دان بھی آخر میں روحانی معنوں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف سائنس کو ایک طاقتور قوت سمجھتے ہیں جو آخرکار بڑے سوالات کے قریب آتی ہے۔

شبہ اور احتیاط ۔ وہ سائنس دانوں کے خلائی تجربات اور سیاروں پر ہجرت کے لیے تیار کی جانے والی چیزوں کے بارے میں شبہ رکھتے ہیں  مصنف پوچھتے ہیں کہ کیا یہ تمام تحقیق جنت تک پہنچنے کا کوئی شارٹ کٹ تلاش کرنے کی کوشش تو نہیں؟ یعنی وہ سائنس کی اس پیش قدمی کو انسانی بلند ہدف (جنت/کائناتی منزل) تک پہنچنے کی تاریخی کوشش کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس میں مغالطہ یا ہلکی سی انتہا پسندی کا احتمال سمجھتے ہیں۔

تنقیدی حیرت ۔ بعض اوقات ناستک یعنی ملحد سائنس دان بھی آخر میں ایمان کی طرف مائل ہوتے ہیں  یہ جملہ مصنف کے نزدیک سائنس اور روحانیت کے درمیان ایک راز کی نشاندہی کرتا ہے اور اسی راز پر وہ حیران اور غور فکرمند ہیں۔

اخلاقی سوال ۔ مصنف کے الفاظ میں سائنس کے دریافت کردہ کمندیں اور جہتیں اگر جنت تک پہنچنے کے لئے استعمال ہوں تو وہ ایک اخلاقی اور فکری سوال اٹھتا ہے  کیا انسان اپنی تکنیکی قوت سے ایسی منزل حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس کے اختیار میں نہیں ہونی چاہیے؟

خلاصہ یہ کہ احمد جمال پاشا سائنس دانوں کو صرف تکنیکی کارندے نہیں بلکہ ایسے انسان سمجھتے ہیں جن کے اعمال سے بڑا اجتماعی اور اخلاقی سوال جنم لیتا ہے۔ وہ سائنس کی ترقی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ساتھ ہی اس پر شبہ اور تنقیدی محتاطی بھی رکھتے ہیں  خاص طور پر جب وہ ترقی روحانی یا لامحدود خواہشات کے لیے استعمال ہونے لگے۔

تہذیب یافتہ انسانی زندگی میں انسان کی بنیادیں مستحکم اور منصوبہ بند ہوتی ہیں۔ اس کی زندگی میں قوانین، معاشرتی اقدار اور مستقل مکان و وسائل کا تحفظ ہوتا ہے۔ انسان زمین پر ایک جگہ آباد ہوتا ہے اپنی زندگی کے وسائل منظم طریقے سے استعمال کرتا ہے اور رہائش، کھانا، کپڑے، تعلیم اور تفریح کے لیے طے شدہ راستے اختیار کرتا ہے۔ اس زندگی میں فرد اپنے خاندان، کمیونٹی اور معاشرتی اداروں سے وابستہ رہتا ہے جس سے اس کی حفاظت اور سماجی شناخت قائم رہتی ہے۔

اس کے مقابلے میں خانہ بدوشوں یا بنجاروں کی زندگی مکمل طور پر متحرک اور عارضی ہے۔ ان کا گھر ہر وقت حرکت میں رہتا ہے، خیمے اور ضروری سامان خچروں یا گدھوں پر لادا جاتا ہے۔ وہ روزانہ غذا، چارہ اور پناہ کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کی زندگی قدرتی ماحول کے قریب ہوتی ہے۔ بچوں کے کھیل، خواتین کے کام، مردوں کی روزمرہ کی سرگرمیاں اور جانوروں کی تربیت سب ایک ہی وقت میں چلتی ہیں۔ بنجاروں کی زندگی کم پیچیدہ مگر زیادہ لچکدار اور خود کفیل ہے۔ ہر دن وہ نئے ماحول میں ترتیب اور گھروندے بناتے اور بگڑتے ہیں اور اپنی ضروریات کے لیے قدرت کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔

