Gulistan e Adab Chapter 12 Nazam Gore Gariba نظم گورِغریباں solutions

نظم عربی زبان کا لفظ ہے۔ لغت میں اس کے معنی ہیں “لڑی میں موتی پرونا”۔ اس کے دوسرے معنی ہیں انتظام، ترتیب، اور آرائش۔ یہ مجازی معنی ہیں جو پہلے معنی سے نکلے ہیں۔ ادبی اصطلاح میں نظم کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پہلے معنی میں یہ لفظ نثر کے مقابلے میں بولا جاتا ہے، یعنی ہر وہ کلام جو نثر نہ ہو،نظم ہے۔ نظم کا دوسرامطلب خاص اور محدود ہے۔اس کےمطابق نظم شاعری کی وہ صنف ہےجس میں کسی خاص موضوع پر تسلسل کےساتھ اظہار خیال کیا جائے۔

نظم عام طور پر کسی ایک موضوع سے جڑی ہوتی ہے، لیکن کچھ خاص صورتوں میں ایک نظم میں ایک سے زیادہ موضوعات بھی ہو سکتے ہیں، جو کسی بنیادی موضوع سے جڑے ہوتے ہیں۔ نظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جس کے گرد پوری نظم گھومتی ہے۔ موضوع کا تسلسل اور پھیلاؤ بھی نظم کی اہم خصوصیت ہے۔ طویل نظموں میں یہ تسلسل واضح ہوتا ہے، جبکہ مختصر نظموں میں یہ اکثر ایک تاثر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ نظم کی ان خصوصیات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں “غزل” کے علاوہ شاعری کی جتنی اصناف ہیں، وہ سب نظم میں شامل ہیں، لیکن اپنی الگ خصوصیات کی وجہ سے کچھ اصناف کے نام الگ ہو گئے ہیں، جیسے قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی، قطعہ وغیرہ۔

صنف سخن کے لحاظ سے نظم کی اصطلاح ایک جدید تصور ہے۔ اس لیے اکثر نظم کے لیے “نظم جدید” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ نظم کے لیے نہ تو ہئیت کی کوئی پابندی ہے اور نہ موضوع کی۔ موجودہ دور میں ہئیت کے اعتبار سے نظم کی تین قسمیں مقرر کی گئی ہیں

ایسی نظم جس میں بحر کے استعمال اور قافیوں کی ترتیب میں مقررہ اصولوں کی پابندی کی گئی ہو، پابند نظم کہلاتی ہے۔ مربع، مخمس، مسدس، ترکیب بند، ترجیع بند، گیت وغیرہ پابند نظم کی مختلف شکلیں ہیں۔

ایسی نظم جس کے تمام مصرعے وزن کے لحاظ سے برابر ہوں، مگر قافیہ نہ ہو، نظم مُعَرَّا کہلاتی ہے۔

ایسی نظم جس میں نہ تو قافیے کی پابندی ہو اور نہ بحر کے استعمال میں روایتی اصولوں کا خیال رکھا گیا ہو، بلکہ مصرعے چھوٹے بڑے ہوں، آزاد نظم کہلاتی ہے۔ انگریزی میں آزاد نظم کے لیے فری ورس کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اردو میں آزاد نظم کا رواج انگریزی نظم کی تقلید کی وجہ سے ہوا۔ 19ویں صدی کے آخر میں، جب ہندوستان میں انگریزوں کا اثر بڑھا اور انگریزی زبان و ادب کے اثرات پھیلے، تو آزاد نظم کا چلن اردو میں عام ہو گیا۔ روایت پسندوں نے اردو میں آزاد نظم کو پہلے ناپسند کیا، لیکن آہستہ آہستہ آزاد نظم نے ادبی تاریخ میں اپنی جگہ بنا لی۔ آج کل نظم مُعَرَّا اور آزاد نظم کے ساتھ ساتھ نثری نظم بھی اردو میں مقبول ہو رہی ہے۔

نظؔم طباطبائی کی پیدائش لکھنو میں ہوئی، جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کی والدہ نواب معتمد الدولہ آغا میر کے خاندان سے تھیں، جو نواب غازی الدین حیدر کے وزیر اعظم تھے۔ نظم طباطبائی کا تعلق نواب واجد علی شاہ کی بیوی بوٹا بیگم کے خاندان سے بھی تھا، اسی رشتے کی وجہ سے وہ 1868 میں اپنے والد کے ساتھ کلکتہ (ٹیا برج) چلے گئے۔ وہیں انہوں نے مذہبی اور علمی تعلیم مکمل کی۔

1887 تک وہ کلکتہ میں مختلف نوکریاں کرتے رہے، لیکن پھر بہتر روزگار کے لیے حیدر آباد چلے گئے، جہاں وہ زندگی کے آخری دنوں تک مقیم رہے۔ حیدر آباد میں انہوں نے کئی اہم عہدوں پر کام کیا، جن میں کتب خانہ آصفہ کے مہتمم (لائبریری انچارج) کا منصب بھی شامل تھا۔ وہ نظام کالج میں پہلے عربی اور فارسی کے لیکچرر اور بعد میں اردو کے استاد بنے۔ 1918 میں دارالترجمہ حیدر آباد سے وابستہ ہوئے، جہاں انہوں نے کئی کتابوں کا ترجمہ کیا، موجودہ کتابوں پر نظرِ ثانی کی اور مختلف علوم کے لیے نئے الفاظ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

نظم طباطبائی علم و ادب کے شوقین تھے اور اردو کے ساتھ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہیں فلکیات اور شاعری کے اصولوں سے خاص دلچسپی تھی۔

وہ اردو ادب میں دو بڑی وجہوں سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے:

انہوں نے سب سے پہلے غالب کے دیوان کی مکمل تشریح لکھی، جو حیدر آباد سے شائع ہوئی۔ اس میں غالب کے اشعار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، جہاں خوبیوں کو سراہنے کے ساتھ ساتھ کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی گئی۔

انگریزی شاعر تھامس گرے کی مشہور نظم ہے۔ Elegy Written in a Country Churchyard

انہوں نے اس نظم کا اردو میں شاعری کی شکل میں ترجمہ کیا، جس کا نام “گورِ غریباں” رکھا۔

یہ نظم ایک ویران قبرستان کے منظر سے شروع ہوتی ہے، جہاں سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی شام کا سایہ پھیل جاتا ہے۔ چرواہے اپنے مویشی لے کر واپس جا رہے ہیں، کسان خوشی خوشی اپنے گھروں کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن شاعر تنہا کھڑا ہے، اس سنسان جگہ کو دیکھ رہا ہے۔ چاروں طرف سناٹا ہے، صرف کبھی کبھار کوئی آواز سنائی دیتی ہے—کہیں دور سے گھنٹی بجنے کی آواز، یا کسی پرانی عمارت پر اُلو کی صدائیں۔

شاعر ان گمنام قبروں کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی دنیا میں عزت، دولت اور طاقت رکھتے تھے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ ان میں کیسے کیسے قابل اور ذہین لوگ ہوں گے؟ ان کے بازو کتنے طاقتور ہوں گے؟ مگر آج ان کی ہڈیاں تک خاک میں مل چکی ہیں۔ شاعر نصیحت کرتا ہے کہ جو بھی اس راہ سے گزرے، ان قبروں کو حقارت سے نہ دیکھے بلکہ ان سے عبرت حاصل کرے، کیونکہ یہاں وہی لوگ دفن ہیں جو کبھی بہت عزت دار تھے۔

نظم کے آخری حصے میں ایک بوڑھا کسان ایک نوجوان کی کہانی سناتا ہے۔ وہ نوجوان ہر صبح باغوں اور کھیتوں میں گھومنے آتا تھا، جھرنوں کے پاس بیٹھتا، ہنستا، مسکراتا اور قدرت کے حسن سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ پھر اچانک ایک دن وہ نظر نہیں آیا۔ دوسرے دن بھی وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔ تیسرے دن اچانک اس کا جنازہ نظر آیا، لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے اس کی میت کو لے جا رہے تھے۔

بوڑھا کسان ایک قبر کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ یہ اسی نوجوان کی قبر ہے، جس کی زندگی بہت مختصر رہی۔ شاعر کہتا ہے کہ اس نوجوان کے نیک و بد کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ وہی ہر چیز جاننے والا ہے۔ نظم اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ زندگی فانی ہے، دولت، شہرت، حسن اور جوانی سب کچھ ایک دن ختم ہو جاتا ہے۔

