آپ بیتی
آپ بیتی، جسے خود نوشت بھی کہا جاتا ہے، اپنی زندگی یا اس کے کسی خاص حصے کا بیان ہے۔ اس میں پوری زندگی کا احوال بھی آ سکتا ہے یا کسی خاص واقعے کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے۔
خود نوشت لکھنے کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ مثلاً، لکھنے والا اپنی یادیں محفوظ کرنا چاہتا ہے، اپنے تجربات دوسروں کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہے، یا وہ چاہتا ہے کہ قاری اس کی نظر سے دنیا اور لوگوں کو دیکھ سکے۔ اچھی خود نوشت میں لکھنے والا اپنے آپ کو زیادہ نہیں سراہتا، بلکہ ضبط اور دیانت داری سے کام لیتا ہے اور دوسروں کا ذکر بھی سچائی سے کرتا ہے۔
اردو میں خود نوشت کی روایت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ مولانا جعفر تھانیسری کی “کالا پانی” کو اردو کی پہلی خود نوشت کہا جاتا ہے، جو1923 میں شائع ہوئی۔ اس زمانے میں رشید احمد صدیقی کی “آشفتہ بیانی میری”، سر رضا علی کی “اعمال نامہ”، جوش ملیح آبادی کی “یادوں کی برات”، قرۃ العین حیدر کا سوانحی ناول “کار جہاں دراز ہے”، قدرت اللہ شہاب کی “شہاب نامہ”، خلیق ابراہیم خلیق کی “منزلیں گرد کے مانند” اور اختر الایمان کی “اس آباد خرابے میں” خاصی مشہور ہوئیں۔
خواتین میں بھی کئی مشہور خود نوشتیں ہیں، جیسے بیگم حمیدہ اختر کی “ہم سفر”، ادا جعفری کی “جو رہی سو بے خبری رہی” اور سعیدہ بانو احمد کی “ڈگر سے ہٹ کر”۔ آپ بیتی عام طور پر نثر میں لکھی جاتی ہے، لیکن کچھ لوگوں نے اسے منظوم انداز میں بھی لکھا ہے۔
اختر الایمان
اختر الایمان، جن کا اصل نام محمد اختر الایمان تھا، 1915 میں نجیب آباد، ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مسجد میں امام تھے۔ اختر الایمان کی ابتدائی تعلیم مختلف گاؤں اور قصبوں کے مدرسوں اور اسکولوں میں ہوئی۔ انہوں نے میٹرک فتح پوری مسلم ہائی اسکول دہلی سے پاس کیا اور بی۔ اے دہلی کالج (اب ذاکر حسین کالج) سے کیا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم۔ اے اردو میں داخلہ لیا، مگر یہ مکمل نہ کر سکے۔ پہلے سال کے بعد وہ پونہ چلے گئے، جہاں فلموں کے لیے لکھنے لگے۔ کچھ عرصے بعد ممبئی گئے اور زندگی کا باقی حصہ وہیں گزارا۔
ممبئی میں اپنے پچاس سالہ قیام کے دوران، انہوں نے بہت سی فلموں کے منظر نامے اور مکالمے لکھے، جن میں سے کچھ فلمیں بہت مقبول ہوئیں۔ تاہم، ایک بڑے شاعر ہونے کے باوجود انہوں نے فلموں کے لیے گانے نہیں لکھے۔
اختر الایمان اردو کے مشہور نظم گو شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے دس شعری مجموعے شائع ہوئے، جن میں پہلا “گرداب” اور آخری “زمستان سرد مہری کا” ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ نثر میں انہوں نے اپنی خود نوشت “اس آباد خرابے میں” اور چند ادبی مضامین بھی لکھے ہیں۔
اس آباد خرابے میں کا خلاصہ
اختر الایمان کی اس آباد خرابے میں ان کی زندگی کے ایک خوبصورت، مگر کٹھن سفر کا قصہ ہے، جو دیہات کی سادہ مگر پیچیدہ دنیا کے پس منظر میں ابھرتا ہے۔ یہ آپ بیتی محض واقعات کی بیان نہیں بلکہ اس میں ایک ایسی فضا تخلیق کی گئی ہے جو قاری کو مصنف کے اندرونی جذبات، قدرتی مناظر، اور ان کے بچپن کے جذباتی وابستگی سے آشنا کرتی ہے۔