تہذیب یافتہ انسان میں زندگی زیادہ محفوظ اور محدود ہے جبکہ خانہ بدوش زندگی آزادی، فطرت سے قربت اور تبدیلی کی مستقل کیفیت کا درس دیتی ہے۔ احمد جمال پاشا نے اس فرق کو یوں بیان کیا ہے کہ خانہ بدوش زندگی ایک مسلسل پیداوار اور تخلیق کا عمل ہے جیسے وہ زندگی کے کمھار ہوں جبکہ تہذیب یافتہ انسان زندگی کی سہولتوں اور مکان پر موقوف رہ کر محدود ہو جاتا ہے۔

احمد جمال پاشا کے مطابق ہجرت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کی زندگی کی بنیاد ہی حرکت اور تلاش پر رکھی گئی ہے۔ وہ اس دنیا میں جنت سے نکالے گئے ابن آدم کے طور پر آیا ہے اور اسے حکم ہوا کہ نئی دنیا میں آباد ہو جائے۔ انسانی ہجرت صرف مکانی نہیں بلکہ فکری، جذباتی اور روحانی بھی ہے۔ انسان ہمیشہ بہتر حالات، حفاظت، روزگار اور خوشحالی کی تلاش میں رہتا ہے۔

ہجرت انسانی سرشت میں اس لیے بھی شامل ہے کہ انسان کبھی کسی جگہ مکمل طور پر جکڑا نہیں رہتا۔ وہ اپنے مقاصد، تجربات اور ترقی کی راہوں میں ہمیشہ حرکت پذیر رہتا ہے۔ احمد جمال پاشا اسے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسان کی روزمرہ زندگی میں چھوٹے بڑے فیصلے، ملازمت کی تبدیلیاں، تعلیم کے مراحل اور معاشرتی سفر بھی ہجرت کے مصداق ہیں۔ حتیٰ کہ انسانی خواہشات اور آرزوؤں کی تکمیل بھی ہجرت کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔

ہجرت انسان کو مستقل سرگرم، فعال، اور مستقبل کی تعمیر کے لیے تیار رکھتی ہے۔ یہ فطری اور لازمی عمل ہے جس سے انسان اپنی سرشت کے مطابق پیدا ہونے والی ضروریات، فکر اور آرزو کو پورا کرتا ہے۔

احمد جمال پاشا نے مغرب کی جانب ہجرت کو ایک مخصوص تشبیہ سے بیان کیا ہے۔ یہاں مہاجر تنہا ہوتا ہے اس کے ساتھ کوئی انصار یا قافلہ نہیں ہوتا اور اسے اپنے اردگرد موجود ثقافت، رسم و رواج اور خاندان کی حمایت سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ وہ جدید سہولیات جیسے ایئر کنڈیشنڈ مکان یا گاڑی رکھ سکتا ہے مگر اس کی روحانی اور سماجی آزادی محدود رہتی ہے۔

یہ آزاد پنچھی کے قید ہونے کے مترادف اس لیے کہا گیا ہے کہ مہاجر کی جسمانی حرکات محدود نہیں لیکن اس کے تعلقات، ثقافت اور سماجی بنیادیں محدود اور الگ تھلگ ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنی یادوں اور ماضی کی خوشگوار یادوں کے سہارے زندگی گزارتا ہے مگر اس کی حقیقی آزادی اور قدرتی تعلقات ختم ہو جاتے ہیں۔ بہرحال مہاجر کو خود مختار بنانے کی بجائے اس کے لیے تنہائی، لچک اور نئی ذمہ داریوں کا امتحان بن جاتی ہے۔

انشائیہ اردو ادب کی ایک صنف ہے جس میں کسی خیال، تجربے، موضوع یا مشاہدے کو تفصیلی، منظم اور فنی انداز میں بیان کیا جاتا ہے اسے انشائیہ کہتے ہیں۔ اس صنف میں مصنف اپنی ذاتی سوچ، جذبات، مشاہدات اور تجزیات کو پیش کرتا ہے۔ انشائیہ عام طور پر قاری کو سوچنے، سمجھنے اور موضوع کی گہرائی تک پہنچانے پر مجبور کرتا ہے۔