یہ نظم انسانی زندگی کی بے ثباتی، موت کی حقیقت اور دنیا کی بے وفائی کو بیان کرتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ غرور اور تکبر بے فائدہ ہے، کیونکہ آخر میں سب کو مٹی میں مل جانا ہے۔ ہمیں نیکی کے کام کرنے چاہئیں، تاکہ مرنے کے بعد بھی لوگ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کریں۔

انگریزی شاعر تھامس گرے کی مشہور نظم ہے۔ اسی نظم کا ترجمہ گورِ غریبا ہے۔ Elegy Written in a Country Churchyard

یہ انگریزی ادب کی ایک شاہکار نظم ہے، جو موت کی حتمی حقیقت، دنیا کی ناپائیداری اور عام لوگوں کی گمنامی پر مبنی ہے۔

نظؔم طباطبائی نے اس ترجمے میں اصل نظم کی سادگی، سوز، درد اور گہرے جذبات کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اس کے موضوع بلکہ اس کی شاعری کی مخصوص ترتیب کو بھی اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ یہ ترجمہ اردو شاعری کی تاریخ میں ایک منفرد کارنامہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں نئے طرز کی قافیہ بندی اور اصل نظم کے جذبات کو مکمل طور پر محفوظ رکھنے کی مہارت شامل ہے۔

موت ایک حقیقت ہے، جس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

عام اور گمنام لوگوں کی قبریں بھی قابلِ احترام ہیں، کیونکہ وہ بھی ایک وقت میں عزت دار تھے۔

شہرت اور اقتدار کے غرور کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ سب کو ایک دن خاک میں مل جانا ہے۔

جو کچھ بھی ہم دنیا میں کرتے ہیں، اس کا اثر ہمارے بعد بھی باقی رہتا ہے۔

نظؔم طباطبائی کا ترجمہ “گورِ غریباں” انگریزی نظم کی طرح قبرستان کے ویران اور سنسان ماحول سے شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ موت کے فلسفے اور انسانی زندگی کے فانی ہونے کے احساس کو گہرا کرتا چلا جاتا ہے۔

نظم میں قبرستان کے خاموش اور ویران منظر کو دیکھ کر شاعر سوچتا ہے کہ یہاں ایسے لوگ دفن ہیں جو کبھی زندگی میں عظیم، ذہین، قابل، بہادر اور بااختیار تھے۔ یہ لوگ بھی کسی زمانے میں اقتدار، دولت اور علم کے مالک تھے، ان کے ذہن تیز تھے، ان کے بازو طاقتور تھے، وہ سوچتے، لکھتے، بولتے، حکمرانی کرتے، جنگ لڑتے، فیصلے کرتے، لیکن آج وہ سب خاک میں مل چکے ہیں۔

شاعر کہتا ہے کہ یہ قبریں ہمیں ایک اہم سبق دیتی ہیں

دولت، اقتدار، شہرت اور طاقت سب کچھ وقتی ہے۔

زندگی کتنی ہی شان و شوکت والی ہو، آخرکار سب کو مٹی میں جانا ہے۔

ہمیں ان قبروں کو عزت اور احترام سے دیکھنا چاہیے، کیونکہ ان میں وہی لوگ دفن ہیں جو کبھی ہمارے جیسے زندہ تھے۔

اشعار میں شاعر کہتا ہے

یعنی یہ کھوپڑیاں (کاسئہ سر) ان لوگوں کو نصیحت کر رہی ہیں جو اپنے تاج و تخت پر فخر کرتے ہیں کہ غرور اور تکبر بے فائدہ ہے، کیونکہ ایک دن سب کو مر جانا ہے۔

یہاں انسانی زندگی کے فانی ہونے کا تصور بہت واضح ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ دولت اور اقتدار ہمیشہ ساتھ نہیں رہتے، بلکہ آخری منزل سب کے لیے ایک جیسی ہے موت۔

“لوحِ تربت” کا مطلب ہے قبر کا کتبہ یا وہ پتھر جس پر مرنے والے کا نام، تاریخ اور کچھ نصیحت آموز الفاظ درج ہوتے ہیں۔

نظم میں، جب شاعر قبرستان میں کھڑا ہوتا ہے، تو وہ قبروں کے کتبے پڑھتا ہے اور ان پر لکھی ہوئی تحریروں سے عبرت حاصل کرتا ہے۔ ایک لوحِ تربت پر لکھا ہوتا ہے
“جو اس راستے سے گزرتا ہے تو ٹھنڈی سانس بھرتا جا۔”

اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اس قبرستان سے گزرے، وہ ان قبروں کو دیکھ کر زندگی کی حقیقت کو سمجھے اور موت کی یاد میں ایک لمحے کے لیے رُک کر غور کرے۔

لوحِ تربت ہمیں ماضی کے لوگوں کی زندگیوں کی جھلک دیتی ہے اور یہ یاد دلاتی ہے کہ آج جو لوگ زمین میں دفن ہیں، وہ بھی کبھی ہمارے جیسے زندہ تھے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ غرور اور تکبر بے فائدہ ہے، اور زندگی میں اچھے کام کرنے چاہئیں، تاکہ بعد میں لوگ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔

نظم میں کہن سال دہقاں (بوڑھا کسان) ایک نوجوان کی کہانی سناتا ہے، جو ہر روز صبح سویرے باغوں، سبزہ زاروں اور جھرنوں کے پاس چہل قدمی کے لیے آتا تھا۔ وہ قدرت کے حسن سے لطف اندوز ہوتا، پانی کی آوازیں سنتا اور ہنستا مسکراتا تھا۔

بوڑھا کسان کہتا ہے کہ پھر اچانک ایک دن وہ نوجوان نظر نہیں آیا۔

پہلے دن وہ باغ میں دکھائی نہیں دیا۔

دوسرے دن بھی وہ کہیں نظر نہیں آیا۔

تیسرے دن اس کا جنازہ قبرستان میں لے جایا گیا، اور لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے اسے دفن کر رہے تھے۔

بوڑھا کسان شاعر کو ایک قبر کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے
“یہ اس کی قبر ہے اور یہ کتبہ اس کی یاد میں لگا ہے۔”

بوڑھا کسان آخر میں بہت گہری بات کہتا ہے
“خدا بخشے اسے، وہ ہمیشہ دوست کی تلاش میں رہتا تھا، اور آخر میں اسے سب سے بڑا دوست (خدا) مل گیا۔”

یعنی یہ نوجوان ہمیشہ کسی دوست کی تلاش میں رہتا تھا، لیکن دنیا میں کوئی بھی دوست ہمیشہ کے لیے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ آخر میں انسان کا سب سے سچا اور آخری دوست صرف خدا ہوتا ہے۔

یہ بات زندگی کے اصل مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بوڑھا کسان ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کو دنیا میں کسی نہ کسی چیز کی تلاش رہتی ہے—کبھی خوشی، کبھی دوستی، کبھی محبت، کبھی سکون۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ عارضی ہے، اور آخری سچائی یہی ہے کہ ہر انسان کو آخر میں خدا کے پاس واپس جانا ہے۔

اقبال سیالکوٹ کے مشہور شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباء و اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ اقبال نے ابتدائی تعلیم مولوی میر حسن سے حاصل کی۔ 1893 میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا، پھر 1897 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے بی اے مکمل کیا۔ 1899 میں ایم اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے 1905 میں یورپ چلے گئے۔ وہاں سے ڈاکٹریٹ اور بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی۔ واپسی پر لاہور میں وکالت شروع کی اور کچھ عرصہ یہی ان کا ذریعہ معاش رہا۔

اقبال نے اپنی زندگی میں کئی ملکوں کا سفر کیا، جن میں برطانیہ، جرمنی، اسپین، فرانس، فلسطین اور افغانستان شامل ہیں۔ وہ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے، جس کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا۔ ان کی شاعری نے انہیں بہت شہرت دی اور وہ ایک بڑے شاعر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ ان کا انتقال لاہورمیں ہوا۔

