فانیؔ بدایونی
پروفیسر آل احمد سرور صاحب نے فانی کو ان کے حقیقی روپ میں پیش کرنے اور ان کے کلام کی صحیح قدر و قیمت کو جانچنے کی کوشش کی ہے، ورنہ اکثر لوگ فانی کے کلام کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر غزل کے ناقدین نے فانی کو “یاسیات کے امام” کا لقب دے کر یہ سمجھ لیا کہ تنقید کا حق ادا ہوگیا۔ فانی کے ساتھ سب سے زیادہ ناانصافی جوشؔ نے کی، جب انہوں نے فانی کو “بیوہ عالم”، “سوز خواں”، “ہر وقت رونے والا” اور “انسانیت کے درجے سے گرا ہوا شاعر” کہہ کر اپنی تنقید کو بھی اعتدال و توازن سے دور کر دیا۔
پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں” مومن کے یہاں فلسفہ ،غم ، تغزل ، زبان سبھی کا امتزاج ہے ۔ اس دور میں غالب ؔ کی صحیح پیروی فانی نے کی ہے یا اقبال نے ۔ فانی کے یہاں غم بھی ہے اور غم کا عرفان بھی۔ وہ فلسفی نہیں، لیکن استدلال اور طرز بیان فلسفیانہ ہے ۔ وہ واردات انسانی کے کامیاب مصور ہیں اور قدیم رنگ برتنے والوں میں فانی کا لہجہ سب سے زیادہ آفاقی ہے”
جوش کی نظر میں سنجیدگی اور متانت کی ہمیشہ کمی رہی ہے، اس لیے ان کے تنقیدی نظریات پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بعض معتبر ناقدین بھی فانی کے ساتھ انصاف کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ نیاز فتح پوری کو فانی کے اشعار کی “تلخی” میں “تیزابیت” محسوس ہوئی، کلیم الدین احمد کو “تنگ دامانی” کا شکوہ ہے۔ مجنوں گورکھپوری کا کہنا ہے کہ “فانی کے مسلسل شیون و فریاد سے ایک ناگوار اثر پیدا ہوتا ہے اور ایک تھکا دینے والی یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے”۔ اقبال نے جو یہ کہا تھا کہ “شاعر کی نو امردہ افسردہ و بےذوق” اس کے بارے میں سرور صاحب کی رائے ہے کہ “یہ اعتراض شاید فانی کی شاعری کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہو”۔
فانی کی غزل کی اس خصوصیت، یعنی غم و اندوہ، پر اتنا زور دیا گیا کہ باقی خوبیاں نظر انداز ہو گئیں۔ یہ حقیقت سامنے نہ آسکی کہ فانی کے بہت سے اشعار میں جو شعریت ہے، وہ کم شاعروں کو نصیب ہوئی ہے۔ وہ شاعری میں افادیت کے قائل نہیں تھے اور فن برائے فن کے اصول پر یقین رکھتے تھے۔ اس لیے وہ لفظوں کے انتخاب، ان کی ترتیب، اور اشعار کی تراش خراش پر خاص توجہ دیتے تھے، جس سے ان کے کلام میں بیان کی خوبصورتی پیدا ہوگئی۔ ان کے اشعار کی بے ساختگی، روانی، اور چستی ہمیں متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ شعر میں شعریت صرف بیان کی خوبصورتی سے نہیں آتی، بلکہ اس کے لیے خیال کی گہرائی بھی ضروری ہے۔
فانی کسی اعلیٰ خیال کو ایسی سادگی اور شگفتگی کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اس میں زبردست تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی ترتیب ہمیشہ نئی ہوتی ہے۔ وہ چیزیں جو ہم پہلے کسی اور انداز میں دیکھتے تھے، شاعر انہیں اس طرح سجاتے ہیں کہ وہ بالکل نئی محسوس ہوتی ہیں۔ اس انوکھے انداز اور چونکا دینے والے بیان کی وجہ سے ہم کچھ دیر کے لیے حیران رہ جاتے ہیں یا ہمارے منہ سے بے اختیار آہ نکل جاتی ہے۔ یہی شعر کی خوبصورتی اور اس کی اصل قدر ہے۔
فانی کے اشعار جو قنوطیت و یاس پسندی سے دور ہیں۔
سمجھتی ہیں مالِ گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں پر تبسم آہی جاتا ہے
دل میں اک شمع سی جلتی نظر آتی ہے مجھے
آکے اس شمع کو پروانہ بنایا ہوتا
دو گھڑی کے لیے میزان عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے
جب غزل مشکل دور سے گزر رہی تھی اور سرسید اور حالیؔ کے نظریات کی وجہ سے غزل کے خلاف کئی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں، تب حسرتؔ اور فانی نے مل کر غزل کو نئی زندگی دی اور سچے عشق کی کامیاب ترجمانی کی۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو عشقیہ شاعری میں فانی کا مقام حسرتؔ سے بلند ہے۔ فانی نے عشقیہ شاعری کو فلسفیانہ بلندی دی اور اس میں زیادہ گہرائی پیدا کی۔ حسرت کے عشق میں کچھ ہلکاپن، رنگینی، اور وصال کی آرزو، بلکہ کچھ حد تک جسمانی خواہش بھی نظر آتی ہے۔ فانی عیش پرستی کی دنیا سے دور ہیں۔ انہوں نے ایسے اشعار بھی کہے جن میں شوخی ہے، مگر وہ وصال کے لیے نہیں ہیں۔ ان کی شاعری ہجر کا مقدر ہے، اسی لیے ان کی عشقیہ شاعری پر اداسی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ غم کا جذبہ خوشی کے جذبے سے زیادہ گہرا اور طاقتور ہوتا ہے، اور اس کی تاثیر بے حد ہوتی ہے۔
فانی کے کالام سے کچھ عشقیہ شعر جس میں شوخی زندہ دل ہیں اور کچھ ایسے جن پراداسی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔
تم جوانی کی کشاکش میں کہاں بھول اٹھے
وہ جو معصوم شرارت تھی ، ادا سے پہلے
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
مل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا
ادا سے آڑ میں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے
مری قضا کو وہ لائے دلہن بنائے ہوئے
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانی
کیا کرو گے وہ اگر یاد آیا
فانی کے کلام میں قنوطی پہلو بھی نظر آتے ہیں۔ بے شک، ایک بے انتہا درد، بے پایاں مایوسی اور ناامیدی، ہڈیوں تک کو پگھلا دینے والا غم، ایک جاں گسل کیفیت، اور ایک مسلسل آہ ہی فانی کی زندگی کا سرمایہ ہیں۔
رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں ہیں : ” ہماری المیہ کہانی میرؔ کی پر درد زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ کتاب الم کا دوسرا باب مغلیہ دور کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی زندگی سے شروع ہو کر دہلی کی تنہا ہی پر منتہی ہوتا ہے۔ اس کی تیسری قسط فانی کی روداد غم ہے جو ان کی ذات سے شروع ہو کرانہی پر ختم ہوتی ہے” ۔
فانی کا غم محض روایتی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ ان کے اجداد بہت مالدار تھے، لیکن زمانے کے انقلاب نے سب کچھ برباد کر دیا۔ باوجود اس کے، فانی کو وراثت میں اتنا کچھ ملا کہ وہ زندگی بھر آرام سے رہ سکتے تھے، مگر دنیوی معاملات کی سمجھ بوجھ میں وہ ماہر نہیں تھے اور کچھ بھی بچا کر نہ رکھ سکے۔ ان کی زندگی تنگ دستی میں گزری۔ آسودگی کی تلاش انہیں حیدرآباد لے گئی، مگر قسمت نے وہاں بھی ساتھ نہ دیا۔ عزیزوں اور دوستوں کی بے رخی کا سامنا کرنا پڑا۔ جسے دل و جان سے چاہا، اس نے وفا کا صلہ نہ دیا۔ اشعار پر داد دینے والے تو ملے، مگر ان کی قدر کرنے والا کوئی نہ تھا۔ انہوں نے زمانے کو اپنے خلاف اور ماحول کو ناسازگار پایا۔ وہ خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کے قابل نہ تھے، اور نہ ہی حالات کو بدلنے کی طاقت رکھتے تھے۔ اس لیے ان کی طبیعت پر یاس اور ناامیدی کا غلبہ ہونا لازمی تھا۔ غالبؔ کی طرح مضبوط اعصاب نہیں رکھتے تھے کہ زہر پی کر بھی مسکراتے رہتے، مگر پھر بھی انہوں نے خاصی ہمت دکھائی۔ فانی کے کلام کا مطالعہ کریں تو دو رخ سامنے آتے ہیں: ایک جو غم کو برداشت کرتا ہے اور اس کی فلسفیانہ توجیہ پیش کرتا ہے، اور کبھی کبھی ایک صدمہ برداشت کرنے کے بعد دوسرے صدمے کا متلاشی ہوتا ہے۔
چند مثالیں۔
وہ بدگماں کہ مجھے تاب رنج زیست نہیں
مجھے یہ غم کہ غم جاوداں نہیں ملتا
اپنے دیوانے پر اتمام کرم کر یا رب
درو دیوار دیے ، اب انھیں ویرانی دے
میری ہوس کو عیش دو عالم بھی تھا قبول
تیرا کرم کہ تو نے دیا دل دکھا ہوا
مجنوں گورکھپوری فرماتے ہیں کہ۔” فانی نے اردوغزل کو نئی سمت کی طرف موڑا اور مواد و اسلوب دونوں کے اعتبار سے اس میں نئی وسعتیں اور صلاحیتیں پیداکیں”۔
میں نے فانی ڈوبتے دیکھی ہے نبض کا ئنات
جب مزاج حسن کچھ برہم نظر آیا مجھے