ghazal or uske fun ka tanqeedi mutala غزل اور اس کے فن کا تنقیدی مطالعہ

اردو شاعری میں غزل کےعلاوہ اور بھی بہت کچھ ہے ۔ قصیدہ ، مرثیہ،مثنوی وغیرہ مگر جو مقبولیت غزل کو حاصل ہوا وہ کسی اور صنف کو نصیب نہ ہوسکا۔ تماشا تو  یہ کہ اردو میں جب سے تنقید کا باقاعدہ آغاز ہوا اسی وقت سے غزل کی مخالفت بھی شروع ہو گئی۔ حالی کو اس میں سنڈ اس کی بد بو حسوس ہوئی ، کلیم الدین احمد نے اسے نیم وحشی صنف سخن ٹھہرایا، عظمت اللہ خاں نے مشورہ دیا کر غزل کی گردن بے تکلف اُڑا دینی چاہیے ۔ ایسی شدید مخالفت کے باوجود غزل کی مقبولیت میں ذرہ برابر کمی نہ آئی  بلکہ اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اور غزل نے اپنی توانائی کا ایسا ثبوت دیا کہ آج کوئی اس صنف سخن کے خلاف لب کشائی کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے ۔ حد یہ کہ ہندی والوں نے غزل کو جوں کا توں اپنا لیا۔ آج کوی سمیلن میں !جس چیز کی سب سے زیادہ مانگ ہے، وہ ہے غزل

غزل بنیادی طور پر ایک داخلی صنفِ سخن ہے، یعنی غزل کا شاعر صرف وہی بیان کرتا ہے جو اس کے دل پر بیتی ہو۔ شاعر کی دل پر گزرنے والی کیفیتیں وہی ہوتی ہیں جو دوسروں پر بھی گزرتی ہیں۔ اس لیے پڑھنے والا یا سننے والا غزل میں اپنی کہانی سن سکتا ہے، اور اس طرح غزل میں آپ بیتی، جگ بیتی بن جاتی ہے۔

لیکن غزل کا دائرہ وسیع ہے۔ احساسات و جذبات کے علاوہ، غزل میں فکر کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔ جدید غزل کا شاعر صرف وہی نہیں پیش کرتا جو وہ محسوس کرتا ہے، بلکہ وہ بھی پیش کرتا ہے جو سوچتا ہے اور جو دیکھتا ہے۔ شاعر کا خیال اور فکر احساس بن کر غزل کے اشعار میں ڈھل جاتی ہے۔

غزل کی مقبولیت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اس کا مرکزی موضوع عشق رہا ہے۔ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جس سے کوئی دل خالی نہیں، کیونکہ عشق کے ہزار رنگ اور روپ ہیں۔ مرد کا عورت سے یا عورت کا مرد سے عشق، ماں باپ کا اولاد سے یا اولاد کا ماں باپ سے عشق، ملک و قوم پر جان نچھاور کرنا بھی عشق ہے، اور کسی عظیم مقصد کے لیے جنون بھی عشق ہے۔ مرشد سے مرید کی عقیدت بھی عشق ہے، اور سب سے اعلیٰ عشق وہ ہے جو انسان کو محبوب حقیقی یعنی خدا سے ہوتا ہے۔

زندگی میں عشق کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، لیکن غزل کے شاعر نے دنیا جہان کی باتیں تو کہیں، مگر عام طور پر حسن و عشق ہی کے موضوعات کو نمایاں کیا ہے۔ غالب نے بھی غزل کے بارے میں یہی کہا ہے۔

آج اردو غزل کا دامن بہت وسیع ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مضمون یا موضوع ایسا نہیں جسے غزل نے اپنے اندر نہ سمو لیا ہو۔ لیکن اگر حساب لگایا جائے تو پتا چلتا ہے کہ غزل میں آج بھی عشق کا پلڑا بھاری ہے۔غزل کا شاعر اشارے اور کنایے میں بات کرتا ہے اور اسے ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ عام طور پر غزل کا شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے۔ شاعر کو اپنے تجربے یا واردات کو ایک شعر میں سمونا پڑتا ہے۔ کیسا ہی پیچیدہ تجربہ کیوں نہ ہو، شاعر کو اسے پیش کرنے کے لیے صرف دو مصرعوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً شاعر کہتا ہے:

