فراقؔ گورکھپوری
فراق گورکھپوری اردو غزل میں ایک نئی اور منفرد آواز کے ساتھ آئے، جو اپنے مخصوص انداز اور نئے شعری تجربات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ان کے اشعار نے لوگوں کو حیران کر دیا، اور کبھی کبھار مایوس بھی کیا۔ کچھ ناقدین کا خیال تھا کہ ان کی غزل کا انداز اردو غزل کے روایتی رنگ سے میل نہیں کھاتا، اس لیے یہ زیادہ عرصے تک نہیں چلے گا۔ لیکن بعض اوقات شاعری آہستہ آہستہ دلوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ فراق کی غزل نے پہلے ایک چھوٹے سے حلقے کو اپنی طرف متوجہ کیا، اور پھر وہ حلقہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ یہ آواز اردو غزل کی دنیا پر چھا گئی۔ آخرکار، ایک دن ایسا آیا جب یہ کہا جانے لگا کہ یہ دور فراق کا دور ہے۔ محمد حسن عسکری نے بھی اس بات کا اعتراف کیا۔” دس سال کے عرصے میں فراقؔ کی شاعری اور تنقید نے اردو پڑھنے والوں کے ذوق بلکہ طرز احساس کو بدل کے رکھ دیا ہے اور ایسے چپکے چپکے کہ خود اپنی طبیعت کو پتا نہیں چلنے پایا۔ اب جو غزلیں لکھی جا رہی ہیں ان میں فراق کا دیا ہوا طرز احساس گونجتا ہے ، فراق کے محاورے سنائی دیتے ہیں، فراق کی آواز لرزتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے غزل گو شعرا کے یہاں میرؔاور غالبؔ کا احساس اور محاورہ جا بجا لپک اٹھتا ہے۔ پچھلے تین چار سال میں جو اردو غزل کا احیا ہوا وہ پچھتر فی صدی فراق ؔ کا مرہون منت ہے ۔ فراق کی شاعری نے اردو میں ایک ادارے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ شاعر تو شا عر عام پڑھنے والوں کے شعور میں فراقؔ کی شاعری رچتی چلی جارہی ہے” ۔
فراق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غزل میں اساتذہ کی پیروی نہیں کی بلکہ پرانی روایات کو توڑ دیا۔ عام اور غیر معمولی فنکار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ عام فنکار پہلے سے موجود راستے پر چلنا ہی بڑی بات سمجھتا ہے، جبکہ غیر معمولی فنکار اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے اور اپنا نیا راستہ خود تلاش کرتا ہے۔
فراقؔ ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک شاعر کے بیٹے تھے اور شعری ماحول میں پروان چڑھے۔ اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ جواہر لال نہرو کے کہنے پر قومی تحریک میں شامل ہوئے اور اس کے نتیجے میں ایک سال جیل میں بھی رہے۔ سول سروسز کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے انگریزی ادب کی تدریس کو اپنا مستقل پیشہ بنایا اور مغربی ادب سے متاثر ہوئے۔ ہندو دیومالا ان کی ذات میں رچی بسی تھی اور ہندو فلسفے کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہندی اور سنسکرت ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ان کی شخصیت مختلف جہتوں کی حامل تھی۔ جب ان کی تخلیقی شخصیت نے انگڑائی لی تو کوئی بھی مروجہ سانچہ اسے محدود نہیں کر سکا۔
اردو غزل جو فارسی شاعری اور ایمرانی تمدن کی پروردہ تھی، فراقؔ کی تخلیقی اپج کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی۔ چنانچہ فراق ؔ کی تخلیقی اپج ایسی زبان اور ایسے لہجے کی تلاش میں سرگرداں رہی جو اسے سہار سکے۔ اس تلاش میں فراقؔ نے دور و دراز کا سفر کیا ، کبھی وہ مصحفیؔ، ذوقؔ، ناسخؔ اور داغ ؔ تک پہنچے کبھی دیر تک کلام میر ؔ کا لطف رہے۔ یہ تلاش اردو شاعری تک محدود نہ رہی کالی داس ، ٹیگور، سور داس، بہاری اور کبیر بھی ان کی توجہ کا مرکز رہے اور شبلی ، کیٹس ، اور ڈرورتھ بھی۔
اتنے مختلف النوع اثرات سے جو لہجہ وجود میں آیا وہ اردو غزل کے لیے اجنبی اور اکھڑا اکھڑا تھا اور اس کی موسیقی عجب کھردری سی تھی ۔ اسے دیکھ کر اہل نظر نے فتوی صادر کر دیا کہ اردو کے ایوان غزل میں اسے جگہ نہیں دی جا سکتی۔ مگر فراقؔ نے ہمت نہیں ہاری ۔ دو غزلے سہ غزلے اور چہار غزلے کہتے رہے۔ لگا تار لکھنے سے کچھ تو لہجہ نکھرا کچھ یہ بھی ہوا کہ قارئین اس لہجے کے عادی ہوتے گئے ۔ بات بنے لگی اور غزل کی دنیا میں فراقؔ کا سکہ چلنے لگا۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے فراق کو بہت محنت کرنی پڑی۔ انھوں نےسچ کہا ہے کہ
