حمد
حمد کے لفظی معنی خدا کی تعریف کے ہیں۔ اردو شاعری میں، حمد ایک اہم صنف ہے جس میں اللہ کی صفات بیان کی جاتی ہیں۔ تقریباً ہر اردو شاعر نے اس صنف میں کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ کسی بھی کلام کی ابتدا اکثر حمد سے کی جاتی ہے کیونکہ خدا کے نام سے شروع کرنا مبارک سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے مذہب یا ملت کی تفریق کے بغیر، بڑے اور چھوٹے سبھی شاعروں نے حمد میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔
خدا پوری کائنات کا خالق ہے، وہ سب پر قدرت رکھنے والا ہے، اس کی ذات یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ حمد میں صرف خدا کی صفات کو بیان کیا جاتا ہے، اور چونکہ خدا کی صفات بے شمار ہیں، شاعر کو ان کے بیان میں مکمل آزادی ہوتی ہے۔ یہی بات حمد کی خاص خوبی ہے۔
جہاں حمد میں اللہ کی صفات بیان کی جاتی ہیں، وہیں نعت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی جاتی ہے۔ منقبت میں بزرگانِ دین، خلفائے راشدین، اور اولیا اللہ کی تعریف کی جاتی ہے، جبکہ قصیدہ میں کسی شخص کے اچھے اوصاف نظم کیے جاتے ہیں۔
شبنم کمالی
جناب شبنم کمالی کا تعلق ریاست بہار سے ہے، ان کا اصل نام مصطفی رضا ہے، اور شبنمؔ ان کا تخلص ہے۔ وہ 22 جولائی 1938ء کو پوکھر میرا، ضلع سیتا مڑھی میں پیدا ہوئے۔
ان کی نعتیہ شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن میں انوار عقیدت، ریاض عقیدت ، ضیائے عقیدت ، فردوس عقیدت اور صہبائے عقیدت خاص طور پر مشہور ہیں۔ ان کی غزلوں اور نظموں کے بھی کئی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ نصاب میں شامل حمد “حمد خدائے عز وجل” بھی شبنم کمالی کی ہی تخلیق ہے۔
شبنم کمالی نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ دین کی تبلیغ اور اسلامی اقدار کی تعلیم میں گزارا۔ وہ اللہ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق تھے، اور ان کی تقریریں اور شاعری ان کے گہرے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔
حمد “خدائے عز و جل“ کا خلاصہ
حمد “خدائے عز و جل” اللہ کی عظمت، اس کی یکتائی اور قدرت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتی ہے۔ شاعر اللہ کو دو جہانوں کا خالق اور ایزو ذو الجلال (عظمت والا) کہتا ہے، اور اسے بے مثال، عالی مرتبہ اور بے نظیر قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہی دنیا کو رزق ملتا ہے، اور زندگی اور موت کا سارا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے۔
کائنات کو شاعر اللہ کی قدرت کا عکس کہتا ہے، اور یہ کہ پوری دنیا میں جو بھی حسن یا خوبصورتی ہے، وہ دراصل اللہ کے جمال کا پرتو ہے۔ زندگی کی تعلیم آج بھی اللہ کے حکم سے جاری ہے، اور شاعر کے مطابق اللہ کے بغیر اس دنیا میں زندگی کا نظام ممکن نہیں۔
شاعر مزید بیان کرتا ہے کہ جو عقل و فہم رکھتے ہیں، انہیں اللہ کی ذات پر فخر ہے، اور دو جہانوں میں اللہ کے نام سے ہر حال کا علم ہوتا ہے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ چاہے کوئی لاکھ برس تک اللہ کی حمد و ثنا کرے، پھر بھی اللہ کا حق ادا نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ ناممکن ہے۔
