خاکہ
خاکہ ایک اردو اصطلاح ہے جو انگریزی لفظ “اسکیچ” کا ترجمہ ہے۔ آج کل اردو میں “خاکہ” کا لفظ زیادہ عام ہے۔
خاکہ ایک ایسی نثری تحریر ہے جس میں کسی شخصیت کی خاص اور نمایاں باتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ قاری کے ذہن میں اس شخص کی مکمل تصویر واضح ہو جائے۔ اس میں اس شخصیت کے خیالات، کردار، عادات، اور رویے کی جھلک نظر آتی ہے۔ خاکے کا اصل مقصد یہی ہے کہ کسی شخصیت کی ظاہری اور اندرونی خصوصیات کو اس کے انوکھے انداز میں بیان کیا جائے، جو اسے دوسروں سے الگ دکھائیں۔
خاکہ لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مصنف اُس شخصیت سے اچھی طرح واقف ہو اور اس کی شخصیت سے متاثر بھی ہو۔ تاہم، خاکہ نگاری اور سوانح نگاری میں فرق ہے۔ سوانح نگاری میں واقعات کو ترتیب وار بیان کیا جاتا ہے، جبکہ خاکہ میں صرف وہی باتیں شامل کی جاتی ہیں جو شخصیت کے کسی پہلو کو نمایاں کریں۔
خاکہ لکھتے وقت یہ ضروری ہے کہ مصنف شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو لکھے۔ خوبیوں کو بیان کرتے وقت مرعوبیت کا اظہار نہ ہو، اور خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے ذاتی دشمنی یا تعصب نہ جھلکے۔ خامیوں کو بھی اس انداز سے لکھنا چاہیے کہ اس میں اپنائیت اور محبت کا عنصر نظر آئے۔
خاکہ نگاری میں غیر جانبداری بہت اہم ہے۔ شخصیت کو ایک متوازن انداز میں پیش کرنا ضروری ہے، ورنہ خاکے کا اصل مقصد پورا نہیں ہو پاتا۔
کتاب میں شامل کلیم الدین احمد کا خاکہ اس فن کی ایک بہترین مثال ہے۔
احمد جمال پاشا
احمد جمال پاشا، جن کا اصل نام محمد نزہت پاشا تھا، 1929 میں الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آغا شجاعت حسین پاشا نے بعد میں لکھنو کے امین آباد میں رہائش اختیار کر لی۔ احمد جمال پاشا نے لکھنو یونیورسٹی سے بی اے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے لکھنو سے “اودھ پنچ” کے تیسرے دور کو دوبارہ شروع کیا اور بعد میں “قومی آواز” اخبار کے ایڈیٹر حیات اللہ انصاری کے ساتھ شعبہ ادارت سے منسلک ہو گئے۔ 1976 میں وہ بہار کے شہر سیوان منتقل ہو گئے اور ذکیہ آفاق اسلامیہ کالج میں اردو کے استاد کے طور پر کام کیا۔ ان کا انتقال پٹنہ میں ہوا۔
احمد جمال پاشا نے 1950 میں لکھنا شروع کیا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ علی گڑھ کے رسالے “اسکالر” کے مدیر رہے اور اس کے “پیروڈی نمبر” کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ان کی مشہور مزاحیہ کتابوں میں اندیشہ شہر، ستم ایجاد، لذت آزار، مضامین پاشا، چشم حیراں اور پتوں پر چھڑکاؤ شامل ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ظرافت اور تنقید کے نام سے شائع ہوا۔
ان کے مشہور مضامین میں ادب میں مارشل لا، مجھ سے ایک چائے کی پیالی نے کہا، یونیورسٹی کے لڑکے، گلی ڈنڈے پر سمینار اور رستم امتحان کے میدان میں شامل ہیں۔ انہوں نے پیروڈیاں بھی لکھیں، جن میں کپور: ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ اور آموختہ بیانی میری کو بہت شہرت ملی۔ اپنی زندگی کے آخری دور میں انہوں نے خاکہ نگاری پر توجہ دی۔
احمد جمال پاشا کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب ایوارڈ اور بہار اردو اکادمی کا اختراورنیوی ایوارڈ دیا گیا۔
کلیم الدین احمد کا خلاصہ
یہ اقتباس ڈاکٹر قاضی عبدالستار کی یادداشتوں اور مشاہدات پر مبنی ایک دلچسپ اور پُرمعنی تحریر ہے جو پروفیسر کلیم الدین احمد کی شخصیت، علمی مقام اور ان کی تنقیدی زندگی کو پیش کرتی ہے۔
کلیم الدین احمد اردو ادب کے ایک اہم نقاد تھے، جنہوں نے تنقید کے اصولوں کو منفرد اور غیر روایتی انداز میں بیان کیا۔ ان کی کتاب “اردو تنقید پر ایک نظر” اور “اردو شاعری پر ایک نظر” نے اردو ادب کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ یہ اقتباس نہ صرف ان کی تنقیدی فکر کی شدت اور بے خوفی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کی ذاتی زندگی کی جھلک بھی پیش کرتا ہے۔
کلیم صاحب کی شخصیت کے دو پہلو بڑی وضاحت سے سامنے آتے ہیں
تنقید میں شدت اور سختی
ان کے اندازِ نقد میں شدت اور بے لاگ تجزیہ شامل تھا، جس کی وجہ سے وہ اکثر دوسرے نقادوں کے ساتھ تنازعات کا شکار رہتے تھے۔