اقبال اردو کے عظیم فلسفی شاعر تھے۔ ان کا مشرقی اور مغربی خیالات کا مطالعہ بہت وسیع تھا، اور وہ قدیم و جدید علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے 20ویں صدی کے معاشرتی، اخلاقی اور فکری مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیا۔ ان کی فکر آج بھی ہماری تہذیب کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

اقبال کی شاعری میں خودی، عمل، عشق، وقت اور انسان کی آزادی جیسے موضوعات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ وہ صرف ایک مفکر ہی نہیں، بلکہ ایک بڑے فنکار بھی تھے۔ ان کی تخلیقات فارسی، انگریزی اور اردو میں موجود ہیں۔ اردو شاعری میں ان کی مشہور کتابیں یہ ہیں

یہ نظم روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” اقبال کی کتاب بال جبریل سے لی گئی ہے۔

یہ نظم “روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” علامہ اقبال کی مشہور کتاب “بال جبریل” میں شامل ہے۔ اس میں انسان، خاص طور پر مسلمان، کو اس کی عظمت، قوت اور تخلیقی صلاحیتوں کا احساس دلایا گیا ہے۔
اقبال اس نظم میں انسان کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنکھیں کھول کر دنیا کو دیکھو، آسمان اور فضا پر نظر ڈالو، مشرق سے نکلتے سورج کا نظارہ کرو۔ یہ سب قدرت کے وہ راز ہیں جو انسان کو اس کی اصل طاقت کا احساس دلاتے ہیں۔

اقبال کہتے ہیں کہ یہ کائنات تیرے تصرف میں ہے، بادل، آسمان، پہاڑ، سمندر اور ہوائیں سب تیری قدرت کے آگے جھک سکتے ہیں، بس تجھے خود کو پہچاننا ہوگا۔ کل تک انسان فرشتوں کے حسن کو دیکھتا تھا، مگر آج اپنی خوبیوں پر بھی غور کرے۔

نظم میں آگے جا کر اقبال سمجھاتے ہیں کہ دنیا انسان کی عظمت کو تسلیم کرے گی، ستارے اس کی رہنمائی دیکھیں گے، اس کا تخیل بے حد وسیع ہے، اس کی دعاؤں کی تاثیرآسمان تک پہنچ سکتی ہے۔اس لیےانسان کو خودی کی تعمیرکرنی چاہیے،اپنی محنت کو آگےبڑھانا چاہیے اور اپنی آہوں میں تاثیر پیدا کرنی چاہیے۔

اقبال مزید کہتے ہیں کہ دنیا کی روشنی انسان کے تخلیقی کام میں چھپی ہے، اس کا ہنر ایک نئی دنیا کو آباد کرسکتا ہے۔ وہ جنت جو انسان کو عطا کی جائے وہ کافی نہیں، کیونکہ اصل جنت انسان کے اپنے خونِ جگر (محنت) میں چھپی ہوئی ہے۔

آخر میں،وہ انسان کی ازلی فطرت کو بیان کرتےہیں کہ انسان ہمیشہ محبت کامتلاشی رہا ہے،اسرار کی تلاش میں رہا ہے،وہ محنتی بھی ہے اور قربانی دینے والا بھی۔ یہی سب اس کی کامیابی کی کنجی ہے۔ اقبال کویقین دلاتےہیں کہ وہی دنیا کی تقدیرکا مالک ہے،اس کےفیصلے ہی مستقبل کا رخ متعین کریں گے۔

یہ نظم انسان کی خودی، قوتِ ارادی، محنت اور عظمت کو اجاگر کرتی ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ انسان اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو سمجھے اور محنت، استقلال اور ہنر سے ایک نئی دنیا بسائے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان محض تقدیر کا محتاج نہ بنے، بلکہ اپنی تقدیر خود بنائے۔

اقبال اس نظم کے ذریعے یہ بھی پیغام دیتے ہیں کہ انسان کائنات کی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے، اور اسے چاہیے کہ وہ اپنی عقل، علم اور عمل کے ذریعے دنیا کو بہتر بنائے۔ فرشتے جو کل تک مثالی مخلوق سمجھے جاتے تھے، اب انسان کی صلاحیتوں کے آگے کمتر نظر آتے ہیں۔ اس لیے انسان کو اپنی خودی کو بیدار کرکے دنیا پر راج کرنا چاہیے۔

وہ انسان کو اس کے اختیار اور فیصلوں کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی محنت اور صلاحیتوں کو پہچان کر ان کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔ وہ جنت جو دوسروں کی دی ہوئی ہو، وہ حقیقی جنت نہیں، بلکہ اصل جنت وہ ہے جو انسان اپنی محنت اور قربانی سے حاصل کرے۔

اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دنیا میں عزت اور کامیابی انہیں ہی ملتی ہے جو مسلسل محنت کرتے ہیں، مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اگر انسان اپنی تقدیر بدلنے کا عزم کرلے، تو وہ ہر رکاوٹ کو عبور کرسکتا ہے اور آسمان کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔

روحِ ارضی یعنی زمین کی روح، آدم کا استقبال اس لیے کرتی ہے کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور اسے دنیا میں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے۔ اقبال اس نظم میں بتاتے ہیں کہ انسان کو اللہ نے بے پناہ صلاحیتیں دی ہیں اور وہ کائنات کی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے۔ زمین کی تمام چیزیں جیسے آسمان، ہوا، پہاڑ، سمندر اور ستارے اس کے اختیار میں دیے گئے ہیں۔ زمین اس کا استقبال کرتی ہے کیونکہ اب وہ اس دنیا میں آکر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے، خود کو پہچان سکتا ہے اور اپنی تقدیر خود بنا سکتا ہے۔

اقبال یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ انسان کو چاہیـے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانے اور اپنی عظمت کو تسلیم کرے۔ زمین اسے خوش آمدید کہتی ہے تاکہ وہ محض ایک تماشائی نہ بنے بلکہ اس دنیا میں نئی ایجادات، علم اور ترقی کے ذریعے اپنے وجود کو ثابت کرے اور کائنات کی سربلندی کا باعث بنے۔

خودی کا مطلب ہے اپنی پہچان، عزتِ نفس اور شخصیت کی تعمیر۔ تعمیر خودی سے مراد ہے کہ انسان اپنی ذات کو پہچانے، اپنی صلاحیتوں کو سمجھے اور ان کو بہتر سے بہتر بنائے۔ اقبال کے نزدیک خودی کی تعمیر تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنے اندر اعتماد، علم، محنت اور جذبہ پیدا کرے۔

اقبال کہتے ہیں کہ جو انسان اپنی خودی کو پہچانتا ہے، وہ دنیا میں بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ وہ دوسروں کا محتاج نہیں رہتا، بلکہ اپنی محنت اور ارادے سے اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ خودی کی تعمیر کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کے عطا کردہ مقام اور عزت پر قناعت نہ کرے، بلکہ خود اپنی محنت سے ایک بلند مقام حاصل کرے۔

اس نظم کا بنیادی خیال انسان کی عظمت، خودی، محنت اور کائنات میں اس کے مقام کے گرد گھومتا ہے۔ اقبال اس نظم میں انسان کو اس کے شاندار مستقبل کی خوشخبری دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کائنات اس کے اختیار میں ہے، بس اسے اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا۔

اقبال کا پیغام یہ ہے کہ اگر انسان اپنی خودی کی تعمیر کرے، مسلسل محنت کرے اور اپنی عقل و علم کو استعمال کرے، تو وہ دنیا میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو دوسروں کی عطا کردہ جنت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنی محنت اور جدوجہد سے اپنی جنت خود بنانی چاہیے۔

یہ نظم انسان کو ایک عملی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ وہ محض تقدیر کے بھروسے نہ رہے، بلکہ اپنی تقدیر خود بنائے۔

اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ محض جذباتی شاعری نہیں کرتے بلکہ فلسفیانہ اور تعمیری شاعری کرتے ہیں۔ وہ صرف الفاظ کا خوبصورت کھیل نہیں کھیلتے، بلکہ ان کے اشعار میں ایک گہرا پیغام ہوتا ہے جو انسان کو عمل، خودی، ایمان اور محنت کی طرف بلاتا ہے۔

وہ انسان کو اس کی پہچان کرواتے ہیں اور اسے اپنی عظمت کا احساس دلاتے ہیں۔

ان کی شاعری میں سستی اور کاہلی کی کوئی گنجائش نہیں، وہ انسان کو محنت اور کوشش پر ابھارتے ہیں۔

