koi umeed bar nahi aati ghazal ki tashreeh کوئی امید بر نہیں آتی غزل کی تشریح

اس شعر میں شاعر اپنی گہری مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی میں اب کسی آرزو، خواہش یا کوشش سے کوئی امید پوری نہیں ہوتی۔ کوئی ایسا راستہ یا حل نظر نہیں آتا جو اس کے دکھوں کو کم کر سکے۔ یہاں امید انسان کی امیدِ زندگی کی علامت ہے اور صورت اس امید کے ظاہر ہونے کی۔ غالبؔ کی یہ کیفیت انسان کے اُس لمحے کی نمائندگی کرتی ہے جب سب دروازے بند محسوس ہوتے ہیں۔

شاعر کہتا ہے کہ جب موت کا وقت پہلے سے طے ہے تو پھر نیند کیوں نہیں آتی؟ وہ جانتا ہے کہ انسان کو ایک دن ضرور مرنا ہے مگر پھر بھی دل کو چین نہیں ملتا دماغ ہر وقت فکر و پریشانی میں الجھا رہتا ہے۔ اس شعر میں شاعر نے فلسفۂ موت کو زندگی کی بے چینی کے ساتھ جوڑ کر دکھایا ہے یہ کہ ہم جانتے ہیں سب فنا ہے مگر پھر بھی سکون نہیں پاتے۔

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

غالبؔ اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے وہ اپنے دکھوں پر ہنس لیا کرتے تھے گویا غم ان کے لیے ایک کھیل تھا۔ لیکن اب وہ مقام آ گیا ہے کہ کسی بات پر ہنسی نہیں آتی۔ اب غم اتنے شدید اور حقیقی ہو گئے ہیں کہ ہنسی جیسے مر چکی ہے۔ یہ شعر جذباتی پختگی اور غم کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

یہاں غالبؔ اپنی روحانی کمزوری کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ عبادت، پرہیزگاری اور زہد کے اجر و ثواب کو جانتے ہیں لیکن ان کا دل ان اعمال کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی اُس نفسیاتی کیفیت کی عکاسی ہے جب علم تو موجود ہوتا ہے مگر عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ اس میں شاعر کے فلسفیانہ اور حقیقت پسند پہلو نمایاں ہیں۔

شاعر کہتا ہے کہ اُس کی خاموشی کی کوئی خاص وجہ ہے۔ وہ بولنا جانتا ہے مگر کچھ ایسا راز یا دکھ ہے جس نے اُسے چپ کر دیا ہے۔ گویا اس کی خاموشی خود ایک چیخ ہے۔ اس شعر میں خاموشی دراصل اُس درد کی علامت ہے جو لفظوں سے بیان نہیں ہو سکتا۔

یہاں شاعر محبوب کی یاد میں تڑپتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب محبوب اُسے یاد کرتا ہے تو اس کے دل سے چیخ نکلتی ہے لیکن افسوس کہ اس کی آواز محبوب تک نہیں پہنچتی۔ اس شعر میں عاشق کی بے بسی اور جدائی کا کرب شدت سے جھلکتا ہے۔

غالبؔ اپنے چارہ گر یعنی علاج کرنے والے سے مخاطب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں میرے دل کے زخم (داغِ دل) نظر نہیں آتے تو کم از کم ان کی بو تو محسوس ہونی چاہیے۔ یہ شعر دراصل زمانے کے بے حس رویّے پر طنز ہے  کہ اب لوگ دوسروں کے دکھ کو نہ دیکھ پاتے ہیں نہ محسوس کر پاتے ہیں۔

یہ شعر روحانی اور فکری گہرائی رکھتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ ایک ایسی کیفیت میں ہے جہاں سے خود اپنی خبر بھی نہیں آتی۔ یہ شعر انسان کے وجودی بحران کو ظاہر کرتا ہے جب انسان خود اپنی حقیقت سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ یہ غالبؔ کی سوچ کا عکس ہے۔

یہ شعر غم، انتظار اور زندگی کی طویل اذیت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم تو مرنے کی خواہش میں ہی مر گئے مگر موت جب آنی چاہیے تھی نہیں آئی۔ گویا زندگی خود موت سے بھی زیادہ دکھ بھری بن گئی ہے۔ یہ انسانی بے بسی اور تقدیر کے جبر کی عکاسی کرتا ہے۔