ذاتی زندگی میں شائستگی اور دریا دلی
ان کی نجی زندگی میں وہ ایک خوش اخلاق، نرم دل، اور مروت رکھنے والے انسان تھے۔ وہ کتابیں تحفے میں دیتے، سفارشات قبول کرتے اور خوش دلی سے ملنے والوں سے بات کرتے۔
یہ اقتباس کلیم الدین احمد کی علمی و عملی زندگی کی عکاسی کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ ان کی تنقیدی شخصیت اور انفرادی مزاج میں کس قدر فرق تھا۔
سوالات و جوابات
سوال 1 ۔ احمد جمال پاشا نے کلیم الدین احمد کی تنقیدی اہمیت کے بارے میں کیا لکھا ہے؟
جواب ۔
احمد جمال پاشا نے کلیم الدین احمد کی تنقید کو اردو ادب میں ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، کلیم الدین احمد نے اردو ادب کو صرف روایتی تعریف و توصیف سے نکال کر حقیقی تنقید کی بنیاد پر پرکھنے کا رجحان پیدا کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ کلیم الدین احمد نے اردو تنقید میں جرأت اور بیباکی کا مظاہرہ کیا اور ادب کے ہر پہلو کو دلیل اور تجزیے کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی۔ احمد جمال پاشا نے کہا کہ وہ اردو تنقید کے وہ علمبردار تھے جو نہ صرف جدید ادب بلکہ کلاسیکی ادب کو بھی عقلی بنیادوں پر جانچتے تھے۔
انہوں نے کلیم الدین احمد کی تنقید کو روایتی اور جذباتی تنقید سے مختلف قرار دیا کیونکہ وہ جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر ادب کو اصول و معیار کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ ان کے نزدیک کلیم الدین احمد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ادبی تخلیقات میں پائے جانے والے سقم کو واضح طور پر پیش کیا اور تخلیقی ادب کی خوبیوں کو بے لاگ انداز میں سراہا۔ احمد جمال پاشا کا کہنا تھا کہ کلیم الدین احمد کی تنقید میں غیر جانب داری کا پہلو نمایاں تھا، جو انہیں ایک دیانت دار اور معروضی نقاد ثابت کرتا ہے۔
سوال 2 ۔ پیروڈی کے فن پر کلیم الدین احمد کے خیالات کیا ہیں؟
جواب ۔
کلیم الدین احمد نے پیروڈی کے فن کو ادب کا ایک انوکھا اور تخلیقی عمل قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، پیروڈی کا مقصد نہ صرف مزاح یا تفریح پیدا کرنا ہے بلکہ اصل تخلیق کی خامیوں اور خوبیوں کو اجاگر کرنا بھی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ پیروڈی لکھنے والا مصنف ایک ایسی ادبی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے جس میں ذہانت، مشاہدہ اور مزاحیہ حس شامل ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیروڈی کسی بھی مصنف کی تحریر کے اسلوب، زبان اور موضوع کی گہرائی میں جا کر لکھی جاتی ہے، اس لیے اسے ایک سنجیدہ فن سمجھا جانا چاہیے۔ کلیم الدین احمد کے نزدیک، پیروڈی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ نہ صرف قاری کو تفریح فراہم کرتی ہے بلکہ اصل تخلیق پر ایک تنقیدی روشنی بھی ڈالتی ہے۔ ان کے نزدیک پیروڈی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تخلیق کی روح اور مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے مضحکہ خیز یا طنزیہ پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے۔
سوال 3 ۔ میزان نقد کے دونوں پلڑے برابر کرتے رہے۔ اس کی تفصیل اس سبق کی روشنی میں بیان کیجیے۔
جواب ۔
اس جملے سے مراد یہ ہے کہ کلیم الدین احمد کی تنقید میں توازن اور غیر جانب داری نمایاں تھی۔ انہوں نے کسی بھی ادبی تخلیق کا جائزہ لیتے ہوئے نہ صرف اس کی خوبیوں کو سراہا بلکہ خامیوں کو بھی دیانت داری سے بیان کیا۔ ان کی تنقید کا خاص پہلو یہ تھا کہ وہ جذباتی یا ذاتی تعلقات کی بنا پر کسی تحریر کی حمایت یا مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ ادب کے اصولوں کی روشنی میں ہر تخلیق کو پرکھتے تھے۔
مثال کے طور پر، اگر کسی شاعر نے زبان کے استعمال میں جدت دکھائی ہو لیکن اس کی شاعری میں جذباتی گہرائی کی کمی ہو، تو کلیم الدین احمد نے دونوں پہلوؤں کو واضح طور پر بیان کیا۔ انہوں نے ہمیشہ ادب کی خوبصورتی اور اس کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے تنقید کی۔ ان کی تحریریں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ انصاف پسند نقاد تھے، جو کسی بھی تخلیق کے دونوں پہلوؤں کو دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے تھے۔ ان کے نزدیک تنقید کا مقصد محض تعریف یا تنقید نہیں بلکہ تخلیق کی حقیقی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔
