داستان کی تعریف اور فن
داستان اردو افسانوی ادب کی سب سے پرانی صنف ہے۔ کسی واقعے کو اپنی قوتِ خیال کے سہارے بیان کرنے کو فسانہ گوئی کہا جاتا ہے۔ فسانہ کے لغوی معنی جھوٹی یا فرضی کہانی کے ہیں، لیکن ہر فسانے کے پیچھے کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہوتا ہے۔ جب کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے تو وہ کہانی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کہانیاں ادب کی مختلف شکلوں میں ملتی ہیں، جیسے داستان، قصہ، حکایت، ناول اور مختصر افسانہ۔ ہر صنف میں کوئی نہ کوئی واقعہ یا کہانی ضرور ہوتی ہے۔ داستان ان میں سے ایک قدیم شکل ہے۔
داستان کی روایت ان پرانی چھوٹی کہانیوں اور روایتوں سے جڑی ہوئی ہے جو انسان کی تہذیب کے ساتھ پیدا ہوئیں۔ انسان کی فطرت اور سماجی ضرورت رہی ہے کہ وہ دنیا کے غموں سے دور، ایک خیالی جنت میں خوشی کے لمحے گزارے اور فارغ وقت میں دل کو سکون دینے کا کوئی ذریعہ تلاش کرے۔ اسی مقصد کے لیے
داستان ایک تفریح اور دل بہلانے کا ذریعہ بنی۔ غالب نے ایک دیباچے میں لکھا
داستان طرازی منجملہ فنون سخن ہے، سچ یہ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے۔
داستان اصل میں فرضی اور پرانی کہانیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ لمبی اور الجھی ہوئی کہانی کو داستان کہا جاتا ہے۔ جب ایک کہانی کے اندر دوسری کہانی شامل ہو کر آگے بڑھے تو وہ داستان بن جاتی ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد کے مطابق
داستان کہانی کی طویل اور پیچیدہ بھاری بھر کم صورت ہے۔
داستان بنیادی طور پر سنانے کا فن ہے۔ پرانے زمانے میں داستانیں تحریر میں آنے سے پہلے زبانی سنائی جاتی تھیں۔ اس دور میں داستان گوئی کی محفلیں سجتی تھیں، جہاں داستان گو دلچسپ واقعات سنا کر سامعین کو محظوظ کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگوں کے پاس فارغ وقت بہت تھا، وہ روزمرہ کی فکر یا آخرت کی سوچ سے آزاد تھے، اس لیے تفریح کے لیے داستانوں کا سہارا لیتے تھے۔ کامیاب داستان گو اپنی بات کو اتنا دلچسپ بناتا کہ سننے والے حیرانی میں ڈوب جاتے۔ وہ کہانی میں ایسے واقعات شامل کرتا جن کا سامعین نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو۔ عام طور پر داستان میں محبت کی خوبصورتی، نیکی اور برائی کی کشمکش، اور ماورائی یا غیر معمولی عناصر شامل ہوتے، تاکہ حیرت اور دلچسپی کا ماحول پیدا ہو۔ یہی انداز داستان گوئی کا فن کہلاتا ہے۔
داستان کے موضوعات
داستان کے موضوعات عام طور پر محدود ہوتے ہیں۔ اکثر ایک پوری داستان کا مرکز ایک شہزادے اور ایک شہزادی کا عشق ہوتا ہے، لیکن انہی دو کرداروں کے ذریعے داستان گو کئی طرح کے واقعات اور موضوعات پیدا کر لیتا ہے، یہاں تک کہ ہر سننے والے کی دلچسپی اور مزاج کے لیے کچھ نہ کچھ ایک ہی داستان میں موجود ہوتا ہے۔ دراصل داستان جاگیردارانہ دور کی پیداوار ہے، اور اسی معاشرت میں اس فن کو عروج ملا۔ اس لیے داستانوں کا ماحول اور کردار جاگیردارانہ زندگی اور اس کے نظام کی جھلک دکھاتے ہیں۔