وہ اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ عروج حاصل کریں۔

ان کی شاعری میں مشرقی روحانیت اور مغربی فکر کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔

ان کے اشعارمیں اسلامی تصوف اور فلسفیانہ گہرائی موجود ہوتی ہے جو زندگی کے اہم مسائل پر روشنی ڈالتی ہے۔

اقبال کا مقصد ایک ایسی نئی دنیا کی تشکیل ہے جہاں انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر ترقی کرے۔

اقبال کی شاعری محض خوبصورت الفاظ کامجموعہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جوقاری کوجھنجھوڑکرجگاتی ہےاوراسے زندگی میں کچھ بڑا کرنےکی ترغیب دیتی ہے۔

ایسی نظم جس کے ہر بند میں پانچ مصرعے ہوں، اسے مخمس کہتے ہیں۔

مخمس ایک ایسی صنفِ شاعری ہے جس میں ہر بند میں پانچ مصرعے ہوتے ہیں، اور اکثر تمام بند ایک ہی قافیے اور ردیف میں ہوتے ہیں۔ اردو اور فارسی شاعری میں مخمس کا استعمال عام ہے اور بڑے شاعروں نے اس صنف میں خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔

اقبال کی یہ نظم “روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” بھی مخمس کی ایک مثال ہے، کیونکہ اس کے ہر بند میں پانچ مصرعے موجود ہیں۔ مخمس کا انداز شاعری کسی بھی موضوع کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے اور اس میں گہرے فلسفیانہ خیالات کو خوبصورتی سے سمویا جا سکتا ہے۔

جمیلؔ مظہری 1904 میں عظیم آباد (پٹنہ) میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ سلیمانیہ، پٹنہ میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ کلکتہ چلے گئے، جہاں انہوں نے ایم۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اردو اخبارات میں کالم لکھنے سے کیا۔

1950 سے 1974 تک وہ پٹنہ کالج اور پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ 1974 میں ان کی شاعری کے اعتراف میں انہیں غالب ایوارڈ سے نوازا گیا۔

جمیلؔ مظہری کی شاعری کی کئی کتابیں شائع ہوئیں، جن میں نقشِ جمیل، فکرِ جمیل، عرفانِ جمیل اور آثارِ جمیل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے مشہور مرثیے اور مثنوی آب و سراب بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔

نثر میں بھی ان کا کام قابلِ ذکر ہے۔ ان کی نثری کتابوں میں شکست و فتح (ناولٹ) اور منشوراتِ جمیل مظہری شامل ہیں۔

ابتدائی دور میں جمیلؔ مظہری نے اقبالؔ سے متاثر ہو کر شاعری شروع کی، لیکن بعد میں وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے اور اپنے کلام میں سماجی مسائل کو جگہ دی۔ ان کا انتقال مظفر پور میں ہوا۔

جمیل مظہری کی نظم “ارتقا ایک فکری اور فلسفیانہ تخلیق ہے، جس میں انسان کے مسلسل ترقی کرنے اور خود کو سنوارنے کے عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان ہر لمحہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے اور خود اپنی تقدیر کا معمار بن رہا ہے۔

اس نظم میں ارتقا یعنی ترقی اور تبدیلی کے عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ قدرت انسان کو ایک شاہکار کی طرح بنا رہی ہے، اور وہ خود اپنی جنتوں کی تعمیر کر رہا ہے۔ یہاں “جنتوں کی تخلیق” سے مراد وہ خوشگوار اور ترقی یافتہ زندگی ہے جو انسان اپنے علم، محنت اور تجربے کی بنیاد پر قائم کرتا ہے۔

شاعر انسانی زندگی کو جبر و قدر کے درمیان ایک درمیانی مقام قرار دیتا ہے، یعنی انسان بعض چیزوں میں مجبور ہوتا ہے، لیکن پھر بھی وہ اپنی کوششوں سے مختار بننے کی جدوجہد میں لگا رہتا ہے۔ اس کا ہر سانس ایک سفر کی مانند ہے، جہاں راستہ ہی منزل بن جاتا ہے اور غلطیاں بھی ایک رہنما کا کام کرتی ہیں۔

نظم میں شعور کی ترقی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کی قوتیں جو پہلے اس کے تحتِ شعور میں چھپی ہوئی تھیں، اب خودی کے گہوارے میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے انسان علم و شعور حاصل کرتا ہے، ویسے ویسے وہ اپنی مخفی صلاحیتوں کو دریافت کرتا ہے اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ انجام کی بصیرت، خواہشات پر حاوی ہو رہی ہے، یعنی انسان محض جذبات کے بہاؤ میں نہیں بہتا بلکہ وہ سمجھداری اور سوچ سمجھ کر فیصلے کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ آزادیاں خود اپنی زنجیریں گڑھ رہی ہیں، یعنی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی شخص بے قابو ہو جائے، بلکہ حقیقی آزادی نظم و ضبط اور اصولوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہے۔

اس نظم میں انسانی جذبات، خیالات اور عمل کی ترقی کا بھی ذکر ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جذبات آہستہ آہستہ خیالات میں تبدیل ہوتے ہیں، پھر وہی خیالات عمل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، اور آخرکار وہی عمل کردار بن کر انسان کی زندگی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح، ہمدردی کا جذبہ انصاف میں بدل جاتا ہے، اور پرورش و محبت کا جذبہ ایثار کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

نظم کا اختتام ایک گہرے فلسفیانہ خیال پر ہوتا ہے کہ انسان اپنی غلطیوں اور گمراہیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے۔ اس کے تجربات اسے نیا علم اور تحقیق کا جذبہ دیتے ہیں، اور وہ اپنی تاریخ خود بناتا ہے۔ ہر قدم جو وہ اٹھاتا ہے، وہ ایک نئی راہ متعین کرتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کر دیتا ہے۔

یہ نظم انسانی ارتقا اور ترقی کے فلسفے پر مبنی ہے۔ شاعر یہ بتاتا ہے کہ انسان مسلسل سیکھنے، تجربہ کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں لگا رہتا ہے۔ اس کا سفر کبھی نہیں رکتا، بلکہ ہر غلطی، ہر مشکل اور ہر تجربہ اسے مزید مضبوط اور کامیاب بناتا ہے۔ زندگی کا اصل راز یہی ہے کہ انسان ہر حال میں آگے بڑھتا رہے اور اپنی خودی کو پہچان کر اسے مزید ترقی دے۔

شاعر جمیل مظہری نے اس نظم میں انسان کے ارتقائی سفر کو موضوع بنایا ہے اور بیان کیا ہے کہ کس طرح قدرت اور مشیتِ الٰہی انسان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان ایک تخلیقی شاہکار ہے، جو مسلسل سیکھنے، آگے بڑھنے اور اپنی دنیا کو سنوارنے میں لگا ہوا ہے۔

شاعر نے اس ترقی کے پیچھے مختلف عناصر کا ذکر کیا ہے، جن میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں

انسان کچھ حد تک تقدیر کے تابع ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ارادے اور اختیار کی آزادی بھی دی گئی ہے، جسے وہ استعمال کر کے اپنی ترقی خود طے کرتا ہے۔

کچھ قوتیں جو پہلے تحت الشعورمیں چھپی ہوتی ہیں،وہ وقت کے ساتھ شعورمیں آتی ہیں اورترقی کا ذریعہ بنتی ہیں۔

ہر ناکامی ایک تجربہ دیتی ہے، اور تجربہ ہی حکمت اور دانائی میں بدل جاتا ہے۔

اگرچہ کچھ حد تک قدرتی قوانین کے تحت انسان مجبور ہے، لیکن پھر بھی اسے اتنی آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی محنت اور عقل سے اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے۔

انسان مسلسل تحقیق کر کے نئے نئے راز دریافت کرتا ہے اور انصاف کا ایک بہتر نظام قائم کرتا ہے۔

شاعر کے مطابق، انسان اپنے تجربات، عقل اور خودی کے ذریعے اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو اسے ترقی کی راہ پر ڈال کر ایک بہتر مستقبل کی طرف لے جاتے ہیں۔