آخر میں، شاعر اللہ سے دعا کرتا ہے کہ وہ دنیا کی تاریکی میں انہیں روشنی کی تلاش میں مدد دے، اور اللہ کی لطف و کرم کی ایک نظر ان کے لیے سب کچھ بدل سکتی ہے۔ شاعر یہ بھی دعا کرتا ہے کہ اللہ انہیں نیک مقاصد میں ہمیشہ کامیاب کرے، اور خود کو عاجز و بے نوا مانتے ہوئے اللہ سے بندگی میں بلندی کی درخواست کرتا ہے، کیونکہ موجودہ حالت میں وہ فکروں اور ضروریات کی راہ میں پائمال ہو رہا ہے۔
مختصر ترین سوالات کے جوابا
سوال 1 ۔ شبنم کمالی کب پیدا ہوئے؟
جواب ۔ 22 جولائی 1938ء کو۔
سوال 2 ۔ شبنم کمالی کہاں پیدا ہوئے؟
جواب ۔ پوکھر میرا، ضلع سیتا مڑھی، بہار میں۔
سوال 3 ۔ شبنم کمالی کا انتقال کب ہوا؟
جواب ۔ 19 اگست 2004
سوال 4 ۔ کائنات کی تخلیق کس نے کی ہے؟
جواب ۔ خدا نے۔
سوال 5 ۔ انسان کی مشکلوں کو کون حل کرتا ہے؟
جواب ۔ خدا حل کرتا ہے۔
سوال 6 ۔ شبنم کمالی کا اصل نام کیا ہے؟
جواب ۔ مصطفٰی رضا۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال1 ۔ حمد کسے کہتے ہیں؟ پانچ جملوں میں لکھئے۔
جواب ۔
حمد، خدا کی تعریف اور اس کی صفات کو بیان کرنے والی صنفِ سخن ہے۔ اردو شاعری میں حمد کا ایک خاص مقام ہے، کیونکہ اس میں خدا کی عظمت اور اس کی یکتائی کو الفاظ میں سمویا جاتا ہے۔ حمد میں خدا کو خالقِ کائنات، رزق دینے والا، اور تمام صفات کا مالک قرار دیا جاتا ہے۔ کسی بھی کلام کی ابتدا حمد سے کی جاتی ہے کیونکہ خدا کے نام سے آغاز کرنا برکت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اردو کے تقریباً ہر شاعر نے حمد میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
سوال2 ۔ حمد، منقبت اور قصیدے میں کیا فرق ہے؟
جواب ۔
حمد، منقبت اور قصیدہ تینوں مختلف اصنافِ سخن ہیں، اور ہر ایک کا اپنا مخصوص موضوع ہوتا ہے
حمد۔ میں خدا کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے اور اس کی صفات کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ صنف مکمل طور پر اللہ کی بزرگی اور عظمت پر مرکوز ہوتی ہے۔
منقبت۔ میں بزرگانِ دین، خلفائے راشدین، اور اولیاء اللہ کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔ اس میں ان کے کردار، خدمات اور دینی مقام و مرتبے کو نظم کیا جاتا ہے۔
قصیدہ۔ میں کسی شخص یا حکمران کے اوصافِ حمیدہ کی مدح سرائی کی جاتی ہے، جیسے ان کی بہادری، علم یا کردار کی تعریف۔
سوال3۔ شبنم کمالی کے تین شعری مجموعوں کے نام بتائیے۔
جواب ۔
شبنم کمالی کے مشہور نعتیہ اور مذہبی شاعری کے مجموعے درج ذیل ہیں
انوار عقیدت: یہ مجموعہ نعتیہ شاعری کا ہے جس میں شبنم کمالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف بیان کی ہے۔
ریاض عقیدت: یہ بھی نعتیہ شاعری کا مجموعہ ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت و عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے۔
ضیائے عقیدت: یہ مجموعہ بھی نعت اور مذہبی شاعری پر مبنی ہے جس میں شبنم کمالی کی والہانہ عقیدت جھلکتی ہے۔
سوال4۔ حمد اور نعت میں بنیادی فرق کیا ہے؟
جواب ۔
حمد اور نعت دونوں اہم اصناف ہیں، مگر ان کے موضوعات مختلف ہیں
حمد میں صرف اللہ کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس میں اللہ کی صفات، اس کی عظمت، اور اس کی بے نظیر قدرت کو بیان کیا جاتا ہے۔ اللہ کو خالق، مالک اور تمام چیزوں کا حاکم مانا جاتا ہے۔
