Gulistan e Adab Chapter 6 repotaz podhe رپوتاژ، پودے Solutions

رپورتاژ کو انگریزی میںReportage کہا جاتا ہے، جس کے معنی روداد یا خبر ہیں۔ اس کا مقصد عوام کو کسی نئے واقعے یا چیز کے بارے میں معلومات دینا ہوتا ہے۔ تاہم، رپورتاژ صرف ایک اطلاع نامہ نہیں، بلکہ یہ ادب کی ایک صنف ہے اور اسے تاثراتی روداد بھی کہا جاتا ہے۔ رپورتاژ میں کسی تقریب، کانفرنس، مذاکرے، یا جلسے کی کارروائی کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں، لیکن اس کا مقصد صرف اطلاع دینا نہیں ہوتا۔ ایک خبر کی طرح معلومات فراہم کرنے کے بعد وہ جلدی اپنی دلچسپی کھو دیتی ہے اور باسی محسوس ہونے لگتی ہے۔

رپورتاژ لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مصنف میں تخلیقی صلاحیت موجود ہو۔ اگر وہ صحافی ہے، تو اس میں معلومات کو ایک کہانی کی صورت دینے کا ہنر بھی ہونا چاہیے۔ رپورتاژ میں اسلوب بیان کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔

کرشن چندر 1914 میں بھرت پور میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن کشمیر کے خوبصورت علاقے پونچھ میں گزرا، جہاں ان کے والد ڈاکٹر تھے۔ تعلیم میں وکالت کا امتحان پاس کیا، انگریزی میں ایم۔ اے کیا، اور پھر آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔ فلموں کا جادو انہیں بمبئی کھینچ لایا، مگر جب فلمی دنیا میں کامیابی حاصل نہ ہوئی، تو انہوں نے قلم کو ہی زندگی کا وسیلہ بنا لیا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے انہیں زیادہ لکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا، مگر اردو کے بڑے افسانہ نگاروں میں ان کا مقام منفرد رہا۔

کرشن چندر نے ادب کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی؛ ناول، افسانے، انشائیے، رپورتاژ، ڈرامے، خاکے، اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین تخلیق کیے، مگر ان کی اصل پہچان ناول اور افسانے بنے۔ 1936 میں ان کا پہلا افسانہ “یرقان” لاہور کی ادبی دنیا میں شائع ہوا، اور افسانوں کا پہلا مجموعہ طلسم خیال 1939 میں سامنے آیا۔ ان کے افسانوں کے 32 اور ناولوں کے 47 مجموعے شائع ہوئے۔

کرشن چندر کی تخلیقات میں شاعرانہ زبان کی لطافت، منظرنگاری کے دلکش نمونے، اور اندازِ بیان میں فطری حسن جھلکتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب میں کئی نئے تجربات کیے اور ان کا طنز بےحد گہرا اور بامعنی ہوتا ہے۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ تحریریں بھی بےپناہ مقبول ہوئیں۔ ان کے افسانے اور ناول مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئے، اور انہیں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ اور پدم بھوشن کے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

یہ رپورتاژ کرشن چندر کی تحریر کردہ ہے، جس میں انہوں نے ایک ادبی محفل کا منظر پیش کیا ہے جہاں مختلف نامور ادیب، دانشور، اور شاعر شریک ہیں، اور ان کے درمیان عریانی پر ایک دلچسپ بحث جاری ہے۔ جب سردار جعفری اور کرشن چندر نظام کالج سے لوٹے تو فراق گورکھپوری، احتشام، اور ڈاکٹر عبدالعلیم جیسے بڑے نام ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ہر فرد کا عریانی سے متعلق اپنا منفرد نظریہ تھا؛ فراق حسن کے قدردان تھے، جبکہ احتشام نوجوانی کے باوجود ٹھہراؤ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عبد العلیم نے سنجیدگی اور بےباکی سے بات کو آگے بڑھایا اور مجمع میں موجود لوگوں پر تنقید کی، جس سے حاضرین کے درمیان ہلچل مچ گئی۔