شاعر اس مصرعے میں انسان کی ترقی میں غلطیوں اور تجربات کی اہمیت کو واضح کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق

لغزش یعنی غلطی کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے، لیکن ہر غلطی انسان کو کچھ نیا سکھاتی ہے۔

جب انسان کوئی غلطی کرتا ہے، تو اسے اس سے نیا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔

جب تجربے کو غور و فکر سے سمجھا جائے، تو وہ حکمت اور دانائی میں بدل جاتا ہے۔

یہی اصول انسانی ترقی کا بنیادی قاعدہ ہے۔ دنیا کے تمام عظیم سائنس دان، فلسفی اور مصلحین ابتدا میں غلطیاں کرتے رہے، لیکن انھوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور آگے بڑھے۔ اگر انسان اپنی لغزشوں سے سبق نہ سیکھے تو وہ ترقی نہیں کر سکتا۔

یہ مصرع اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ناکامی اصل میں کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ جو لوگ اپنی ناکامیوں کو سیکھنے کا ذریعہ بناتے ہیں، وہی زندگی میں آگے بڑھتے ہیں۔

انسان اپنی عقل، محنت، تجربہ اور تحقیق کے ذریعے اس دنیا کو زیادہ خوبصورت، فائدہ مند اور ترقی یافتہ بنا چکا ہے۔ انسان کی مسلسل کوششوں سے آج

انسان نے اپنی عقل اور علم کے ذریعے مشکل سے مشکل کاموں کو آسان بنایا۔

اس نے زمین پر چلنے کے بعد ہواؤں میں اڑنے کا خواب دیکھا اور جہاز ایجاد کیے۔

سمندروں کی گہرائیوں میں جانے کے لیے آبدوزیں بنائیں۔

خلا کی وسعتوں کو تسخیر کرنے کے لیے راکٹ بھیجے۔

بجلی، انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور دیگر جدید ایجادات نے دنیا کو تیزی سے بدل دیا۔

انسان نے شاعری، موسیقی، مصوری اور دیگر فنون کے ذریعے دنیا کو زیادہ خوش رنگ اور خوبصورت بنایا۔

فلسفے اور ادب میں ایسی تخلیقات ہوئیں جنہوں نے انسان کو سوچنے اور بہتر زندگی گزارنے کے نئے طریقے سکھائے۔

پہلے لوگ معمولی بیماریوں سے مر جاتے تھے، لیکن آج انسان نے دواؤں اور علاج کے طریقوں کو بہتر بنایا۔

اسپتال، سرجری اور ویکسین کی ایجاد نے لاکھوں زندگیاں بچائیں۔

آج دنیا میں زیادہ برابری، انصاف اور انسانی حقوق کا شعور بیدار ہوا ہے۔

غلامی کا خاتمہ ہوا، جمہوریت آئی، اور دنیا میں انسان کے وقار کو بہتر مقام ملا۔ یہ سب کچھ انسان کے عزم، محنت اور تخلیقی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے۔ شاعر کے مطابق، انسان خود اپنی جنتیں تخلیق کر رہا ہے اور کائنات کو ایک بہتر اور خوش رنگ مقام بنا رہا ہے۔

یہ مصرع اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنی تقدیر خود لکھنے کی طاقت رکھتا ہے۔

شاعر کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کو صرف قسمت کے سہارے نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ محنت اور عزم کے ذریعے اپنی قسمت خود بنانی چاہیے۔

معمارکا مطلب ہوتا ہے بنانے والا، اور اس مصرعے میں انسان کو اپنی زندگی کا انجینئر کہا گیا ہے، جو اپنی محنت سے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔

یہ فلسفہ اقبال کی “خودی” کے نظریے سے بھی جڑا ہوا ہے، جس کے مطابق انسان کو اپنی ذات کو پہچان کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔

اس مصرعے کے معنی کو تین نکات میں یوں سمجھا جا سکتا ہے

انسان کو قدرت نے عقل، شعور اورارادے کی قوت دی ہے، جسے وہ استعمال کر کے اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہے۔

اگر انسان محنت کرے اور اپنے مقصد پر ڈٹا رہے، تو وہ اپنی زندگی کو جیسے چاہے سنوار سکتا ہے۔

جو لوگ خود پر یقین رکھتے ہیں، وہی اپنی زندگی کے اصل معمار ہوتے ہیں۔ شاعرکےمطابق،یہ دنیا انسان کے اختیاراورمحنت کا نتیجہ ہے،اور وہ اپنی محنت سے نئے جہان تخلیق کر سکتا ہے۔

راشدؔ کا اصل نام نذرمحمد تھا۔ وہ گجرانوالہ کے رہنے والے تھے۔ اپنی جوانی میں انہوں نے خاکسار تحریک سے متاثر رہیں۔ انہوں نے مشرق کی ترقی اور مغرب کی بالا دستی کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی، کیونکہ مغرب نے مشرق پر سیاسی ظلم کیا تھا۔ اپنی عملی زندگی کے آغاز میں راشدؔ کچھ دنوں تک آل انڈیا ریڈیو سے جڑے رہے۔ اپنی ملازمت کے سلسلے میں انہوں نے زیادہ وقت ایران اور پھر یو این او میں گزارا۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ “ماورا” اردو شاعری میں ایک نیا احساس اور اظہار پیش کرتا ہے۔ “ماورا” کے بعد ان کے مزید شعری مجموعے شائع ہوئے جن کے نام ایران میں اجنبی، لا=انسان اور گماں کا ممکن ہیں۔ ان کا کلیات بھی شائع ہو چکا ہے۔ نثر میں ان کی کتاب “جدید فارسی شاعری” کافی معروف ہے۔

راشدؔ کی شاعری کا سب سے بڑا فرق ان کی فکری حسیت ہے۔ اقبال کے بعد انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مشرقی فکر اور روایتی دانش کو ایک نئی شکل دی ہے۔ “ماورا” کی اشاعت کے وقت راشدؔ اور میراجیؔ کی نظمیں مبہم کہی جاتی تھیں، لیکن جیسے جیسے شاعری کا مزاج بدلتا گیا، ان دونوں کے شعری معیار اور ادبی خدمات کا اعتراف بھی بڑھا۔ راشدؔ کو بیسویں صدی کے اہم شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

نظم زندگی سے ڈرتے ہو؟ ن م راشد کی ایک فکر انگیز اور انقلابی نظم ہے، جس میں خوف، غلامی، خاموشی، بغاوت اور روشنی کی جستجو جیسے موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

شاعر سوالیہ انداز میں مخاطب سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ زندگی سے ڈرتا ہے؟ جبکہ زندگی تو خود وہ بھی ہے اور ہم بھی۔ یعنی زندگی کوئی خوفناک چیز نہیں، بلکہ ہم سب ہی اس کا حصہ ہیں۔ اسی طرح وہ سوال کرتا ہے کہ کیا وہ آدمی سے ڈرتا ہے؟ جبکہ آدمی تو خود وہ بھی ہے اور ہم بھی۔ آدمی کا بنیادی وصف اس کی زبان اور اظہارِ بیان ہے، مگر اگر الفاظ خاموش کر دیے جائیں تب بھی انسان کے احساسات اور خیالات باقی رہتے ہیں۔

شاعر اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ لوگ “اَن کہی” یعنی ان باتوں سے کیوں ڈرتے ہیں جو ابھی کہی ہی نہیں گئیں، ان واقعات سے کیوں گھبراتے ہیں جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے۔ وہ کہتا ہے کہ تاریخ میں پہلے بھی ایسے دور گزر چکے ہیں جب انسان بے بسی کا شکار تھا، جب طاقتور حکمرانوں نے کمزوروں کو دبایا، اور ظلم و جبر کو خدا کی رضا سمجھا گیا، مگر پھر بھی انسانوں نے بغاوت کی، آواز اٹھائی، اور نئے راستے تلاش کیے۔

شاعر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ جب زبانوں پر تالے ڈال دیے جاتے ہیں، تو ہاتھ بولنے لگتے ہیں، یعنی عمل اور جدوجہد بیدار ہو جاتی ہے۔ ہاتھ راہ کا نشان بن جاتے ہیں، نور کی زبان میں روشنی کی بات کرنے لگتے ہیں، اور حق کی اذان دینے لگتے ہیں۔