داستان کا ہیرو عموماً کوئی شہزادہ ہوتا ہے، جس کے ساتھ ایک بڑی سلطنت اور ایک طاقتور فوج جڑی ہوتی ہے۔ پوری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ اصل میں یہ ہیرو وہ بادشاہ ہوتا ہے جو داستان گو کی سرپرستی کرتا ہے اور اپنی تفریح اور خوشی کے لیے ایسی کہانیاں سنواتا ہے۔ چونکہ ہیرو بادشاہ کی نمائندگی کرتا ہے، اس لیے اس کی کامیابی پر سننے والا بھی فتح اور خوشی محسوس کرتا ہے۔ سننے والے کے لیے ہیرو کی شکست ناقابلِ برداشت ہوتی ہے، کیونکہ یہ اس کے اندر موجود برتری کے احساس کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔
داستان چونکہ بیان کرنے کا فن ہے، اس لیے اس کی کامیابی داستان گو کی قوتِ بیان اور تخیل پر منحصر ہوتی ہے۔ اگرچہ زیادہ تر داستانوں میں بنیادی کہانی ایک جیسی ہوتی ہے، لیکن داستان گو اپنے تخیل اور بیان کے زور سے اس میں نئی باتیں اور تنوع پیدا کرتا ہے۔ اس طرح ایک چھوٹی اور سادہ سی کہانی کو وہ وسیع اور دلکش بنا دیتا ہے۔ داستان کے فن کو یوں سمجھا جا سکتا ہے جیسے ایک پرانے برتن پر قلعی چڑھائی جائے—برتن تو پرانا ہے، لیکن قلعی گر کی مہارت اسے نیا اور چمکدار بنا دیتی ہے۔ اسی طرح داستان کا بنیادی موضوع پرانا ہوتا ہے، مگر اسے نیا رنگ دینا اور خوبصورتی سے پیش کرنا داستان گو کا کمال ہوتا ہے۔
داستانوں میں خیر اور شر کی کشمکش کے پس منظر میں اخلاقی سبق بھی دیا جاتا ہے، اور کبھی کبھی مذہبی باتوں کی تبلیغ بھی کی جاتی ہے۔ اگرچہ داستانوں کے شہزادے عشق میں مبتلا دکھائے جاتے ہیں، رقص و سرود کی محفلوں میں محو رہتے ہیں، مگر کہانی کا انجام ہمیشہ نیکی کی فتح اور برائی کی شکست پر ہوتا ہے۔ داستان گو ہیرو کو اعلیٰ اخلاقی کردار کا نمونہ بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ سننے والا اس سے متاثر ہو۔
داستانوں میں جو ماحول دکھایا جاتا ہے، اس میں عام لوگوں کی زندگی کی جھلک بہت کم نظر آتی ہے۔ یہی فرق داستان، ناول اور افسانے میں ہے۔ ناول اور افسانہ حقیقت کی دنیا کو پیش کرتے ہیں، جبکہ داستان حقیقت سے ہٹ کر خیالی دنیا دکھاتی ہے۔ تاہم، حقیقت سے دور ہونے کے باوجود داستانوں میں اس زمانے کے حالات اور معاشرت کی جھلکیاں لاشعوری طور پر شامل ہو ہی جاتی ہیں۔
داستان کے اجزائے ترکیبی
طوالت
داستان کا سب سے اہم پہلو اس کی طوالت ہے۔ یہ اس زمانے کی پیداوار ہے جب لوگوں کے پاس فارغ وقت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ وہ روزمرہ کے مسائل سے آزاد اور آخرت کی فکر سے بے پرواہ ہوتے تھے۔ اس لیے وقت گزارنے کے لیے رقص و سرود کے ساتھ ساتھ سب سے دلچسپ مشغلہ داستان سننا ہوتا تھا، کیونکہ اس سے ایک ہی وقت میں دونوں کا مزہ مل جاتا تھا۔
داستان گو کہانی کو لمبا کرنے کے لیے ایک کہانی میں کئی اور کہانیاں شامل کرتا تھا، لیکن اس انداز سے کہ سب کہانیاں مرکزی قصے کا ہی حصہ لگتیں۔ وہ بات سے بات اس طرح نکالتا کہ سننے والے کو کبھی یہ محسوس نہ ہو کہ کہانی بکھر گئی ہے۔ مقصد یہ ہوتا کہ سننے والوں کا شوق اور دلچسپی برقرار رہے۔ اسی لیے ایک کہانی میں قصے پر قصہ جوڑ کر داستان کو طول دیا جاتا۔ داستان امیر حمزہ، بوستان خیال، الف لیلی، باغ و بہار اور فسانہ عجائب اس کی مشہور مثالیں ہیں۔ اس طرح طوالت داستان کا بنیادی حصہ بن گئی۔