مصنف ہمیں اپنے والد کے ہمراہ، گاؤں سے گاؤں سفر کرتے، پُراسرار اور مہماتی یادوں میں لے جاتے ہیں۔ اختر الایمان ایک ایسی خانہ بدوش زندگی گزارتے ہیں، جہاں انہیں کبھی کسی دیہات کے چھوٹے مدرسے میں دینی تعلیم ملتی ہے تو کبھی کسی سرکاری اسکول کے برآمدے میں اردو اور فارسی کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ وہ ان دیہاتوں میں رقص کرتی کویلوں، گھنے باغوں، اور صاف شفاف جھیلوں کو یاد کرتے ہیں جن کے پانیوں میں مگر مچھ تیرتے تھے اور جہاں سردیوں کی شامیں کانس کے جنگلوں میں عجیب دلکشی بھری ہوتی تھیں۔
سکھ مدرسہ، جس کا ماحول نیم دیہاتی اور پُراسرار ہے، ان کی زندگی کا ایک یادگار باب بنتا ہے۔ مدرسے کی زندگی ان کے بچپن کا اہم حصہ ہے جہاں وہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ اپنے والد کی ایمانی وابستگی، دیہات میں امامت، اور چندہ اکٹھا کرنے کے طریقے کو محبت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حافظ اللہ دیا کے زیرِ سایہ اس یتیم خانے میں انہوں نے معاشرتی زندگی کی سختیاں برداشت کیں، مگر یہ تجربات ان کی شخصیت میں نرمی اور تحمل کو بیدار کرتے ہیں۔
اختر الایمان کی یہ یادیں غم و خوشی کی آمیزش سے لبریز ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ لالی کی المناک موت ہے، جسے جنگل کے کسی درندے نے اُچک لیا۔ یہ المیہ ان کی بچپن کی یادوں پر ایک گہرے اثر کی طرح نقش ہو جاتا ہے۔ سکھ بستی کی یادیں بھی ان کی یادداشت کا حصہ ہیں، جہاں کی فطرت، جھیلیں، اور ندی کے کنارہ ان کے حساس دل کو گہرائی میں اتر کر چھوتے ہیں۔
اس آباد خرابے میں میں مصنف کے مشاہدات، قدرتی مناظر کے دلکش بیانات، اور دیہاتی زندگی کی سچائیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ یہ آپ بیتی ماضی کی یادگاروں اور ایک بھٹکے ہوئے، مگر ہمت والے مسافر کی کہانی ہے۔ اختر الایمان کی آپ بیتی محض ان کی زندگی کی کہانی نہیں بلکہ ایک عہد کا، معاشرتی تاثر، اور ان کے دل میں جمی یادوں کا دستاویز ہے جو آج بھی قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔
سوالات و جوابات
سوال 1 ۔ خود نوشت یا آپ بیتی کی تعریف بیان کیجیے۔
جواب ۔
خود نوشت یا آپ بیتی ایک ادبی صنف ہے جس میں مصنف اپنی زندگی کے تجربات، یادیں، خیالات، اور جذبات کو تحریر کرتا ہے۔ یہ صنف عام طور پر قاری کو مصنف کی ذاتی زندگی کی جھلک دکھاتی ہے اور اسے مصنف کے جذباتی، ذہنی، اور سماجی پس منظر سے آگاہ کرتی ہے۔ خود نوشت میں مصنف اپنی زندگی کے نمایاں واقعات کو بیان کرتے ہوئے معاشرتی اور تاریخی حالات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ صنف خاص طور پر اس وقت دلچسپ بن جاتی ہے جب مصنف کسی مخصوص عہد، علاقے یا ماحول کی تفصیلات بیان کرتا ہے، جیسے اختر الایمان کی آپ بیتی اس آباد خرابے میں، جس میں انہوں نے اپنے بچپن کی یادوں، دیہاتی زندگی، قدرتی مناظر اور اپنے تعلیمی سفر کی کہانی کو سادہ مگر دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ اس میں مصنف کے اپنے تجربات کی گہرائی کے ساتھ اس کے اردگرد کی دنیا کی عکاسی ملتی ہے، جو کہ قاری کو اس کے ساتھ جذباتی طور پر جوڑ دیتی ہے۔
سوال 2 ۔ اختر الایمان کسی ایک طرح کی تعلیم پر کیوں نہ جم سکے؟
جواب ۔