پھر شاعر انقلابی تبدیلی کی بات کرتا ہے کہ جس ظلم اور جبر کا سایہ صدیوں سے قائم تھا، وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ وہ سیاہ رات، جو غلامی کا لبادہ تھی، وہ اب چاک ہو گئی ہے، یعنی ظلم کی دیواریں گر رہی ہیں اور حق کی روشنی پھیل رہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب فرد کی آواز اجتماع میں تبدیل ہو رہی ہے، لوگ جاگ رہے ہیں، ان کی سوچ بدل رہی ہے، اور اب وہ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔

آخر میں شاعر اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ تبدیلی اب ایک حقیقت بن چکی ہے۔ روشنی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ روشنی تم بھی ہو اور ہم بھی۔ شہر جو ایک ویرانے میں بدل چکا تھا، وہ اب پھر آباد ہو گا، لوگ ہنسیں گے، خوشیاں لوٹیں گی، اور زندگی نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ تم ابھی بھی ڈرتے ہو، جبکہ تم بھی موجود ہو اور ہم بھی۔

یہ نظم انسان کی بیداری، خوف سے نجات، حق کی تلاش اور روشنی کی جستجو کا پیغام دیتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ خوف کو چھوڑ کر آگے بڑھو، کیونکہ وقت بدل رہا ہے، ظلم ختم ہو رہا ہے، اور روشنی ہر طرف پھیل رہی ہے۔ اس نظم میں انقلاب، امید اور انسانی آزادی کا ایک پرجوش احساس ہے، جو قاری کو بیدار اور متحرک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

شاعر اس نظم میں انسان کے اندر پائے جانے والے خوف کو چیلنج کرتا ہے اور انسان کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں سے کیوں ڈرتا ہے؟ اس کے مطابق، زندگی میں آنے والے چیلنجز، مشکلات یا حوادث سے ڈرنا انسانی کمزوری کی نشانی ہے۔ وہ پوچھتا ہے کہ آدمی کیوں اپنے خوف کا شکار ہے اور کیوں حقیقت کو تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے؟ شاعر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ زندگی، انسان اور روشنی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان سے ڈرنا دراصل اپنی تقدیر سے فرار کی کوشش ہے۔ نظم میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی اور حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے، اس سے نہ ڈرے اور اس میں چھپے ہوئے امکانات کو پہچانے۔ شاعری کے ذریعے شاعر انسان کو اس کے اندر کی طاقت کو دریافت کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ وہ اپنے خوف کو شکست دے سکے اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے۔

شاعر اس مصرعے میں انسان کی ذہنی کمزوری اور غیر ضروری خوف کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ انسان کو بتانا چاہتا ہے کہ اکثر انسان اس بات سے خوف زدہ ہو جاتا ہے جو مستقبل میں ہو سکتا ہے، حالانکہ ابھی وہ واقعہ یا گھڑی آئی نہیں ہوتی۔ انسان اپنے خیالات میں ماضی اور مستقبل کے بارے میں پریشانیوں میں ڈوبا رہتا ہے، اور وہ ایسی گھڑیوں سے ڈرتا ہے جو کبھی نہیں آئیں گی یا جو مستقبل میں غیر متوقع طور پر پیش آئیں گی۔ شاعر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایسا خوف حقیقت میں بے بنیاد ہے۔ انسان کو اپنی توانائی کو مستقبل کے خوف میں ضائع کرنے کے بجائے، حال پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اس وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہیے۔ شاعر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انسان کو مستقبل کے بارے میں سوچ کر پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اپنے موجودہ حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس مصرعے میں شاعر انسان کی ذمہ داری اور اختیار کی بات کرتا ہے۔ آدمی کا “دامن” اس کے اعمال، ارادوں، اور شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان کی زندگی اور اس کے حالات کا دارومدار اس کے اپنے عملوں پر ہوتا ہے۔ انسان جس طرح کی سوچ اور عمل اختیار کرتا ہے، وہ اس کی زندگی کی حقیقت اور سمت کا تعین کرتا ہے۔ شاعر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ آدمی کی تقدیر اور اس کی زندگی کی حقیقت اس کے اختیار میں ہے اور وہ جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ اس کا دامن، اس کی زندگی کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح، انسان کا کردار اس کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ شاعر انسان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا مالک ہے اور اپنی زندگی کی سمت کو بدلنے کے لیے اپنے عمل اور ارادوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔

عمیقؔ حنفی مہو چھاؤنی ضلع اندور (مدھیہ پردیش) میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام عبدالعزیز حنفی تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم مہو میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ اندور چلے گئے جہاں انہوں نے سیاسیات اور تاریخ میں ایم اے کیا۔ فلسفے میں بھی ان کی خاص دلچسپی تھی، جس کا اثر ان کے فکر اور فن پر ہمیشہ رہا۔

انہوں نے طویل عرصے تک آل انڈیا ریڈیو میں کام کیا اور 1987 میں اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ ان کا انتقال دلی میں ہوا۔

عمیق حنفی موسیقی کے بڑے شوقین تھے۔ انہوں نے موسیقی کا باقاعدہ علم حاصل کیا اور اس فن کی باریکیاں سمجھیں۔ موسیقی کے متعلق ان کے کئی عمدہ مضامین لکھے گئے ہیں۔ اردو کے علاوہ انگریزی اور دیگر ہندوستانی زبانوں کے ادب پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ ان کی تنقیدی کتابیں “شعلے کی شناخت” اور “شعرچیزے دیگراست” بھی معروف ہیں۔

عمیق حنفی نے اپنا ادبی سفر ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور سے شروع کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ “سنگ پیراہن” اسی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ بعد میں وہ جدیدیت کے زیر اثر آگئے اور کئی شعری تجربات کیے۔ انہوں نے متعدد طویل نظمیں بھی لکھیں جنہوں نے غیر معمولی شہرت حاصل کی، جن میں “سند باد”، “شہرزاد”، “سیارگاں”، “شب گشت”، “صوت الناقوس” اور “صلصلتہ الجرس” خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ “آئینے کا کورس” بھی شائع ہوا۔

یہ نظم “ملکِ بے سحر و شام” ایک پرانی یاد کو تازہ کرتی ہے جس میں شاعر نے قدرتی وقت کے متعین اسلوب اور صبح و شام کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے۔ نظم کا پہلا حصہ ہمیں اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب انسان قدرتی ترتیب کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ کچھ برس پہلے، جب صبح اندھیرے میں پہاڑی پر چڑھ کر ہم اٹھتے تھے، ایک سخت اور کالے تکیے سے اپنا سر اٹھاتے ہی سورج ابھر کر ہمیں دیکھ لیتا تھا۔ یہ منظر نہ صرف قدرتی جمال کا احساس دلاتا ہے بلکہ ایک رومانوی انداز میں یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ قدرت اور انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سورج اپنی نرم روشنی اورہنسی سے ہمیں بیدارکرتا،اوراس کی ملنساری سے جسم وجان میں تازگی پھیل جاتی تھی۔

اسی طرح، شام کے وقت جب ہم جھیل کے پانی میں سورج کی جھلک دیکھتے تھے، تو ہماری موجیں اٹھ جاتیں تھیں اور وہ تھکا ماندہ مگر پیار بھرا سورج اپنے خوابستان میں چھپ جانے سے پہلے مسکرا کر ہمیں شب بخیر کہتا تھا۔ یہ منظر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ قدرت نے انسان کے ساتھ ایک خوبصورت رشتہ قائم کیا تھا، جہاں صبح کا اُتار چڑھاؤ اور شام کی وداعی میں ایک محبت بھرا پیغام چھپا ہوا تھا۔ اس ترتیب میں انسان اپنے دل کی گہرائیوں میں سورج کو گھر لے جاتا اور دن بھر کی توانائی اسی روشنی سے ملتی تھی۔