دشت کو دیکھ کے گھر کیوں یاد آیا ؟ اس لیے کہ وہاں بھی دشت کی سی ویرانی تھی ۔ دوسرا مطلب دشت پیمائی سے یہ سبق ملا کہ نہ عشق کرتے نہ گھر چھوڑ کے یہاں آنا پڑتا۔ تیسرا مطلب ان دونوں سے بالکل الگ ہے۔ دشت کو دیکھ کے خیال آیا کہ یہ ویرانی تو کچھ بھی نہیں، اصل ویرانی تو میرے گھر میں تھی۔ مطلب یہ کہ محبوب کے نہ آنے سے گھر ویران نظر آتا تھا۔ شعر کی یہ تہ داری ابہام کی رہین منت ہے۔

شعر میں ترنم  یا موسیقی نہ ہو تو وہ شعر کہلانے کا مستحق نہیں، غزل میں یہ خوبی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی دوسری صنف اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کا پہلا سبب تو یہ ہے کہ پوری غزل کسی ایک بحر میں ہوتی ہے یعنی اس کے ہر مصرعے کا وزن یکساں ہوتا ہے جس سے ایک خاص دھن  اور لے پیدا ہوتی ہے۔ ردیف و قافیہ بھی غزل کی موسیقی میں اہم کردار ادا  کرتے ہیں۔ سید عابد علی عابد نے لکھا ہے کہ موسیقی میں ضرب جو کام کرتی ہے غزل میں قافیہ وہی کام کرتا ہے۔ ضرب کو طبلے کی تھاپ سمجھ لیجئے ۔ ردیف کے بارے میں پروفیسر مسود حسین خاں  لکھتے  ہیں کہ

“غزل کے پاؤں میں ردیف پایل  یا جھانجن کا حکم رکھتی ہے۔ یہ اس کی موسیقیت ، ترنم موزونیت کو بڑھا تی ہے” آخری بات یہ کہ غزل کا شاعر لفظوں کے انتی بہت خیال رکھتا ہے۔ یہی وجہ  ہے کہ غزل بہت اچھی طرح گائی جا سکتی ہے۔ اس لیے محفلوں اور مشاعروں میں غزل بے حد مقبول ہے۔

غزل کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ غزل کے اشعار آسانی سے یاد ہو جاتے ہیں اور مختلف موقعوں پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ایک شعر میں ایک تجربہ کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، اور جب بھی کوئی شخص ایسے تجربے سے دوچار ہوتا ہے، وہ آسانی سے اس شعر کو دہرا سکتا ہے۔ کبھی کبھی تو صرف ایک مصرعے سے ہی یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً، اگر کوئی دوست بے وفائی کرے تو ہمیں یہ مصرع یاد آ جائے گا۔

کوئی شخص اپنے عمل پر شرمندہ ہوا مگر اس وقت جب ہمیں اس کے عمل سے نقصان پہنچ چکا تو ہم کہ سکتے ہیں۔

رشید احمد صدیقی نےٹھیک ہی کہا ہے کہ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے۔

غزل کی ہیت یعنی اس کی ظاہری شکل کو سمجھنا ضروری ہے۔ ذوقؔ کے لفظوں میں یہ دیکھا جائے کہ غزل بنتی کیسے ہے اور جب بنائی جاتی ہے تو شاعر کو کن منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔

جن چیزوں سے غزل کی صورت بنتی ہے ان میں پہلی چیز ہے بحر شعر کا وزن کرنے یا اسے ناپنےکے پیمانے بحریں کہلاتے ہیں جو چھوٹی بڑی بھی ہو سکتی ہیں اور آسان یا مشکل بھی۔ یہ فن عروض کہلاتا ہے۔

بحر کی مثال ۔ میرؔ کی مشہور غزل ہے۔

 بحر کے بعد غزل کی دوسری پہچان ہے ردیف و قافیہ ردیف وہ لفظ یا وہ الفاظ ہیں جو غزل کے پہلے شعر یعنی مطلع کے دونوں مصرعوں کے آخر میں اور اس کے بعد ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر میں آئیں۔ قافیہ وہ لفظ ہے جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ مطلعے کے دونوں مصرعوں کے آخر میں(لیکن ردیف ہو تو اس سے پہلے) اور باقی تمام شعروں کے دوسرے مصرعوں کے آخر میں آئے ۔ مثال کے لیے آتش کا یہ شعر دیکھیے۔