اختر الایمان کی تعلیم میں مستقل مزاجی نہ ہونے کی بڑی وجہ ان کے والد کی خانہ بدوش زندگی اور مسلسل نقل مکانی تھی۔ ان کے والد مذہبی عالم تھے، اور دیہات میں امامت و تدریس کا کام کرتے تھے، مگر وہ کسی ایک جگہ پر زیادہ دیر ٹھہرتے نہیں تھے۔ ان کی تعلیم کا نظام مستقل نہیں تھا؛ کبھی انہیں دینی مدرسے میں قرآن مجید اور اردو فارسی پڑھائی جاتی تو کبھی سرکاری اسکول میں دنیاوی تعلیم حاصل کرنی پڑتی۔ ان کے والد کا مقصد انہیں مذہبی تعلیم دینا اور امامت کے لیے تیار کرنا تھا، مگر مسلسل نقل مکانی اور مختلف تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کی وجہ سے اختر الایمان کسی ایک قسم کی تعلیم کو مکمل نہیں کر سکے۔ ان کی تعلیمی زندگی اس طرح بے قاعدہ اور بے ربط رہی، جس نے ان کے تعلیمی سفر میں بڑی رکاوٹ پیدا کی۔
سوال 3 ۔ اپنے گاؤں رکڑی کی کیا کیا چیزیں اختر الایمان کو پسند تھیں؟
جواب ۔
اختر الایمان کو اپنے گاؤں رکڑی کی قدرتی خوبصورتی، سادہ دیہاتی زندگی، اور ماحول سے خاص انسیت تھی۔ وہاں کے آموں کے گھنے باغ، کنول اور نیلوفر سے بھرے جوہڑ، ہرنوں کی مستیاں، جنگلی حیات اور پرندوں کی چہچہاہٹ ان کے دل کو بھاتی تھی۔ وہاں قدرت کے حسین مناظر، ہرے بھرے کھیت اور گھنے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں بچپن کا وقت گزارنا انہیں بہت پسند تھا۔ جنگل میں کوئل اور مینا کی آوازیں، ہریالی، آموں کی خوشبو اور ہر طرف بکھری قدرت کی رنگینیاں انہیں بہت مرغوب تھیں۔ جب انہیں رکڑی کو چھوڑنا پڑا تو ان کا دل بہت آزردہ ہوا اور انہیں اس جگہ کی یاد ہمیشہ ستاتی رہی۔ ان یادوں میں جنگلی پرندے، آموں کے باغ، اور کھیتوں کے مناظر ان کی زندگی میں ایک خوشگوار احساس چھوڑ گئے۔
سوال 4 ۔ اختر الایمان جب اپنے والد کے ساتھ جگا دھری پہنچے تو وہاں کیا منظر تھا؟
جواب ۔
اختر الایمان اور ان کے والد جگا دھری پہنچے تو انہوں نے ایک چھوٹی سی چوکی پر چوکیدار سے بحث کرتے دیکھا، جس نے انہیں وہاں رکنے نہیں دیا۔ اس بات سے ناراض ہوکر ان کے والد نے وہاں سے رخصت لینے کا فیصلہ کیا اور چاندنی رات میں ایک کچی سڑک پر چل نکلے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد وہ ایک بڑے تالاب پر پہنچے، جہاں پانی تھا اور انہیں اسے پار کرنا تھا۔ اختر الایمان کے والد نے لاٹھی سے پانی کی گہرائی کا اندازہ لگا کر تالاب پار کیا۔ وہ سفر ایک عجیب و غریب تجربہ تھا، جس میں جنگل، آموں کے باغات، اور ویران قبرستان کے مناظر شامل تھے۔ رات کو گیدڑوں کی آوازیں، درختوں کی سرسراہٹ اور جنگل کا سکوت ان کے سفر کو ایک مہماتی رنگ دے رہا تھا۔ یہ سب یادیں اختر الایمان کے ذہن میں ایک دلکش مگر پرخطر منظر کے طور پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئیں۔
سوال 5 ۔ مدرسے میں رہنے والی بچّی لالی کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟
جواب ۔
اختر الایمان کے مدرسے میں ایک معصوم بچی، لالی، بھی تھی جو شملہ کے ایک بٹلر کی بیٹی تھی اور مدرسے کے طلبہ کی لاڈلی تھی۔ ایک دن وہ اچانک غائب ہو گئی، جس سے پورے مدرسے میں تشویش اور خوف کی لہر دوڑ گئی۔ مدرسے کے طلبہ اور اساتذہ سب اسے ڈھونڈنے جنگل میں نکلے۔ کچھ دیر بعد، جنگل میں ایک بھٹ کے پاس خون میں لت پت لالی کے کپڑے اور اس کی کھوپڑی پڑی ملی۔ یہ دیکھ کر سب کو معلوم ہوا کہ اسے شاید کسی جنگلی لکڑ بگھے یا کسی درندے نے حملہ کرکے اٹھا لیا تھا۔ یہ واقعہ سب کے لیے انتہائی دلخراش اور خوفناک تھا، خاص طور پر اختر الایمان کے لیے، جو اس کم سن بچی سے بڑی محبت اور انسیت رکھتے تھے۔ لالی کے اس حادثے نے سب کے دلوں کو دہلا دیا اور یہ واقعہ ان کی زندگی میں ایک خوفناک اور یادگار لمحے کے طور پر ہمیشہ موجود رہا۔