لیکن پھر نظم ایک موڑ لیتی ہے۔ شاعر اب موجودہ دور کی حالت پر سوال اٹھاتا ہے کہ اب حالات کتنے بدل چکے ہیں۔ اب ہمیں یاد رکھنا مشکل ہو گیا کہ پورب کس طرف ہے، پچھم کہاں ہے، کب سورج اُگتا ہے اور کب ڈوبتا ہے۔ وہ حیران ہوتا ہے کہ اب نہ تو کسی کو بستر میں سونے کی خبر ہوتی ہے اور نہ ہی دفتر میں اس کی خبر۔ یہ حصہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آج کے دور میں قدرتی اصول اور وقت کے متعین نشانات مٹ چکے ہیں۔ انسان اور قدرت کے درمیان وہ باہمی ربط کمزور ہو گیا ہے، اور ہماری زندگیوں میں وقت اور روشنی کی وہ ترتیب اب مدھم پڑ چکی ہے۔

مجموعی طور پر، نظم ایک پرانی یاد اور قدرتی نظم و ضبط کی تعریف کرتی ہے جس میں صبح و شام کی خوبصورتی اور قدرت کے ابلاغ میں انسان کی خوشی کو بیان کیا گیا ہے۔ پھر یہ حال حاضر کی صورت حال کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں اس قدرتی ترتیب کی پہچان اب مبہم ہو چکی ہے۔ شاعر اس تبدیلی پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ اب وہ قدرتی روایات اور وقایع ہمارے لیے اتنے معنی خیز نہیں رہے، اور انسان اپنے وقت اور روشنی کے ساتھ وہ پرانی محبت اور ترتیب نہیں جڑ پا رہا جو کبھی ہوتی تھی۔

شاعر اپنے ماضی کی صبحوں کو یاد کرتا ہے کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب زندگی میں ایک نیا آغاز ہوتا تھا۔ اُس وقت جب وہ پہاڑیوں پر چڑھتے، سورج کی پہلی کرن ان کی آنکھوں میں روشنی بھر دیتی اور وہ ایک نئے دن کا استقبال کرتے۔ شاعر کے لیے یہ لمحے نہ صرف فطرت کی خوبصورتی سے جڑے تھے بلکہ وہ سورج کی کرنوں میں ایک ایسی توانائی محسوس کرتے تھے جو اُنہیں نئی اُمید، نیا حوصلہ اور نیا جذبہ دیتی تھی۔ اس وقت قدرت کی ہر چیز ایک پیغام تھی، جیسے سورج کا چمکنا، ہوا کا چلنا، اور زمین کا جاندار ہونا، یہ سب انسان کو ایک نئی زندگی کا پیغام دیتے تھے۔ وہ اپنی ماضی کی صبحوں کو اس لیے یاد کرتے ہیں کیونکہ یہ وقت تھا جب وہ خود کو زندگی کے ایک نئے سرے سے جینے کی ترغیب پاتے تھے اور قدرت سے جڑی ہوئی ایک بے پناہ امید اور حوصلہ کا تجربہ کرتے تھے۔

ماضی کی یہ صبحیں ایک تخیلاتی سرزمین کی طرح تھیں جہاں نہ صرف جسم، بلکہ روح بھی آزاد ہوتی تھی۔ اس کے برعکس، آج کی زندگی میں یہ احساسات ماند پڑ گئے ہیں۔ شاعر کے لیے ماضی کی یہ صبحیں ایک سنہری دور کی نمائندگی کرتی ہیں، جب زندگی سادہ اور پر سکون تھی، اور ہر لمحہ نئی امیدوں سے بھرا ہوا تھا۔

اس مصرعے میں شاعر انسان کے مستقبل کے بارے میں بے بنیاد خوف کو بیان کر رہا ہے۔ اکثر لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں اتنے زیادہ خیالات اور خدشات پال لیتے ہیں کہ وہ اس وقت میں جینا بھول جاتے ہیں جس میں وہ موجود ہیں۔ جو گھڑی ابھی تک نہیں آئی، اُس سے ڈرنا حقیقت میں غیر ضروری خوف کی عکاسی ہے، کیونکہ کسی بھی صورتحال کا اصل تجربہ اُس وقت کے واقع ہونے پر ہی ہوتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کے بہت سے لمحوں کو خوف میں مبتلا ہو کر گزار دیتے ہیں اور وقت کا صحیح استعمال نہیں کر پاتے۔

شاعر اس مصرعے کے ذریعے یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں ضرورت سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف ہم حال کو گنواتے ہیں، بلکہ ہم اپنی طاقت اور توانائی کو بھی ضائع کرتے ہیں۔ جب تک وہ گھڑی حقیقت میں نہیں آتی، اس وقت تک اس سے ڈرنا بے سود ہے۔ شاعر یہ پیغام دیتا ہے کہ انسان کو اپنے حال میں جینا چاہیے اور اپنے خوف کو اپنے مستقبل کی تقدیر کے ساتھ نہ جوڑے، بلکہ ہر لمحہ میں سکون اور توازن تلاش کرنا چاہیے۔

اس مصرعے میں شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ انسان کی زندگی اور اس کا مستقبل اُس کے اپنے اعمال، فیصلوں اور ارادوں پر منحصر ہوتا ہے۔ “دامن” یہاں انسان کے کردار، سوچ اور عمل کا نمائندہ ہے، یعنی جو انسان اپنے عمل اور ارادے سے اپنی زندگی کو سنوارتا ہے، وہی اس کی تقدیر اور زندگی کے رخ کو متعین کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کی تقدیر صرف اس کی قسمت یا بیرونی عوامل پر نہیں منحصر ہوتی، بلکہ وہ خود اپنی تقدیر بناتا ہے۔

اگر انسان اپنی کوششوں اور نیک نیتی سے زندگی کے ہر لمحے میں بہتری لائے، تو وہ اپنی تقدیر کو بہتر بنا سکتا ہے۔ “دامن” کی علامت یہاں انسان کے اختیار اور خود مختاری کی طرف اشارہ کرتی ہے، یعنی انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی زندگی میں آنے والی خوشیاں اور غم اُس کے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ شاعر انسان کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کی تخلیق میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور اسے اپنی زندگی کی سمت خود متعین کرنی چاہیے۔ یہ ایک طاقتور پیغام ہے جس کے ذریعے انسان کو اپنے عمل، ارادے اور طاقت کا احساس ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی تقدیر کو بہتر بنا سکے۔

شاعر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب انسان اپنی سوچ، عمل اور نیت سے زندگی کے راستے پر قدم رکھتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی تقدیر کو بہتر کرتا ہے بلکہ اس کے اندر ایک روحانیت اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو اسے زندگی میں کامیابی اور سکون کی طرف لے جاتی ہے۔

شفیق فاطمہ شعریٰؔ کی پیدائش ناگپور میں 1930 میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر عربی اور فاری میں ہوئی۔ انہوں نے بی اے عثمانیہ یونیورسٹی، حیدر آباد سے اور ایم اے ناگپور یونیورسٹی سے پاس کیا۔ بعد میں انہوں نے ممتاز کالج حیدرآباد میں اردو کی استاد کے طور پر کام شروع کیا اور بعد میں سبکدوش ہوئیں۔ اب وہ حیدر آباد میں رہتی ہیں۔

ان کا پہلا مجموعہ “آفاقِ نوا” دسمبر 1987 میں حیدر آباد سے شائع ہوا، جس میں صرف نظمیں شامل ہیں۔ دوسرا مجموعہ “گلہ صفورہ” نومبر 1990 میں مکتبہ جامعہ، نئی دہلی سے شائع ہوا؛ اس مجموعے میں ایک غزل، چند قطعات اور نظمیں شامل ہیں۔ ان کا کلیات، “سلسلۂ مکالمات” کے نام سے، 2006 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا۔

شفیق فاطمہ شعریٰؔ بنیادی طور پر نظم لکھنے والی شاعرہ ہیں۔ ان کی نظمیں اور ان کا انداز بہت منفرد ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھی نظمیں پیچیدہ محسوس ہوتی ہیں اور ان کا مطلب پوری طرح سمجھ نہیں آتا۔ اکثر نظمیں میں انہوں نے اسلامی تاریخ اور قرآنی واقعات کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اسی طرح انہوں نے موجودہ دور کے تہذیبی اور سیاسی مسائل کو بھی اپنی نظمیں میں جگہ دی ہے، جس سے ان کا منفرد انداز نمایاں ہوتا ہے۔

یادنگر” ان کی ایک نمایاں نظم ہے جس کا آہنگ اور نغمہ قاری کو بہت پسند آتا ہے۔ اس نظم میں وطن سے دوری اور جلا وطنی کے احساس کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