پلاٹ
چونکہ داستانیں لمبی اور پیچیدہ ہوتی ہیں، اس لیے ان میں سیدھا سادہ اور مربوط پلاٹ کم ہی ملتا ہے۔ پلاٹ کی دو قسمیں ہوتی ہیں: سادہ اور پیچیدہ۔ سادہ پلاٹ میں کہانی شروع سے آخر تک ایک ہی سیدھے راستے پر چلتی ہے، جیسے ابتدا، درمیانی حصہ اور پھر انجام۔ پیچیدہ پلاٹ میں بھی ابتدا اور انجام ہوتا ہے، مگر بیچ میں کہانی کئی راستوں پر بٹک جاتی ہے۔ زیادہ تر داستانوں کا پلاٹ اسی طرح پیچیدہ ہوتا ہے۔
داستان گو ایک طے شدہ آغاز اور انجام سوچ کر کہانی شروع کرتا، مگر درمیان میں نئے قصے آتے رہتے اور کہانی ایک بڑے دائرے میں پھیل جاتی۔ کبھی کبھی ایک ہی داستان میں سینکڑوں چھوٹی کہانیاں شامل ہو جاتیں، جو سب مرکزی کہانی سے جڑی ہوتیں۔ بوستان خیال اس کی بہترین مثال ہے، جس میں بے شمار ضمنی قصے ہیں۔
اگر داستان سیدھے سادے انداز میں بیان ہو کہ ایک شہزادہ خواب یا تصویر میں شہزادی کو دیکھتا ہے، اس سے محبت ہو جاتی ہے، وہ سفر کر کے اسے ڈھونڈ لیتا ہے اور دونوں مل جاتے ہیں، تو یہ تو کہانی ہو گئی، لیکن داستان نہیں۔ داستان کا مزہ اس وقت آتا ہے جب شہزادے کو راہِ عشق میں کئی مشکلات پیش آتی ہیں، وہ صحراؤں میں بھٹکتا ہے، نئے کردار آتے ہیں اور نئے قصے بنتے ہیں۔ یہی پیچیدگی داستان میں دلچسپی اور خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔
داستان کا پلاٹ زیادہ تر بے ترتیب اور غیر مربوط ہوتا ہے، جو داستان گو کے ذہن میں کہانی سناتے سناتے بنتا ہے۔ یہ اس کی تخیل کی طاقت پر ہے کہ وہ کہانی کو کتنا پھیلا سکتا ہے یا محدود کر سکتا ہے۔ اس زمانے میں نہ داستان گو کو وقت کی فکر ہوتی تھی نہ سننے والوں کو، اور چونکہ داستان کا اصل فن سنانے کا تھا، اس لیے زبانی بیان میں تخیل کی پرواز زیادہ نظر آتی تھی۔ لکھنے میں زبان کی حد بندیاں تخیل کو پوری طرح آزاد نہیں چھوڑتیں، پھر بھی داستان امیر حمزہ اور بوستان خیال جیسے شاہکار اردو میں موجود ہیں۔
اگرچہ زیادہ تر داستانوں کے پلاٹ غیر مربوط اور پیچیدہ ہوتے ہیں، لیکن کچھ میں سادہ اور سیدھی کہانیاں بھی ملتی ہیں۔ مثلاً سب رس کا پلاٹ دوسری داستانوں کے مقابلے میں زیادہ مربوط ہے اور اس میں قصہ در قصہ کا انداز نہیں ہے۔ قصہ مہر افروز و دلبر اور نوطرز مرصع کا پلاٹ عام داستانوں جیسا ہے، مگر ان میں بھی کئی ضمنی قصے شامل ہیں۔ عجائب القصص اور فسانہ عجائب کے پلاٹ نہ زیادہ پیچیدہ ہیں نہ بالکل غیر مربوط، بلکہ ان میں تسلسل بھی ہے۔ اسی لیے بعض ناقدین نے فسانہ عجائب کو ناول کا پیش رو کہا ہے۔ اس کے باوجود، زیادہ تر داستانوں میں پیچیدہ اور غیر مربوط پلاٹ ہی پایا جاتا ہے۔
کردار نگاری
ہر کہانی کی بنیاد کرداروں پر ہوتی ہے۔ کہانی انہی کرداروں کے آس پاس گھومتی ہے۔ کردار ہی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں اور انہی کی وجہ سے کہانی میں اُتار چڑھاؤ آتا ہے۔ لیکن داستانوں کے کردار، ناول اور افسانے کے کرداروں سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ داستانوں میں کردار زیادہ تر ایک جیسے رہتے ہیں اور ان میں ابتدا سے آخر تک کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔
