جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا غزل کی تشریح
جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
تشریح
اس شعر میں شاعر اپنے کائناتی مشاہدے کا ذکر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے اس دنیا میں آ کر ہر طرف نگاہ ڈالی مختلف جلوے اور مناظر دیکھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر جگہ صرف محبوب ہی نظر آیا۔ یہ محبوب مجازی بھی ہو سکتا ہے اور حقیقی بھی۔ اگر اس شعر کو صوفیانہ زاویے سے دیکھا جائے تو مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہر شے میں خدا کی جھلک نظر آتی ہے ہر طرف اسی کی ذات کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں۔ اگر عشقِ مجازی کی سطح پر دیکھا جائے تو شاعر اتنا محوِ محبت ہے کہ اسے ہر شے میں محبوب کا عکس دکھائی دیتا ہے۔
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا
تشریح
یہ شعر محبوب کی نگاہ کے اثر پر مبنی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب نے بھرپور اور پوری توجہ کے ساتھ نگاہ کی تو اس کی طاقت ایسی تھی کہ میری جان بدن سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یہاں محبوب کی نظر کو اس قدر طاقتور اور اثر انگیز قرار دیا گیا ہے کہ وہ عاشق کی زندگی سلب کر لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کیفیت صوفیانہ بھی ہے کہ دیدارِ حق انسان کو بے خود کر دیتا ہے اور عاشقانہ بھی کہ محبوب کی ایک نگاہ عاشق کو مدہوش اور ناتواں کر دیتی ہے۔
نالہ فریاد آہ اور زاری
آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا
تشریح
اس شعر میں عاشق اپنی محبت میں کی گئی کوششوں کا ذکر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جو کچھ میرے اختیار میں تھا میں نے وہ سب کر دکھایا۔ میں نے نالے کیے، فریاد کی، آہیں بھریں اور زاری و گریہ کیا۔ لیکن محبوب کی بے نیازی ایسی ہے کہ میری ان تمام کوششوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس شعر میں عاشق کی بے بسی، بے قراری اور محبوب کی بے اعتنائی کھل کر سامنے آتی ہے۔ گویا عاشق نے اپنی طرف سے سب کچھ کر دیا مگر محبوب کی سخت دلی کے آگے سب لاحاصل رہا۔
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
تشریح
اس شعر میں شاعر نے خوبصورت استعارہ استعمال کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ محبوب کے لبوں کو لوگ مسیحا کہتے ہیں یعنی ان میں زندگی دینے کی طاقت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ہم بار بار اپنی جان دینے کے قریب پہنچے اور طرح طرح کی اذیتیں سہیں تو بھی ان لبوں نے ہمیں زندگی نہیں بخشی۔ اس شعر میں ایک طرف محبوب کی بے رحمی اور سرد مہری کا شکوہ ہے اور دوسری طرف عاشق کی قربانی اور ایثار کی شدت کا ذکر ہے۔ شاعر محبوب کے لبوں سے امید لگائے بیٹھا تھا کہ وہ زندگی بخشیں گے مگر اس کی توقع پوری نہ ہو سکی۔
زور عاشق مزاج ہے کوئی
دردؔ کو قصہ مختصر دیکھا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ عشق میں کسی زور یا تدبیر کا دخل نہیں۔ عشق ایک بے اختیار کیفیت ہے جو عاشق کو اپنے بس میں کر لیتی ہے۔ عشق کے سامنے کسی کی مرضی یا منصوبہ کارگر نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ دردؔ نے اپنی زندگی کا نچوڑ یہی پایا کہ عشق میں اختیار اور قابو نہیں چلتا بس محبت ہی عاشق کو اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔ اس طرح یہ شعر پورے تجربے کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔
غزل کا خلاصہ
خواجہ میر دردؔ کی یہ غزل عشق و محبت اور صوفیانہ فکر کا حسین امتزاج ہے۔ شاعر نے اس میں عاشق کے دل کی کیفیات، محبوب کی بے اعتنائی اور عشق کی بے اختیاری کو بڑے مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔ غزل کے آغاز میں شاعر کہتا ہے کہ اس نے دنیا میں جہاں بھی نگاہ ڈالی ہر طرف محبوب ہی کا جلوہ دکھائی دیا۔ یہ بات صوفیانہ پہلو سے دیکھی جائے تو کائنات کی ہر شے میں خدا کی ذات نظر آتی ہے اور عاشقانہ پہلو سے دیکھا جائے تو عاشق کو ہر منظر میں محبوب کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح شاعر کائنات کو محبوب کے وجود سے منسوب کر دیتا ہے۔ آگے چل کر شاعر محبوب کی نظر کے اثر کو بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب محبوب نے پوری توجہ سے ایک نظر ڈالی تو اس کی تاثیر ایسی تھی کہ عاشق کو اپنی جان بدن سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یہ کیفیت عاشق کے دل کی بے خودی اور محبوب کی نگاہ کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے بعد شاعر اپنے بس کی سب کوششوں کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے نالے کیے، فریادیں کیں، آہیں بھریں اور زاری و گریہ کیا لیکن محبوب کی سخت دلی اور بے نیازی کے آگے یہ سب بے اثر رہا۔ یہ عاشق کی بے بسی اور ناکامی کا اظہار ہے۔ پھر شاعر محبوب کے لبوں کو مسیحائی سے تشبیہ دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ محبوب کے لبوں میں شفا اور زندگی دینے کی طاقت ہے لیکن شاعر شکوہ کرتا ہے کہ جب وہ بار بار جان دینے کی کیفیت سے گزرا تو بھی ان لبوں نے اسے زندگی نہ بخشی۔ یہاں عاشق کی محرومی اور محبوب کی بے اعتنائی اپنی انتہا کو پہنچتی ہے۔
آخر میں شاعر اس غزل کا حاصل پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جس کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا۔ عاشق کے اختیار اور منصوبے عشق کے سامنے بے کار ہیں۔ عشق انسان کو مجبور اور بے بس بنا دیتا ہے۔ یہی عشق کا قانون ہے اور یہی شاعر کی زندگی کا نچوڑ ہے۔
خواجہ میر درد کی شاعری کی خصوصیات
خواجہ میر درد
صوفی شاعر، میرتقی میر کے ہم عصر ، ہندوستانی موسیقی کے گہرے علم کے لئے مشہور
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
اردو ادب کی تاریخ میں خواجہ میر دردؔ ایک منفرد اور نمایاں شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی پیدائش 1721 میں دہلی میں ہوئی اور 1785 میں وہ اس دنیا سے رخصت کر گئے۔ دردؔ کو زیادہ تر صوفی شاعر کہا جاتا ہے لیکن ان کی شاعری کو صرف تصوف تک ہی محدود کر دینا درد کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ ان کے کلام میں عشق، فلسفہ، موسیقیت اور اثر آفرینی سب یکجا نظر آتے ہیں۔ دردؔ کی شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا صوفیانہ رنگ ہے۔ ان کے کلام میں فنا و بقا، جبر و اختیار، وحدت و کثرت اور عشقِ حقیقی کے مسائل بڑی گہرائی کے ساتھ ملتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں اردو شاعری میں صوفیانہ خیالات کو رواج دینے والا پہلا بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔ تاہم دردؔ کے یہاں صرف تصوف ہی نہیں بلکہ عشقِ مجازی اور جیتی جاگتی محبوب کی جھلکیاں بھی جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح ان کا کلام زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
ان کے اشعار میں سادگی کے ساتھ ساتھ ایک خاص اثر انگیزی بھی پائی جاتی ہے۔ دردؔ مشکل الفاظ یا صناعی کے بجائے سادہ اور رواں زبان استعمال کرتے ہیں لیکن یہ سادگی ہی ان کے کلام کو دل تک پہنچاتی ہے۔ ان کے اشعار میں فکر و فلسفہ بھی نمایاں ہے۔ وہ زندگی کی بے ثباتی، انسان کی ناتوانی اور روحانی سکون جیسے موضوعات پر نہایت سنجیدگی سے اظہار کرتے ہیں۔
خواجہ میر دردؔ کا اسلوب ان کے معاصر میر تقی میر سے مختلف ہے۔ میرؔ کے ہاں جذبہ اور گداز نمایاں ہیں جبکہ دردؔ کے ہاں غور و فکر اور فلسفہ غالب ہے۔ دونوں کے یہاں عشق ضرور مشترک ہے لیکن اندازِ بیان مختلف ہے۔ دردؔ کے کلام میں ایک طرح کا سکون اور پاکیزگی پائی جاتی ہے جو انہیں دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔
دردؔ موسیقی کے بڑے جاننے والے تھے اور یہی خوبی ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔ ان کے اشعار میں ایک نغمگی اور موسیقیت ہے جو پڑھنے اور سننے والے کو لطف دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں وقت کے حالات پر طنز اور دنیا کی بے اعتباری پر شکوہ بھی موجود ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو خواجہ میر دردؔ کی شاعری دل اور روح دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں تصوف کی گہرائی، عشق کی پاکیزگی، فکر کی سنجیدگی اور زبان کی سادگی یکجا ہیں۔ یہی خصوصیات انہیں اردو غزل کے بڑے اور منفرد شاعر کے طور پر زندہ رکھتی ہیں۔