یادنگرایک جذباتی اور گہرے احساسات پر مبنی نظم ہے جس میں شاعرہ نے وطن سے دوری اور جلاوطنی کے تجربات کو بیان کیا ہے۔ شاعرہ اس نظم میں وطن کی مٹی اور وہاں کے حسن کی شدت سے کمی محسوس کر رہی ہیں اوران کی خواہش ہے کہ وہ واپس اپنے وطن لوٹ آئیں،جہاں کا سکون اور راحت انہیں بہت عزیز ہے۔

نظم کی ابتدا میں شاعرہ نے ایک خوبصورت منظر تخلیق کیا ہے، جہاں وہ وطن کی سبز وادیوں میں خود کو کھو دینے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ واپس اپنے وطن آئیں اور وہاں کی مٹی میں آرام سے سو جائیں۔ یہ وطن کی محبت اور اس کی مٹی سے وابستہ جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔

نظم میں ایک اور اہم خیال یہ ہے کہ وہ وقت بدل چکا ہے، اور وطن کے وہ خوبصورت مناظر، جیسے شگفتہ گھاس اور زرد پھول، اب سسک رہے ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ، جو کبھی ان مناظرات کا حصہ تھے، اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شاعرہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ آج وہ افراد جو وطن سے دور ہیں، کہیں کیمپوں میں سسک رہے ہیں اور ان کے لئے وہ خوبصورت مناظر محض یادیں بن کر رہ گئے ہیں۔

اسی دوران نظم میں کسانوں، کھیتوں اور فصلوں کی بات بھی کی گئی ہے، اور یہ دکھایا گیا ہے کہ جنگ یا تشویش کی حالت میں لوگ اپنی روز مرہ کی ضروریات سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ زمین جو کبھی سبز و شاداب تھی، اب وہ پانی کی کمی یا جنگ کے اثرات سے خالی ہو چکی ہے۔

شاعرہ نے ان مناظر اور جذبات کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے، جہاں انہوں نے وطن کی مٹی، خوشبو، اور زندگی کی جڑوں سے جڑنے کی خواہش کو زور دیا ہے۔ نظم میں ایک طرف تو وطن کی محبت کی شدت دکھائی گئی ہے، دوسری طرف موجودہ دور کی تکالیف اور مشکلات کا تذکرہ ہے۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ شاعرہ نے وطن کی موجودہ حالت کو بھی بیان کیا ہے، جہاں جلاوطنی اور جنگ نے لوگوں کی زندگیوں میں غم اور دکھ کی گہری چھاپ چھوڑ دی ہے۔ نظم کے آخر میں شاعرہ نے ایک بہت ہی دردناک حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ جو لوگ اپنے وطن سے دور ہیں، وہ کبھی اپنی ماں کی گود میں نہ سو سکیں گے، نہ ہی وہ اپنے گھر کے امن اور سکون کو واپس پا سکیں گے۔

اس نظم میں وطن کی محبت، جلاوطنی کا درد، اور موجودہ حالات کے اثرات کی شدت کو گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ شاعرہ نے ان جذبات کو نہ صرف اپنے الفاظ میں ڈھالا ہے بلکہ ایک خوبصورت، گہرے اور متاثر کن انداز میں ظاہر کیا ہے۔

نظم “یادنگر” کا مرکزی خیال جلاوطنی اور وطن سے دوری کی شدت کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ وطن کی مٹی اور اس کے خوبصورت مناظر کو شدت سے یاد کر رہی ہیں اور وطن واپس جانے کی آرزو رکھتی ہیں تاکہ وہ وہاں کی مٹی میں سو سکیں۔ اس نظم میں وطن کی یادوں میں گھری ہوئی ایک درد بھری کیفیت کو دکھایا گیا ہے، جہاں انسان کا دل وہاں کی خاک کے لمس کو دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ شاعرہ وطن کے ان دکھوں اور تکالیف کو بیان کرتی ہیں جو وہاں سے دور رہنے کی حالت میں بڑھ جاتی ہیں۔ انہوں نے وطن کی مٹی، پگڈنڈیوں، گھروں اور بچوں کی آوازوں کی شدت سے یاد کی ہے، اور ان سب یادوں کے سائے میں ان کے دل میں ایک خلا محسوس ہو رہا ہے۔ اس نظم کے ذریعے وطن سے دوری کے احساسات اور اس سے جڑی پرانی یادوں کو نہ صرف ایک موضوع کے طور پر پیش کیا گیا ہے بلکہ ان دکھوں کا سامنا کرنے والے افراد کے ذہنوں میں زندہ رہنے والی ماضی کی تصویر کو بھی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔

نظم کا عنوان “یادنگر” اس نظم کے لیے بالکل موزوں ہے۔ “یادنگر” ایک ایسا لفظ ہے جو ماضی کی یادوں اور دور جانے والے لمحوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ نظم میں شاعرہ نے وطن کی یاد میں غم و درد کے تذکرے کیے ہیں اور وطن سے دوری کا دکھ دکھایا ہے۔ عنوان میں “یاد” لفظ کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نظم کا مرکزی موضوع ماضی کی یادوں اور ان یادوں میں ڈوبے ہوئے دکھوں کو بیان کرنا ہے۔ “نگر” یعنی گاؤں یا وطن کے قریب آنے والے احساسات کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعرہ وطن کی مٹی، وہاں کے مناظر، لوگوں اور یادوں کو شدت سے محسوس کر رہی ہیں، اور یہ ساری یادیں گہری غم کی صورت میں ان کے ذہن میں گھر کر گئی ہیں۔ اس عنوان کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ شاعرہ نہ صرف اپنی موجودہ زندگی کے دکھوں کو بیان کر رہی ہیں، بلکہ وہ گزرے وقت کی ماضی کی حقیقتوں کو بھی یاد کر رہی ہیں، جو ان کے دل میں ایک مضبوط اور دکھ بھری تصویر کی صورت میں موجود ہیں۔

اس بند میں نظم کا کردار شام سے خوف زدہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ شام کا آنا اس کے لیے ایک علامت بن چکا ہے جس کا تعلق مزید دکھوں اور تکالیف سے ہے۔ شام کا آنا وہاں کی سیاہ حقیقتوں کا عکاس ہے، جو جلاوطنی میں رہ کر زیادہ گہرا ہو چکا ہے۔ شام کے آتے ہی وہ دکھوں اور درد کی ایک نئی سطح پر پہنچ جاتا ہے، جہاں اس کے اندر وطن کی شدت سے یاد آنے والی تکالیف اور وہاں کے غموں کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ شاعرہ شام کو ایک ایسی علامت کے طور پر پیش کرتی ہیں جو اپنے ساتھ مزید دکھ لاتی ہے اور ماضی کی یادوں کو تازہ کر دیتی ہے۔ شام کا آنا اس کے دل میں رنج و غم کے مزید پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے، اور وہ شام کے آنے سے اس شدت کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہ اس کی زندگی میں مزید اندھیرا، دکھ اور غم کا سبب بنے گی۔

نظم کے آخری مصرعے میں نظم کا کردار “بھلائے ہوئے روز و شب” کو یاد نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ وقت جو گزر چکا ہے اب صرف غم، دکھ اور تلخ یادوں کا باعث بن چکا ہے۔ “بھلائے ہوئے روز و شب” وہ دن ہیں جنہوں نے زندگی میں دکھوں اور تکالیف کے سائے ڈالے ہیں، اور اب ان دنوں کو یاد کرنا اس کے لیے ایک اذیت بن چکا ہے۔ نظم کے کردار کو اس حقیقت کا سامنا ہے کہ ماضی کے وہ لمحے اب تکلیف دہ بن چکے ہیں، جنہیں وہ اب دوبارہ زندہ نہیں کرنا چاہتا۔ اس مصرعے میں شاعرہ اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ انسان اپنے ماضی کی تلخ یادوں اور دکھوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی بجائے، ان سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان یادوں کی شدت ان کے اندر مزید دکھ اور غم کا باعث بنے گی۔ اس کے لیے یہ یادیں ماضی کے ظلم و ستم کی نمائندگی کرتی ہیں، اور وہ چاہتا ہے کہ ان کو بھلا کر آگے کی زندگی میں سکون پائے۔

Scroll to Top