سوال 4 ۔ احمد جمال پاشا نے کلیم الدین احمد کی ذاتی لائبریری کے بارے میں کون سی اطلاع دی ہے؟
جواب ۔
احمد جمال پاشا نے کلیم الدین احمد کی ذاتی لائبریری کو ان کے علم و فضل اور مطالعے کی گہرائی کا مظہر قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، کلیم الدین احمد کی لائبریری میں اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کی ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ ان میں نہ صرف ادبی کتابیں شامل تھیں بلکہ تنقید، فلسفہ، تاریخ، اور نفسیات پر بھی اہم کتابیں موجود تھیں۔
یہ لائبریری کلیم الدین احمد کے تحقیقی اور تنقیدی کام کی بنیاد تھی۔ ان کا روزمرہ کا بیشتر وقت مطالعے اور تحقیق میں گزرتا تھا، اور ان کی لائبریری نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اردو ادب کے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر ڈال سکیں۔ احمد جمال پاشا نے کہا کہ کلیم الدین احمد کی لائبریری ان کی علمی شخصیت کی آئینہ دار تھی، جو ان کی زندگی بھر کی محنت کا نتیجہ تھی۔
سوال 5 ۔ اس خاکے میں اردو ادب سے متعلق جن شخصیات کا ذکر ہوا ہے، ان میں سے پانچ کے بارے میں تفصیل لکھیے۔
جواب ۔
میر تقی میرؔ
میر تقی میر اردو شاعری، خاص طور پر غزل کے میدان میں اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق، غم، اور انسانی احساسات کو بے حد گہرائی اور دلکشی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ میر نے اردو زبان کو ایک نیا اسلوب اور شعری جمالیات عطا کیں، جس کی وجہ سے وہ “خدائے سخن” کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ان کے اشعار میں زندگی کی تلخیوں اور خوشیوں کی عکاسی ملتی ہے، جو ان کے عہد کی سماجی اور ثقافتی صورتحال کا آئینہ ہیں۔
مرزا غالبؔ
مرزا غالب اردو اور فارسی کے عظیم شاعر تھے جنہوں نے اپنے منفرد انداز بیان اور فلسفیانہ خیالات سے اردو شاعری کو ایک نیا رخ دیا۔ ان کی شاعری میں عشق، زندگی، اور فلسفہ جیسے موضوعات کو گہری بصیرت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ غالب کے اشعار میں جدت، زبان کی روانی، اور الفاظ کی ندرت نمایاں ہے، جس کی وجہ سے وہ اردوشاعری میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کا کلام آج بھی عوام و خواص میں مقبول ہے اوراردو ادب کے طالب علموں کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔
الطاف حسین حالیؔ
الطاف حسین حالی اردو ادب کے پہلے نقاد اور اصلاحی شاعری کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی مشہور کتاب “مقدمہ شعر و شاعری” اردو تنقید کی پہلی بنیاد قرار دی جاتی ہے، جس میں شاعری کے معیار اور اس کے سماجی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حالی نے اپنی شاعری کے ذریعے سماجی اصلاحات، قومی بیداری، اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیا۔ ان کی شاعری میں سادگی اور مقصدیت نمایاں ہے، جو ان کی اصلاحی فکر کی عکاسی کرتی ہے۔
شبلی نعمانیؔ
شبلی نعمانی اردو ادب کے مشہور نقاد، مؤرخ، اور شاعر تھے جنہوں نے ادب اور تاریخ میں اہم خدمات انجام دیں۔ ان کی تصنیف “شعرالعجم” فارسی شاعری کی تاریخ پر ایک جامع تنقیدی کتاب ہے۔ شبلی نے اردو ادب میں تحقیقی اور علمی رجحانات کو فروغ دیا اور تنقید میں معروضیت اور انصاف پسندی کا عنصر شامل کیا۔ وہ ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے سماجی اور فکری ترقی کا اہم وسیلہ قرار دیتے تھے۔
محمد حسین آزادؔ
محمد حسین آزاد اردو نثر کے ممتاز ادیب اور تاریخ نگار تھے۔ ان کی مشہور کتاب “آب حیات” اردو شاعری کی تاریخ اور شعرا کے حالات پر ایک اہم اور دلچسپ دستاویز ہے۔ آزاد نے اردو نثر کو تخلیقی اور سادہ انداز میں لکھنے کا رجحان پیدا کیا، جو عام قاری کے لیے بھی قابل فہم ہو۔ ان کے مضامین اور تحریریں اردو ادب میں زبان و بیان کی اصلاح اور ارتقاء کی ایک روشن مثال ہیں۔