Gulistan e Adab Chapter 9 safarnama zard patton ki bahar سفرنامہ زرد پتوں کی بہار Solutions

سفرنامہ آج کے دور کی ایک پسندیدہ صنف ہے۔ ہر سفر میں نیا تجربہ ہوتا ہے، اور اگر کوئی شخص اپنے تجربات کو بیان کرنے کی مہارت رکھتا ہو، تو وہ ایک دلچسپ سفرنامہ لکھ سکتا ہے۔ پرانے وقتوں میں، جب لوگ سفر سے واپس آتے تھے، تو اپنے تجربات اور مشاہدات دوسروں کو سناتے تھے۔ آپ نے بھی ایسے کئی قصے سنے یا پڑھے ہوں گے۔ اردو نثر کی ترقی کے ساتھ ہماری ادبی دنیا میں کئی نئی اصناف شامل ہوئیں، جن میں سوانح نگاری، خود نوشت، تنقید، انشائیہ اور سفرنامہ نمایاں ہیں۔

سفرنامہ ہمیں دور دراز کے علاقوں، مختلف ممالک، تہذیبوں اور جغرافیائی حالات کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم انوکھے کرداروں سے ملتے ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ سفرنامے ہماری معلومات بڑھانے کا ایک اچھا ذریعہ ہیں۔ گھر بیٹھے ہم ان جگہوں کے بارے میں جان لیتے ہیں جہاں جانا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے سفرنامہ حقیقی سفر کا متبادل بھی کہا جا سکتا ہے۔

اردو کا پہلا سفرنامہ یوسف خان کمبل پوش نے لکھا، جس کا نام عجائبات فرنگ ہے۔ یوسف خان نے 30 مارچ 1837 کو کلکتہ سے جہاز کے ذریعے انگلستان کا سفر کیا تھا۔ انہوں نے لندن میں قیام کیا اور وہاں کی آب و ہوا، نئی ایجادات، اور لوگوں کے طور طریقوں کو بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا۔

سرسید احمد خان کا سفرنامہ مسافرانِ لندن بہت مشہور ہوا۔ اسی طرح، سرسید کے دور کے دیگر لکھنے والوں میں محمد حسین آزاد کا سیر ایران اور مولانا شبلی نعمانی کا سفرنامہ روم و مصر و شام اہم سفرنامے ہیں۔

بیسویں صدی کے مشہور سفرناموں میں منشی محبوب عالم کے “سفرنامہ یورپ” اور “سفرنامہ بغداد”، قاضی عبدالغفار کا “نقش فرنگ” خاص طور پر مشہور ہیں۔ اسی طرح، خواجہ احمد عباس کا “مسافر کی ڈائری”، پروفیسر احتشام حسین کا “ساحل” اور“سمندر”، اور قرۃ العین حیدر کے سفرنامے “جہانِ دیگر” اور“شاہراہِ حریر” اردو کے دلچسپ سفرناموں میں شامل ہیں۔

مزاحیہ سفرناموں کی بات کی جائے تو ابن انشا، شفیق الرحمن، اور مجتبیٰ حسین کے سفرنامے اردو ادب میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ ان کے سفرنامے ہلکے پھلکے اور مزاحیہ انداز میں لکھے گئے ہیں، جو قاری کو محظوظ کرتے ہیں۔

سفرنامہ نہ صرف دلچسپی فراہم کرتا ہے بلکہ ہمیں دنیا کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی دیتا ہے۔

رام لعل اردو کے مشہور افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کے تقریباً بارہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں، اور انہوں نے تین ناول بھی لکھے ہیں۔ وہ مغربی پنجاب کے شہر میانوالی میں پیدا ہوئے۔ اپنی تعلیم لاہور میں حاصل کی اور وہیں ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی۔ تقسیمِ برصغیر کے بعد رام لعل ہندوستان آ گئے اور یہاں بھی ریلوے میں ملازمت جاری رکھی۔

رام لعل نے دو سفرنامے بھی لکھے: خواب خواب سفر اور “زرد پتوں کی بہار۔ پہلا سفرنامہ یورپ کے سفر کی کہانی پر مبنی ہے، جبکہ دوسرا پاکستان کے سفر کی تفصیلات بیان کرتا ہے۔

رام لعل کا دوسرا سفرنامہ بہت منفرد ہے۔ یہ سفر انہوں نے نئی جگہیں دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی پرانی یادوں کو زندہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ اس سفرنامے میں ماضی اور حال ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے نظر آتے ہیں۔ وہ جب کسی جگہ، عمارت، یا شخص کو دیکھتے ہیں تو انہیں اپنے لاہور کے دنوں کی یاد آ جاتی ہے۔

رام لعل کو سفرنامہ لکھنے کا خاص ہنر حاصل تھا۔ وہ اپنے مشاہدات اور تجربات کو آسان اور سادہ زبان میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے سفرنامے کی نثر نہایت روانی سے لکھی گئی ہے، جو پڑھنے والوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیتی ہے۔