نعت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی جاتی ہے۔ نعت میں ان کے اخلاق، کردار، دین کی خدمت اور انسانیت کے لیے ان کے احسانات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ نعت میں عقیدت اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال1 ۔ شامل نصاب حمد کے پہلے شعر کی تشریح کیجئے۔
جواب ۔
خالق دو جہاں ہے تو ایزد ذو الجلال ہے
یکتا ہے تیری ذات پاک عالی و بے مثال ہے
اس شعر میں شاعر اللہ کی عظمت اور اس کے مقام کو بیان کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ دو جہانوں (یعنی دنیا اور آخرت) کا خالق ہے۔ اللہ کو “ایزو ذو الجلال” کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ عظیم اور جلال والا ہے۔ اللہ کی ذات پاک اور بے مثال ہے، یعنی اس کی کوئی نظیر نہیں، نہ اس کے جیسا کوئی اور ہے۔ شاعر اللہ کی یکتائی پر زور دیتا ہے، کہ وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ شعر اللہ کی بے انتہا عظمت اور اس کی منفرد حیثیت کو واضح کرتا ہے۔
سوال2 ۔ شبنم کمالی کی شاعرانہ خصوصیات بیان کیجئے۔
جواب ۔
شبنم کمالی کی شاعری میں مذہبی رنگ غالب ہے۔ ان کی شاعری خاص طور پر نعتیہ اور حمدیہ تخلیقات پر مبنی ہے، جن میں اللہ کی تعریف اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی جاتی ہے۔ ان کے اشعار میں گہرے دینی جذبات کا اظہار ملتا ہے۔
شبنم کمالی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کی شاعری سادہ اور دل کو چھونے والی ہوتی ہے، جس میں عام فہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں تاکہ ہر شخص آسانی سے ان کے کلام کو سمجھ سکے۔ ان کی شاعری میں والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار ہوتا ہے، جو ان کے دین کے ساتھ گہرے لگاؤ کا ثبوت ہے۔
ان کی شاعری میں دینی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے، جو ان کی وعظ و تبلیغ کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ اللہ کی بڑائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو نہایت احترام اور عقیدت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
ان کی شاعری میں سادگی، جذبات کی گہرائی، اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کی جھلک ملتی ہے۔
سوال3۔ حمد کا خلاصہ لکھئے۔
جواب ۔
حمد خدائے عز و جل میں شاعر اللہ کی عظمت، اس کی یکتائی اور اس کی بے شمار صفات کا بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ دو جہانوں کا خالق ہے اور وہ اکیلا ہی تمام کائنات کا مالک ہے۔ اس کی ذات بے مثال ہے اور اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ اللہ کی قدرت سے ہی دنیا کو رزق ملتا ہے اور زندگی اور موت کا تمام معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
شاعر بیان کرتا ہے کہ پوری کائنات اللہ کی قدرت کا عکس ہے اور اس میں جو بھی حسن و جمال ہے، وہ اللہ کی عظمت کی نشانی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ کے حکم سے ہی زندگی کا نظام چل رہا ہے، اور اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہے۔
شاعر اعتراف کرتا ہے کہ چاہے کوئی لاکھ برس تک اللہ کی تعریف کرے، پھر بھی اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
آخر میں شاعر اللہ سے دعا کرتا ہے کہ وہ دنیا کی ظلمت میں روشنی عطا کرے، اور اپنی مہربانی سے انہیں نیک مقاصد میں کامیاب کرے۔