داستانوں کے کردار دو حصوں میں بانٹے جا سکتے ہیں
پہلا ۔ اچھے کردار جو بھلائی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
دوسرا ۔ برے کردار جو برائی پھیلانے اور لڑائی جھگڑے میں لگے رہتے ہیں۔
زیادہ تر داستانوں میں اچھائی اور برائی کے درمیان لڑائی دکھائی جاتی ہے۔ اچھے کردار نہایت نیک اور پرہیزگار ہوتے ہیں، اور برے کردار دنیا کی ہر برائی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ برے کردار شہزادے کی منزل تک پہنچنے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں، کبھی جادو کے ذریعے تو کبھی جنگ کر کے۔ ان کرداروں میں انسانوں کے ساتھ ساتھ دیو اور جن بھی شامل ہوتے ہیں۔
مرکزیکردار عموماً شہزادہ ہوتا ہے، جو ہر خوبی میں کامل دکھایا جاتا ہے۔ حسن میں یوسف جیسا، بہادری میں رستم جیسا، عقل میں افلاطون و ارسطو جیسا۔ وہ ہر جادو توڑ سکتا ہے اور عشق میں ایسی دیوانگی دکھاتا ہے کہ مجنوں اور فرہاد بھی حیران رہ جائیں۔ شہزادی بھی اسی طرح خوبصورت اور نازک مزاج دکھائی جاتی ہے، جو غیر مرد کو دیکھ کر بے ہوش ہو جائے۔ پریوں کے کردار بھی ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں، اور زیادہ تر کردار بادشاہ، شہزادے، شہزادیاں، وزیر زادے، دیو، جن اور پریاں ہی ہوتے ہیں۔ کرداروں کے نام عام طور پر علامتی رکھے جاتے تھے۔
لیکن سب رس کے کردار کافی متحرک ہیں۔ ہر کردار کی اپنی شخصیت اور اہمیت ہے، اور کہانی کو آگے بڑھانے میں سب کا کردار ہوتا ہے۔ وجہی نے مرد اور عورت کے کرداروں کی الگ الگ صفات حقیقت کے قریب انداز میں بیان کی ہیں۔ مردوں میں بہادری اورعورتوں میں شرم وحیا اورنرمی جیسی خوبیاں دکھائی گئی ہیں۔
عجائب القصص میں چار اہم کرداروں کے ساتھ ساتھ جن اور پریوں کی شکل میں بہت سے دوسرے کردار نظر آتے ہیں۔ باغ و بہار میں چار درویش، آزاد بخت اور خواجہ سگ پرست کا کردار یادگار ہے۔ فسانۂ عجائب میں جان عالم روایتی ہیرو کی مثال ہے، جس میں اچھی اور کمزور دونوں قسم کی انسانی خصوصیات نظر آتی ہیں۔ ملکہ مہر نگار حسین و جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ ہوشیار، سمجھدار اور موقع شناس ہے۔
زیادہ تر داستانوں کا موضوع محفل، جنگ اور عشق ہوتا ہے، اور کرداروں میں شہزادے، شہزادیاں، دیو، جن اور پریاں شامل ہوتے ہیں۔ طویل داستانوں میں عیار کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے، جو ہر ہنر میں ماہر اور مرکزی کردار کا مددگار ہوتا ہے۔
مافوق الفطرت عناصر
داستان کی دنیا عام دنیا سے مختلف ہوتی ہے۔ یہاں عجیب و غریب مخلوق نظر آتی ہے۔ دیو، جن اور پریاں یہاں دکھائی دیتی ہیں۔ نجومی، جوتشی اور جادوگر بھی اکثر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ طلسمات کا جال بچھا ہوا ہوتا ہے۔ داستان کو مزید دلچسپ اور حیرت انگیز بنانے کے لیے مافوق الفطرت عناصر شامل کیے جاتے ہیں۔ داستانوں میں یہ عناصر ہی کہانی کو دلچسپ بناتے ہیں۔ عام زندگی کے واقعات سن کر سامعین محظوظ نہیں ہوتے، وہ ناقابل یقین اورغیر معمولی واقعات کی امید کرتے ہیں۔ اجنبی مخلوق کے بارے میں بتا کرسامعین کی دلچسپی بڑھائی جاتی ہے۔