اسی دوران مولانا حسرت موہانی نے عریانی کے خلاف قرارداد کو رد کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ ایسی پابندیاں نوجوان اذہان کو محدود کر دیتی ہیں۔ نوجوان عریانی کے خلاف تھے، مگر بزرگوں کا خیال تھا کہ تخلیقی سوچ کو دبانا مناسب نہیں۔ اس دوران سبطے کی گفتگو نے مولانا کی شخصیت کی تصویر کشی کرتے ہوئے انہیں “چٹان” قرار دیا جو کسی دباؤ کے تحت نہیں جھکتے۔

پھر، ایک دوپہر کو پریم چند سوسائٹی کے افتتاح کے سلسلے میں حسین ساگر جھیل کے کنارے ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی، جس میں مہمانوں کو موٹر بوٹس کے ذریعے کلب میں لے جایا گیا۔ یہ کلب جھیل کے درمیان میں تھا اور دعوت میں شامل کھانے اور نظارے بہت شاندار تھے۔ اس تقریب میں قاضی عبد الغفار نے اپنی تقریر میں سادگی اور علمیت کے ساتھ ساتھ اپنی فطری خوش مزاجی سے لوگوں کو محظوظ کیا۔ ان کی شخصیت میں عالمانہ متانت اور فکری ٹھہراؤ کے ساتھ شگفتگی بھی جھلک رہی تھی، جیسے ان کی اندرونی شورش باہر آنے کو بے تاب ہو۔

کرشن چندر نے اس رپورتاژ میں ادبی محفل کے مختلف رنگوں کو نہایت خوبصورتی اور باریک بینی سے بیان کیا، جہاں فکری بحثوں، طنز و مزاح اور شگفتہ گفتار کے مناظر جابجا نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر عبد العلیم کی شخصیت کو ایک بے باک، سچی، اور اصول پسند شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو اپنی بات کہنے میں کسی کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کی صاف گوئی اور حقیقت پسندی انہیں انوکھا مقام بخشتی ہیں، اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اکثر اوقات “صحیح بات ہمیشہ غلط موقع پر کہتے ہیں۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت بیان کرنے میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ اس سے لوگوں کو ناپسندیدگی یا ناگواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ان کے اندر سختی اور تندی ہے، جسے وہ اپنی بات منوانے میں استعمال کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، جب انہوں نے P.E.N کانفرنس میں ملک راج آنند کی تجویز کی مخالفت کی تو یہ ان کی بےباکی اور سچائی کا اظہار تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں کوئی بھی ایسا ادیب یا مفکر نہیں جو فرانس کے روسو یا والٹیئر کے مقام کا ہو۔ اس پر محفل میں سے کسی نے کہا کہ “ڈائس پر بھی کوئی ایسا فرد نظر نہیں آتا؟” تو ڈاکٹر صاحب نے بلا جھجھک کہا، “ان میں بھی کوئی نہیں!” ان کی اس بے لاگ اور بیباک رائے نے محفل میں طنز و مزاح کی فضا تو پیدا کی، مگر اس کے نتیجے میں تجویز مسترد کر دی گئی۔

یہ ان کی اصول پرستی اور بے لاگ سچائی کا ثبوت ہے۔ اسی وجہ سے انہیں ادیبوں کے مہاتما گاندھی کے مترادف قرار دیا گیا ہے، البتہ فرق یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد العلیم عدم تشدد کے قائل نہیں۔ ان کی شخصیت میں صاف گوئی اور اصول پسندی کی ایسی مضبوط خصوصیات ہیں کہ اکثر لوگ ان کی سخت باتوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود ان کی شخصیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ملک راج آنند کی تجویز تھی کہ ہندوستان میں فرانسیسی انسائیکلوپیڈسٹ تحریک کی طرح ایک ادبی تحریک شروع کی جائے جس سے ادبی میدان میں انقلاب برپا کیا جا سکے۔ اس تجویز کو کئی لوگوں نے سراہا، حتیٰ کہ ریاست بیکانیر کے وزیر سردار پانیکر جیسے افراد نے بھی حمایت کی۔ مگر ڈاکٹر عبد العلیم نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فرانس میں ایسی تحریک کو کامیابی اس لیے ملی کہ وہاں روسو اور والٹیئر جیسے عظیم لوگ موجود تھے، مگر ہندوستان میں ان کے ہم پلہ کوئی ادیب یا مفکر نہیں۔ ان کی اس رائے پر محفل میں قہقہہ بلند ہوا اور کسی نے پوچھا کہ “ڈائس پر بیٹھے افراد میں بھی کوئی ایسا نہیں؟” تو ڈاکٹر صاحب نے کہا، “ان میں بھی کوئی نہیں۔”