یہ تحریر رام لعل کے پاکستان کے ایک یادگار سفر کی داستان ہے، جس میں وہ 8 فروری 1980 کو واہگہ کے راستے ریل کے ذریعے لاہور پہنچے۔ سفر کے دوران وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں کھوئے ہوئے تھے، خاص طور پر اپنے آبائی شہر میانوالی اور لاہور میں گزارے بچپن کی یادوں میں۔ یہ سفر ان کے لیے جذباتی اور تاریخی اہمیت رکھتا تھا، کیونکہ وہ ایک طویل عرصے بعد اس سرزمین پر واپس آ رہے تھے جہاں ان کا جنم ہوا تھا، جہاں ان کے بزرگوں نے آخری سانسیں لی تھیں، اور جسے وہ 1947 میں چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے تھے۔

لاہور پہنچنے پر رام لعل کو اپنے ماضی اور حال کے درمیان ایک پل محسوس ہوا۔ ریلوے پلیٹ فارم پر لوگوں کی بھیڑ، پنجابی بولنے والے قلی، اور پلیٹ فارم کی فضا نے ان کے دل میں کئی یادیں تازہ کر دیں۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ لاہور کی ہوا، دھوپ، اور خوشبو ابھی بھی وہی ہے جو وہ اپنے بچپن میں محسوس کرتے تھے۔ پلیٹ فارم پر ان کے دوستوں، ادبی شخصیات اور میزبانوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا، جن میں ڈاکٹر احراز نقوی، ڈاکٹر آغا سہیل، طاہر تونسوی، اورابصارعبدالعلی شامل تھے۔ان سب نے نہایت محبت اور احترام کے ساتھ ان کی رہنمائی کی۔

آغا سہیل کے گھر پہنچ کر رام لعل نے ماضی کے بارے میں مزید یادیں تازہ کیں۔ انہیں یاد آیا کہ 6 اگست 1947 کو وہ اسی لاہور ریلوے اسٹیشن سے تنخواہ لے کر جالندھر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ آغا سہیل کی رہائش گاہ پر ان کی ملاقات کئی اہم ادبی شخصیات سے ہوئی، جن میں احمد ندیم قاسمی اور میرزا ادیب جیسے بڑے نام شامل تھے۔ قاسمی صاحب کے ساتھ ان کی گفتگو نے پرانے تعلقات کی تازگی کو پھر سے زندہ کر دیا۔

رام لعل کو لاہور کے بارے میں ملا جلا تاثر ہوا۔ کچھ چیزیں ویسی ہی تھیں جیسے وہ چھوڑ کر گئے تھے، جبکہ کچھ بدلی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ شہر کی نئی عمارتوں، لوگوں کی مصروف زندگی، اور اپنے پرانے واقف مقامات کو تلاش کرنے میں مصروف رہے۔ ان کے دوستوں نے انہیں لاہور کے مختلف پروگراموں میں شرکت کی دعوت دی، لیکن ان کا منصوبہ پہلے ملتان جانا تھا، جہاں ایک دوست کی شادی کے ولیمے میں شرکت کرنی تھی۔ ملتان کے بعد وہ لاہور واپس آ کر مزید ملاقاتیں اور محفلیں کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

یہ تحریر ایک جذباتی سفر کی داستان ہے جو نہ صرف ایک شخص کے ماضی اور حال کے تعلق کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس بات کا بھی عکاس ہے کہ ماضی ہماری شناخت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ رام لعل کی تحریر ان کے ماضی، خوابوں، اور جذبات کو ایک خوبصورت اور گہری حساسیت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔

ایک اچھے سفرنامے کی چند بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں

 سفرنامہ نگار کا مشاہدہ گہرا اورباریک بین ہونا چاہیے۔ مقامات،لوگوں، ثقافت، رسم و رواج،اورماحول کی عکاسی تفصیل سےاورخوبصورتی کے ساتھ کی جائے۔

 سفر کے دوران پیش آنے والے جذبات کو اس طرح بیان کیا جائے کہ قاری خود کو اس لمحے میں موجود محسوس کرے۔

سفرنامے کی زبان سادہ، رواں اور پراثر ہو، تاکہ قاری کے لیے پڑھنا دلچسپ اور آسان ہو۔

علاقے کے تاریخی، ثقافتی، اور جغرافیائی پہلوؤں کو واضح کیا جائے، تاکہ قاری کو مقام کا حقیقی عکس نظر آئے۔

سفرنامہ نگار کے ذاتی تجربات اور احساسات شامل ہوں، جو قاری کو سفر کی انفرادیت کا احساس دلائیں۔

واقعات کو ایک دلچسپ ترتیب میں بیان کیا جائے تاکہ کہانی بکھری ہوئی محسوس نہ ہو اور قاری کو ایک تسلسل میں جوڑے رکھے۔