غزل کے لغوی معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا۔ ابتدا میں غزل حسن و عشق کی باتوں تک ہی محدود تھی، لیکن وقت کے ساتھ اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ آج کوئی بھی موضوع ہو، اسے کامیابی کے ساتھ غزل میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

جب اردو ادب میں غزل نے قدم رکھا، تو اس کی دنیا بہت محدود تھی۔ اردو کے قدیم غزل گو شاعروں میں ولیؔ کے دیوان کی ورق گردانی کریں تو پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر اشعار حسن و عشق سے متعلق ہیں۔ ان اشعار میں گہرائی کم اور سطحی باتیں زیادہ ہیں، جیسے محبوب کا سراپا اور عشق کی مختلف کیفیتیں۔ کچھ اشعار عشق حقیقی سے متعلق بھی ہیں، اور کہیں پند و نصائح بھی ملتے ہیں۔ ولیؔ کے بعد شاعری کا مرکز شمالی ہند میں مضبوط ہوتا ہے، اور دہلی اس کا اہم مقام بن جاتا ہے۔ اس مرکز کے پہلے بڑے شاعر میرؔ ہیں۔ حسن و عشق ان کی غزل کا بھی سب سے اہم موضوع ہے، لیکن ان کے دیوان میں تصوف کے مضامین بھی نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زندگی سے متعلق اہم تجربات بھی غزل میں پیش کیے جانے لگے ہیں، اگرچہ ان کی تعداد کم ہے۔ کلیات میرؔ میں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں۔

اس کے بعد شاعری کا مرکز لکھنو منتقل ہوا۔ یہاں اردو شاعری کو کچھ زوال ہوا، مگر دو قابل قدر اضافے بھی ہوئے۔ ایک تو یہ کہ عورتوں نے اردو شاعری کی دنیا میں جگہ بنائی، اور دوسری بات یہ کہ یہاں ہجر کی بجائے وصال کے مواقع ملے، جس کی وجہ سے حزن و ملال کی بجائے خوشی اور سرمستی کی کیفیت غالب رہی۔

لکھنوی شاعری کے دور کے بعد غالبؔ کا عہد آتا ہے۔ غالب نے شاعری میں فکر کا عنصر شامل کیا، اور کہا گیا کہ غالب نے اردو شاعری کو ذہن دیا۔ غالب نے زندگی سے متعلق بہت سے مسائل کو اردو غزل میں شامل کیا۔ اس کے بعد اقبالؔ نے یہ ثابت کیا کہ غزل میں صرف فکری عنصر ہی نہیں، بلکہ باضابطہ فلسفہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے فلسفہ خودی نظم کے علاوہ غزل میں بھی بیان کیا۔

فیضؔ نے غزل میں سیاسی شاعری کی، اور جدید دور کے شاعروں نے ثابت کر دیا کہ غزل میں مضمون اور موضوع کو کامیابی سے پیش کیا جا سکتا ہے۔

جب سے اردو میں تنقید کا باقاعدہ آغاز ہوا، غزل پر مختلف اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے۔ سب سے پہلا اعتراض یہ تھا کہ غزل کا دامن تنگ ہے، اور اس میں صرف عشق و عاشقی کے موضوعات ہی ہیں، جو اکثر فرضی ہوتے ہیں، یعنی وہ شاعر بھی عشق کی بات کرتا ہے جس نے زندگی میں کبھی عشق کیا ہی نہیں۔

اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جب حالیؔ نے یہ بات کہی، اس وقت غالبؔ، جنہیں حالیؔ اپنا استاد مانتے ہیں، اردو غزل کے موضوعات کو وسعت دے رہے تھے۔ غالبؔ زندگی اور کائنات کے مسائل پر غور کرتے تھے اور انہیں اپنے اشعار میں شامل کرتے تھے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ عشق بھی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے، اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عشق کے مختلف پہلو ہیں جیسے خدا سے عشق، ماں باپ سے عشق، اولاد سے عشق، وطن سے عشق، اور کسی اہم مقصد سے عشق وغیرہ۔

تیسرا جواب یہ ہے کہ عشق کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کے مختلف معنی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً، محبوب کا لفظ کبھی خدا، کبھی معشوق مجازی، کبھی وطن، کبھی قوم، اور کبھی مقصد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

چوتھا اور اہم نکتہ یہ ہے کہ عشق کے پردے میں زندگی کی بہت سی حقیقتوں کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ علامتیں وہی رہتی ہیں، مگر ان کے معانی بدل جاتے ہیں۔