موضوع پر تفصیلی اور منظم انداز میں گفتگو

مشاہدات اور تجارب کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنا

آسان اور مؤثر زبان کا استعمال

علمی، فنی اور ادبی عناصر کا امتزاج

احمد جمال پاشا کا “ہجرت” بھی ایک انشائیہ ہے جس میں وہ انسانی زندگی، خانہ بدوشی، ثقافت اور ہجرت کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہیں۔

احمد جمال پاشا اردو کے کل وقتی ادیب، مزاح نگار اور تنقید نگار تھے۔ ان کی تحریروں میں طنز و مزاح، انسانی فطرت کے مشاہدات اور معاشرتی تجزیات شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں موضوعات کی تنوع شامل تھی مزاح، تنقید، مشاہدات اور ادبی تجزیہ۔ اہم کتابوں میں شامل ہیں اندیشہ شہر، ستم ایجاد ، لذت آزار ، مضامین پاشا ، مجاز کے لطیفے۔

ان کا خاص میدان طنز و ظرافت تھا جس میں انہوں نے انسانی زندگی، معاشرتی رویے اور ثقافت پر باریک بینی سے روشنی ڈالی۔ احمد جمال پاشا نے ادبی دنیا میں اردو کے مزاحیہ اور تنقیدی ادب کو مستحکم کیا۔ ان کے کام کی قدردانی کے طور پر انہیں 1986 میں غالب اکیڈمی نے ساگر سوری غالب ایوارڈ بھی دیا۔ ان کے انشائیے اور مزاحیہ مضامین معاشرتی، فلسفیانہ اور انسانی تجربات کو عمدگی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے قاری انسانی زندگی، خانہ بدوشی، ہجرت، آزادی اور معاشرتی تعلقات کو نئے زاویوں سے دیکھنے کا موقع پاتا ہے۔ احمد جمال پاشا اردو ادب میں جدید مزاح اور تنقید کے ممتاز ادیب شمار کیے جاتے ہیں۔

ہوا، نسیم، طوفانباد
قید، دیوار، باڑ حصار
مزہ، لطف، شوق نرغہ
حملہ، چڑھائی، جارحیتیلغار
چھٹی، آرام، رخصت تعطیل
غیر، اجنبی، دوسرےاغیار
متحرک، سرگرم، کام کرنے والا فعال
فنا، عارضیابد
خزاں، سردی بہار
انفرادی، فردی اجتماعی
موت، فنا حیات
گرمی، حرارت سرما
بے عزتی، ذلت عزت
مشرق مغرب

( لال قلعہ، بلغار، سدا، اغیار، شکنجہ )

سوال 1 ۔ بنجارہ تو سدا کا خانہ بدوش ہے۔
سوال 2 ۔ زمانے کے شکاری بھی ان کی یلغار نہیں روک سکے۔
سوال 3 ۔ اس کی خواہشات کا لال قلعہ تو بس ایک مکان ہوا کرتا ہے۔
سوال 4 ۔ اسی لیے قانون کا آہنی شکنجہ انھیں کسے رہتا ہے۔
سوال 5 ۔ اب آپ اغیار کے نرغے میں ہیں۔

ب الف
ایک تازہ دم قافلہ سرگرم سفر ہے جہاں بستی تھی وہاں زندگی کا
سے سینہ تانے چل رہا ہے بنجاروں کا سردار بڑی شان
چمٹا زندگی نچوڑ تا رہتا ہے پشتوں تک طفیلی بیل کی طرح
گردش ماہ وسال میں مصروفِ سفر ہیں زمین اور چاند اپنے اپنے مدار پر
جو اس کی آخری اور مستقل اقامت گاہ ہے ابن آدم پھر جنت تک کیسے پہنچے
واحد جمع
ظلم ظلمات
خواہش خواہشات
احساس احساسات
متحرک متحرکات
آبادیآبادیوں
نرغہ نرغے
کنواں کنویں
Scroll to Top