” میں نے اس آواز کو مر مر کے پالا ہے فراؔق “
فراق کی غزل کے خوبیوں اور خامیوں پر غور کریں۔ اس سے پہلے انکے چند اشعار ۔
فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی
اسے فراق آفاق ہے کوئی طلسم اندر طلسم
ہے ہر اک خواب اک حقیقت ہر حقیقت ایک خواب
جینا جو آگیا تو اجل بھی حیات ہے
اور یوں تو عمر خضر بھی کیا بے ثبات ہے
پہروں پہروں تک یہ دنیا بھولا سپنا بن جائے ہے
میں تو سراسر کھو جاؤں ہوں ، یا د اتنا کیوں آؤ ہو
دربار عشق میں تھے ہزاروں امیدوار
کچھ عرضیاں قضا نے بھی آکر گزاریاں
اے قلب سرنگوں ، کبھی نہیں بول بھی ذرا
خوشیاں ہزار میں نے ترے در پہ واریاں
رات چلی ہے جو گن بن کر، بال سنوارے لٹ جھٹکائے
چھپے فراق ؔ گگن پر تارے ، دیپ بجھے ہم سو جائیں
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
تم نے تو خیر بے وفائی کی
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں کے چراغ
وہ تمام روے نگار ہے وہ تمام بوس وکنار ہے
وہ ہے چہرہ چہرہ جو دیکھیے، وہ جو چو میے تو دہن دہن
اشعار میں ہیں عارض و کا کل کے وہ جلوے
ہاں دیکھ کبھی تو مری غزلوں کی شب ماہ
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
فراقؔ کی غزل اور اس کی خصوصیات کو سمجھنے کے لیے بہت سے اشعار پیش کرنے پڑے۔ فراق کا کلیات اتنا بڑا ہے کہ اس کا مطالعہ اور ان کے کلام کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔ وہ ایک بہت تیز اور زیادہ شعر کہنے والے شاعر ہیں۔ فراقؔ نے مصحفیؔ سے بہت متاثر ہو کر شعر کہنا شروع کیا، اور ممکن ہے کہ جلد اور زیادہ شعر کہنے کی تحریک بھی انھیں مصحفیؔ سے ملی ہو۔
ایسے شاعر کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ ایک بار شعر کہنے کے بعد اسے دوبارہ دیکھنے یا اسے بہتر بنانے کا وقت نہیں ملتا، جس سے شاعری کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہی فراقؔ کے ساتھ ہوا۔ ان کے بہت سے اشعار میں سے ان کے اصل مزاج کے اشعار کو تلاش کرنا مشکل ہے۔ بہر حال، یہاں ایک مختصر انتخاب پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے فراق کی غزل کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔
فراق کی نکتہ رس طبیعت، ان کی تیز سوچ، اور ان کا وسیع تجربہ، مطالعہ، اور مشاہدہ وہ خصوصیات ہیں جنہوں نے ان کی غزل کو قیمتی شعری تجربات سے مالا مال کر دیا ہے۔ فراق نے اپنے دور کی پیچیدہ زندگی کے مسائل کو سمجھا، انہیں اپنے احساسات کا حصہ بنایا، اور اشعار کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ فراق کی غزل اپنی زبان کے ساتھ آتی ہے۔ ان کی غزل کا انداز سکون، نرمی، اور ٹھنڈک سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ اپنے نئے تجربات کے لیے لفظوں جیسے لہلہا ٹیں، رسما ہٹیں، اور ملگجا ہٹیں استعمال کرتے ہیں۔ کبھی کبھار، ضرورت کے مطابق، وہ میرؔ کی زبان (گزاریاں، واریاں، جاگو ہو، بھاگو ہوں) بھی استعمال کرتے ہیں۔ ہندو دیو مالا سے فراق نے اپنی غزل کو خاص دلکشی دی ہے اور ہندی کے نرم اور شیریں الفاظ بھی بڑے سلیقے سے استعمال کیے ہیں۔
فراق کی غزل میں محبوب عورت ہے اور ان کے جسم کے پیچ و خم کو وہ بہت خوشی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کا تصور عشق بھی عام انداز سے کچھ مختلف ہے۔ فراق کا عاشق بہت تیکھے مزاج کا ہوتا ہے، اور محبوب کو اس کا احساس ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے قدردان کی ناز برداری کرنے سے نہیں چوکتا۔ فراقؔ کو اپنی عشقیہ شاعری پر ہی نہیں، بلکہ پوری شاعری پر فخر ہے، اور یہ کوئی بے جا بات نہیں۔ بڑا شاعر اپنی عظمت سے ناواقف نہیں ہوتا۔
کہتے ہیں میری موت پر اس کو بھی چھین ہی لیا
عشق کو مدتوں کے بعد ایک ملا تھا ترجماں
ختم ہے مجھ پہ غزل گوئی عہد حاضر
دینے والے نے وہ انداز سخن مجھ کو دیا
ہر عقدہ تقدیر جہاں کھول رہی ہے
ہاں دھیان سے سننا یہ صدی بول رہی ہے
بے شک فراق کی آوازہ انیسویں صدی کی ایک نا قابل فراموش آواز ہے۔