آخر میں، یہ کہنا کہ جو شخص خود عشق نہیں کرتا، وہ اس موضوع پر شاعری کرنے کا حق نہیں رکھتا، بالکل غلط ہے۔ شاعر کا تخیل اسے وہ چیزیں دیکھنے اور بیان کرنے کی صلاحیت دیتا ہے جو اس نے براہ راست نہیں دیکھی ہیں۔ مثال کے طور پر، شکسپیر نے اپنے ڈراموں میں اٹلی کی جیتی جاگتی تصویریں کھینچی ہیں، حالانکہ انہوں نے کبھی اٹلی نہیں دیکھا۔ شکسپیر نے عورتوں کی تصویر کشی بھی کی ہے، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ وہ زندگی میں کبھی عورت رہے ہوں گے؟ دراصل، شاعر کا تخیل اور اس کی تخلیقی صلاحیت اسے وہ تجربات پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے جو اس نے براہ راست نہیں کیے۔ اس لیے یہ اعتراض بے وزن ہے۔

 اردو غزل پر حالیؔ کا دوسرا اعتراض تکرار مضامین کا ہے ۔ انھیں شکایت ہے کہ چند مضمون ہیں جنہیں غزل میں لفظوں کے معمولی الٹ پھیر کے ساتھ بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک دیوان کی مثال دی ہے جس میں چاک گریباں کا مضمون ڈیڑھ سو بارہ ادا ہوا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ہم نے بھی چودہ برس شاعری کی پھر جب آنکھ سے پٹی کھلی تو معلوم ہوا کہ کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گردش کرتے رہے ۔ اس اعتراض کے جواب میں دو باتیں کہی جا سکتی ہیں ایک تو یہ کہ کسی مضمون کو کئی دل نشیں انداز میں ادا کرنا عیب نہیں ہنر ہے اور اس سے شاعر کے کمال من کا پتا چلتا ہے ۔ میرؔانیس نے اپنی اسی خصوصیت پر فخر کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔

غزل کی سب سے زیادہ اعتراض کی جانے والی خصوصیت ہے اس کی”ریزہ کاری”۔ ریزہ کاری کا مطلب ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے، یعنی ہر شعر میں ایک مکمل بات کی جاتی ہے۔ ایک غزل کے مختلف اشعار میں کوئی ربط نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ ایک شعر میں وصال کا ذکر ہو، دوسرے میں ہجر کا، اور تیسرے میں ان دونوں سے مختلف موضوع ہو۔ یہی خصوصیت ہے جس پر سب سے زیادہ تنقید کی گئی ہے۔

دو مصرعوں میں کوئی پورا تجربہ اسی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ اشارے کنایے سے کام لیا جائے۔ جب کوئی بات اشارے میں کہی جاتی ہے تو اس میں عموما ابہام پیدا ہو جاتا ہے اور ابہام سے شعر کےحسن میں اضافہ ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ ہر شعر میں ایک الگ منفرد تجربہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے جب کوئی اس تجربے سے دو چار ہوتا ہے تو اس شعر کو دہرا دیتا ہے۔ چنانچہ غزل کے بے شمار اشعار ہیں جو ضرب المثل بن گئے اور گفتگو کے دوران خوب استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ شعر دل کی بات ادا کرنے میں مددگار ہوتے ہیں اورگفتگو کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔

غزل پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ اس میں جو معشوق پیش کیا جاتا ہے وہ مر د یعنی لڑکا ہے۔ اور کبھی کبھی تو اس کی داڑھی مونچھ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ شعر

غزل پر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ غزل کے شاعر کو الٹا چلنا پڑتا ہے۔ مطلب یہ کہ ردیف (اگر غزل مردّف ہے تو )پہلے سے طے ہے۔ اس سے پہلے قافیہ ہے۔ پھر قافیہ کی رعایت سے دوسرا مصرع پہلے مکمل ہوتاہے پھر اس پر گرہ لگائی جاتی ہے یعنی پہلا مصرع کہا جاتا ہے۔ اس طرح غزل کہنے کی ترتیب الٹی ہوئی۔

بے شک یہ بات درست ہے لیکن شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرا مصرع پہلے اور پہلا مصرع بعد کو کہتا ہےلیکن پڑھنے والے کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ یہی غزل گو کا کمال ہے۔

Scroll to Top