منظر کشی اتنی مؤثر ہو کہ اگر تصاویر نہ بھی ہوں، تو بھی قاری ان کا تصور کر سکے۔

رام لعل کا سفرنامہ ان تمام خوبیوں پر پورا اترتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے جذبات، مشاہدات، اور تجربات کو دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔

رام لعل کا پاکستان جانا ان کے ماضی سے جڑنے کی ایک کوشش تھی۔ وہ میانوالی میں پیدا ہوئے تھے اور لاہور میں جوان ہوئے، لیکن تقسیم ہند کے بعد انہیں ہندوستان منتقل ہونا پڑا۔ اس سفر کا مقصد ان مقامات کو دوبارہ دیکھنا تھا جہاں ان کا بچپن اور جوانی گزری تھی۔

وہ اس مکان کو دیکھنا چاہتے تھے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور جس میں ان کی ماں نے جان دی تھی۔

رام لعل کے بہت سے ادبی دوست اور قلمی تعلقات پاکستان میں تھے، جن سے وہ ملنا چاہتے تھے۔ وہ ان لکھاریوں اور ادیبوں سے ملاقات کے خواہش مند تھے جن کے رسائل میں وہ شائع ہوتے رہے اور جن کی کتابیں وہ پڑھتے رہے۔

وہ ان جگہوں کی خوشبو، فضا، اور ماحول کو دوبارہ محسوس کرنا چاہتے تھے جو ان کے ماضی کا حصہ تھیں۔

انہوں نے ذکر کیا کہ خوابوں میں وہ سرحد پار کر کے اپنے ماضی میں بارہا پہنچے، لیکن اب وہ حقیقت میں یہ فاصلہ طے کر کے ان یادوں کو جینا چاہتے تھے۔

لاہور پہنچنے کے بعد رام لعل کی ملاقات کئی معروف ادبی شخصیات سے ہوئی، جنہوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔

اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، اور صحافی، جن سے رام لعل کی ملاقات فون پر ہوئی۔ قاسمی صاحب نے رام لعل کو خوش آمدید کہا اور ان سے ملاقات کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کی۔

معروف افسانہ نگار اور ڈراما نویس، جن سے رام لعل کا پرانا تعلق تھا اور وہ ان کے تخلیقی کام سے واقف تھے۔

رام لعل کے دوست، جو ان کا پاسپورٹ اور ویزا لے کر کسٹم کلیئرنس میں مدد کرتے نظر آئے۔

لاہور کے ادبی حلقوں میں جگمگاتی شخصیت، جنہوں نے رام لعل کو اپنی رہائش پر ٹھہرایا۔

نقاد اور محقق، جو لکھنو میں رہ کر ریسرچ کر چکے تھے۔

ادبی دوست، جنہوں نے رام لعل کا لاہور میں استقبال کیا۔

اردو ادب سے وابستہ شخصیات، جن سے رام لعل کی پہلی ملاقات ہوئی۔

رام لعل کے ماضی کا بیان ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے

رام لعل میانوالی میں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کے آباؤ اجداد راجستھان کے ریتیلے میدانوں میں آباد ہوئے تھے، جہاں وہ عرب حملہ آوروں سے بچ کر پہنچے تھے۔ اس سے پہلے وہ کشمیر اور وزیرستان کے درمیانی علاقوں سے نقل مکانی کرتے رہے تھے۔

 رام لعل اس مکان کو دیکھنے کے خواہشمند تھے جہاں ان کی ماں نے جان دی تھی۔ اس وقت وہ دو ڈھائی سال کے تھے، اور وہ اس مکان کی شکل تک یاد نہیں کر پاتے تھے۔

 رام لعل نے اپنی جوانی لاہور میں گزاری، جہاں وہ تعلیم اور نوکری سے منسلک رہے۔

 رام لعل نے ذکر کیا کہ نقل مکانی ان کے خاندان کا ورثہ رہی ہے، اور تقسیم کے بعد وہ خود بھی ہندوستان منتقل ہوئے۔

 رام لعل نے لکھا کہ ان کا ماضی ہمیشہ ان کے خوابوں میں زندہ رہا، اور انہوں نے اس کے ساتھ جینا سیکھا۔ انہوں نے کبھی ماضی کو بھلانے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ یہ ان کی شناخت کا حصہ تھا۔

 رام لعل کے مطابق، ماضی انسان کی پہچان ہے، اور زمین اس کی جڑ۔ ماضی کے بغیر انسان اجنبی ہو جاتا ہے، جیسے کسی دوسری دنیا کا باشندہ۔

رام لعل نے اپنے ماضی کو ایک انمول خزانے کے طور پر محفوظ رکھا، اور یہی ماضی ان کی تخلیقات اور شخصیت کا بنیادی حصہ بنا۔

Scroll to Top