ڈاکٹر عبد العلیم کی اس بے لاگ مخالفت اور حقیقت بیانی کے نتیجے میں یہ تجویز وہیں مسترد ہو گئی۔ ان کی اس مخالفت میں ان کی سچائی اور اصول پسندی جھلکتی ہے، اور اس واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی رائے کتنی بے خوف اور مضبوط ہے، چاہے اس سے محفل میں کیسے ہی لوگ موجود ہوں۔

ادیبوں کے احتساب کے محکمے کے لئے ڈاکٹر عبد العلیم کو موزوں فرد اس لئے قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ بے لاگ اور بے خوف انداز میں سچ کہنے والے انسان ہیں۔ ان کی طبیعت میں اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے کی خوبی موجود ہے، اور ان کے کردار میں کوئی مصلحت پسندی یا جھوٹ کا شائبہ نہیں ہے۔ جب انہوں نے ملک راج آنند کی تجویز پر اعتراض اٹھایا تو اس سے بھی ان کی حقیقت پسندی اور بے باکی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی غلطی کو نظر انداز نہیں کرتے، چاہے اس کے نتیجے میں لوگ ان سے ناراض ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ یہی خصوصیات انہیں ایک مثالی احتسابی شخصیت بناتی ہیں، اور ان کی اس بے لاگ صاف گوئی نے انہیں ادبی حلقوں میں احترام کا مقام دیا ہے۔

مولانا حسرت موہانی کو ایک بے باک اور اصولی شخصیت کے طور پر دکھایا گیا ہے جو کسی بھی دباؤ کے آگے نہیں جھکتے۔ انہیں “چٹان” کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں اور کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرتے۔ جب ترقی پسند ادیبوں کی طرف سے عریانی کے خلاف قرارداد پیش کی گئی تو مولانا حسرت موہانی نے اس کی مخالفت کی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایسی پابندی نوجوان اذہان کی تخلیقی صلاحیتوں کو محدود کر دے گی۔ ان کی تقریر اس قدر پرجوش اور مدلل تھی کہ قرارداد مسترد ہو گئی۔

اس کے علاوہ، مولانا حسرت کے سیاسی کردار کے حوالے سے کہا گیا کہ جہاں بھی گئے، اپنے بے باک خیالات سے لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا۔ کانگریس میں رہتے ہوئے وہ مکمل آزادی کی بات کرتے رہے، اور جب کانگریس نے یہ قرارداد منظور کی تو وہ اشتراکیت کی حمایت میں مسلم لیگ میں چلے گئے۔ مولانا حسرت کی شخصیت میں کسی کے سامنے نہ جھکنے اور اپنی اصولی بات پر قائم رہنے کی ایک مضبوط خصوصیت تھی، جو انہیں دوسروں سے منفرد اور بااثر بناتی ہے۔

قاضی عبد الغفار کی شخصیت میں متانت، سنجیدگی، خوش طبعی، اور شوخی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت میں متانت اور بردباری ہے، مگر وہ اتنے سنجیدہ نہیں کہ ان کے اندر کی خوش مزاجی دب جائے۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی شخصیت میں پیرس کی رنگینی اور علمی زہد دونوں جھلکتے ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص کی طرح ہیں جو بظاہر جاگیردارانہ انداز کے مالک ہیں، مگر ان کا ذہن باغیانہ ہے۔

ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر کوئی ایسی تحریر لکھی جائے جو ان کے دل میں چھپی شوخی کو جگا دے تو وہ کھل کر ہنس پڑیں۔ قاضی صاحب کی خوش طبعی میں ایک قسم کی جھجھک ہے، جیسے وہ کسی خاص ماحول یا موقع کی وجہ سے اپنی شوخی کو کھل کر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ ان کے اندر ایک چنچل، باغیانہ انداز بھی ہے، جو ان کی شخصیت کو مزید دلکش بناتا ہے۔ ان کا لباس اور تیور جاگیردارانہ ہیں، مگر ان کا ذہن فکری اور تخلیقی رہتا ہے۔

Scroll to Top