غزل کے آخری شعر میں غالبؔ خود کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ خود سے سوال کرتے ہیں کہ تم اتنے گناہگار ہو کر کعبہ (یعنی عبادت گاہ) کیسے جاؤ گے؟ تمہیں شرم تو آنی چاہیے مگر افسوس کہ وہ بھی نہیں آتی۔ یہ شعر خود احتسابی، ندامت اور طنزِ ذات سے لبریز ہے۔ شاعر اپنے اخلاقی تضاد پر ہنس بھی رہا ہے اور رو بھی۔

مجموعی طور پر یہ غزل غالبؔ کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی ایک صدا ہے جس میں زندگی کی ناکامی، روح کی بے چینی اور انسان کی بے بسی نمایاں ہے۔ ہر شعر میں ایک کرب، ایک فلسفہ اور ایک احساس پوشیدہ ہے جو غالبؔ کو محض شاعر نہیں بلکہ ایک فلاسفرِ دل بناتا ہے۔

مرزا غالبؔ کی غزل کوئی امید بر نہیں آتی اردو شاعری میں انسانی دل کی پیچیدگی، روحانی بے چینی اور وجودی تضادات کی بہترین عکاسی ہے۔ اس غزل میں غالبؔ نے نہ صرف اپنے ذاتی احساسات اور جذبات کی وضاحت کی ہے بلکہ انسانی زندگی کے فلسفیانہ پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ غزل میں شاعر کی بنیادی کیفیت مایوسی، تنہائی، انتظار، عشق اور موت کے بارے میں شعوری فکر ہے۔ ہر شعر انسان کے اندرونی اضطراب اور اس کی دنیا سے کشمکش کو واضح کرتا ہے۔ غزل کے آغاز میں غالبؔ امید اور راستہ نہ ملنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں اب کوئی امید باقی نہیں اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یہ انسانی دل کی وہ کیفیت ہے جب ہر طرف تاریکی ہے اور ہر مسئلہ یا خواہش کا حل ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد شاعر موت اور زندگی کی ناپائیداری پر غور کرتا ہے کہ اگر موت کا وقت پہلے سے مقرر ہے تو پھر نیند کیوں نہیں آتی؟ یہاں غالبؔ نے انسان کی نفسیاتی بے چینی اور تقدیر کے جبر کی عکاسی کی ہے۔

غزل میں غالبؔ نے دل کی گہرائی، عشق اور جذبات کی شدت کو بھی بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ پہلے وہ دکھوں پر ہنس لیا کرتے تھے مگر اب ہر چیز اسے غمگین کر دیتی ہے۔ انسان کی روحانی کمزوری اور اخلاقی تضاد بھی بیان ہوا ہے جہاں وہ جانتا ہے کہ عبادت و زہد کا ثواب حاصل کرنا اچھا ہے مگر دل ان اعمال کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ اسی طرح خاموشی، جدائی اور دردِ دل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان کے زخم ان کے احساسات کا اثر دوسروں تک پہنچ نہیں پاتا یا وہ خود اپنی کیفیت سے بے خبر ہیں۔

غزل کے آخری اشعار میں غالبؔ نے عشق، انتظار اور ندامت کو فلسفیانہ رنگ دیا ہے۔ وہ مرنے کی آرزو میں ہیں مگر موت وقت پر نہیں آتی اور اپنی کمزوریوں، گناہوں اور شرم کے احساس کے باوجود عبادت کے مقام پر جانے کی صورتِ حال بیان کرتے ہیں۔ یوں یہ غزل انسانی روح کے اضطراب دل کی بے چینی، وجودی شعور، عشق اور فلسفیانہ سوچ کا مکمل بیان ہے۔ ہر شعر انسانی جذبات، احساسات اور فکر کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے اور غالبؔ کے بلند تخیل باریک بینی اور عمیق فلسفے کو نمایاں کرتا ہے۔ اس غزل میں زندگی کی تلخی، محبت اور موت کی حقیقت، انسانی تنہائی، امید کی کمی اور خود احتسابی سب عناصر یکجا ہیں جو اسے اردو شاعری میں ایک لازوال مقام دیتے ہیں۔ غالبؔ نے اسے نہ صرف جذباتی سطح پر بلکہ فکری اور فلسفیانہ پہلو سے بھی اتنا مہارت سے بیان کیا ہے کہ ہر مصرعہ انسانی دل و دماغ پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔

Scroll to Top