پچھلی صدیوں میں لوگ آج کے مقابلے میں زیادہ توہم پرست تھے۔ دیو، بھوت، پریت اور پریوں پر یقین عام تھا۔ اس کا تعلق مذہبی اور معاشرتی اعتقادات سے تھا۔ ہر مذہب میں مافوق الفطرت مخلوق کا تصور موجود ہے، اسی لیے ہر ملک کے ابتدائی ادب میں بھی مافوق الفطرت عناصر ملتے ہیں۔
داستانوں میں مافوق الفطرت عناصر کی موجودگی کہانی کی دلچسپی کم نہیں کرتی بلکہ اردو اور فارسی کی بیشتر داستانوں کی مقبولیت کی بنیاد یہی عناصر ہیں۔ داستان گو غیر فطری مخلوق کو اس خوبصورتی سے پیش کرتا ہے کہ یہ غیر حقیقی ہونے کے باوجود حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ مبالغہ یا بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا احساس نہیں ہوتا اور کہانی کا حسن بھی متاثر نہیں ہوتا۔
منظر نگاری
داستان گو ایک اجنبی اور نامعلوم دنیا کا قصہ پیش کرتا ہے۔ وہ کچھ زیادہ ہی مبالغہ استعمال کرتا ہے، لیکن اس انداز سے کہ سامعین کو یہ حقیقت لگے۔ داستان کی دنیا کو حقیقی دکھانے کے لیے داستان گو اپنے زمانے اور داستان کی دنیا کے درمیان فاصلے پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کے لوگوں یا اپنے آس پاس کے شہروں کو داستان میں شامل نہیں کرتا، کیونکہ عام چیزوں کا ذکر کرنے سے داستان کا حسن ختم ہو جاتا ہے۔
داستان میں موجود زندگی اگرچہ داستان گو کے زمانے کی ہوتی ہے، لیکن انداز بیان ایسا ہوتا ہے کہ لگتا ہے جیسے صدیوں پہلے کا قصہ سنایا جا رہا ہو۔ داستان اکثر اس طرح شروع ہوتی ہے: “بہت پہلے کی بات ہے، فلاں ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔” زمان و مکان کا یہ فاصلہ سامعین کی دلچسپی بڑھاتا ہے۔
صدیوں پہلے کے کسی دور یا ملک کا ذکر کر کے داستان گو ہر ناقابل یقین بات کو حقیقت کے روپ میں پیش کر سکتا ہے اور داد و تحسین حاصل کر سکتا ہے۔ اگر وہ کہے کہ “سو سال پہلے ایک بادشاہ کا دشمن ایک خونخوار دیو تھا، جس کا قد پانچ سو گز تھا، یا دلی میں رہنے والے ایک شہزادے کو پریاں اٹھا کر لے گئیں”، تو سامعین بجائے کہ مذاق اُڑائیں، داستان گو کی تعریف کریں گے۔ اس لیے داستان میں دور دراز ممالک کے نام لیے جاتے ہیں، جیسے اختن، چین، یمن، روم، دمشق، شام وغیرہ۔ وہ علاقے اس زمانے میں بہت دور سمجھے جاتے تھے۔
داستان میں عشق کی کہانی کے پس منظر میں بزم اور رزم بھی بیان ہوتا ہے۔ کہانی کی طوالت زیادہ تر منظر نگاری اور تفصیل بیان کرنے کی مہارت پر منحصر ہوتی ہے۔ مناظر کی تصویر کشی کی جو عمدہ مثالیں داستانوں میں ملتی ہیں، شاید کسی اور صنف میں اتنی تفصیل سے نہ ملیں۔ غیر ممالک کا ذکر کر کے داستان گو اپنے زمانے کے تہذیبی منظر اورماحول کو فنکارانہ اندازمیں پیش کرتا ہے۔
اگرچہ اردو کی داستانیں عہد زوال میں لکھی گئیں، ان میں جشن اور محفل کے مناظر عہد عروج کا منظر پیش کرتے ہیں۔ سب رس کی چھوٹی داستانیں، جیسے قصۂ مهر افروز و دلبر باغ و بہار اور فسانۂ عجائب، جشن کے مناظر تفصیل سے دکھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ طویل داستانیں، جیسے داستان امیر حمزہ اور بوستان خیال، مناظر کو اور بھی زیادہ مفصل بیان کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر
گلہائے رنگا رنگ، بوقلمون کھلے ہوئے، حوض گلاب اور عرق کیوڑہ سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہزاروں درخت پھلوں سے جھکے ہوئے ہیں۔ بلبلان خوشی اور نغمہ سرائی کر رہے ہیں۔ نسیم عنبر شمیم چل رہی ہے، اور سر و لب تازگی اورخوشی سے اکڑ رہے ہیں۔
یوں مناظر کی تفصیل نہ صرف داستان کی فضا کو خوشگوار بناتی ہے بلکہ داستان کو طوالت بھی دیتی ہے۔
اسلوب
داستان سننے اور سنانے کا فن صدیوں سے سینہ بہ سینہ چلتا آ رہا ہے۔ لیکن داستان کا انداز بیان عام گفتگو سے مختلف ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے جب تحریر کا فن آیا اور داستانیں لکھی جانے لگیں، تو ان کا انداز بھی عام تحریر سے الگ رہا۔عموماً داستانوں میں دو طرح کے اسلوب استعمال کیے گئے ہیں
پہلا ۔ پر تکلف اور شکوہ بھرے انداز بیان
دوسرا ۔ سلیس اور سادہ انداز بیان
پر تکلف انداز کی مثال کے طور پر نوطرز مرصع اور فسانہ عجائب کو دیکھا جا سکتا ہے، اور سادہ انداز کے لیے قصۂ مہر افروز و دلبر اور باغ و بہار کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
کسی بھی داستان کو اس کے موضوع کی وجہ سے اہم نہیں کہا جا سکتا، بلکہ اسے اہم اسلوب، واقعات کی ترتیب اور تفصیل کے بیان کی وجہ سے خاص بنایا جاتا ہے۔ سب رس سے لے کر بوستان خیال تک کی سب داستانیں اپنے اسلوب کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ سب رس اگرچہ اردو کی ابتدائی داستان ہے اور فارسی کتاب کا اثر رکھتی ہے، اس کے باوجود فارسی الفاظ اور تراکیب سے بھاری نہیں ہے۔ فسانۂ عجائب کی انفرادیت بھی اس کے اسلوب کی وجہ سے ہے۔ یہ داستان اپنے زمانے میں منظم، مرصع اور پر تکلف انداز کی وجہ سے پسند کی گئی۔ اس کی تخلیق کے وقت لکھنؤ کے دربار میں آرائش و زیبائش کا ماحول ابھی موجود تھا۔ فسانہ عجائب کی زبان تحریری ہے، جس کی بار بار درستگی کی جاتی ہے، اس لیے اس کے لہجے میں خاص نفاست اور شائستگی نظر آتی ہے۔
میر امن نے باغ و بہار کے ذریعے اردو نثر کو ایک نیا اسلوب دیا۔ انہوں نے تقریر کی زبان کو تحریر کی شکل دی۔ بول چال اور تحریر کی زبان الگ ہوتی ہے۔ بول چال میں عام فہم اور چھوٹے جملے استعمال ہوتے ہیں، جبکہ تحریر میں الفاظ کو ترتیب دے کر لکھا جاتا ہے۔ باغ و بہار کی زبان تحریری محسوس نہیں ہوتی بلکہ منہ سے نکلے ہوئے جملوں کی طرح سادہ اور روانی سے بیان کی گئی ہے۔ میر امن نے سادگی، روانی اور روزمرہ کے الفاظ کے ساتھ ادبیت بھی قائم رکھی۔ وہ فارسی الفاظ، تراکیب، تشبیہات اور استعارات استعمال کرتے ہیں، لیکن اس انداز سے کہ ان کا مخصوص اسلوب متاثر نہ ہو۔ ان کا اسلوب کہیں بھی نوطرز مرصع یا فسانہ عجائب سے مشابہ نہیں لگتا، یہی میر امن کی انفرادیت ہے۔ ان کے اسلوب کی سادگی اور روانی ہر جگہ یکساں نظر آتی ہے۔
مذکورہ داستانوں کے علاوہ دیگر داستانیں بھی اپنے مخصوص اسلوب کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں، کیونکہ موضوع تو تقریباً سبھی داستانوں کا ایک جیسا ہوتا ہے، لیکن اسلوب ہی ان کی شناخت بنتا ہے۔