میر تقی میرؔ
فارسی شاعری میں حافظؔ کا جو مقام ہے، وہی اردو شاعری میں میر تقی میرؔ کا ہے۔ بے شک میرؔ کو اردو شاعری کا خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ اس بات کی تصدیق ایک لطیفے سے بھی ہوتی ہے جسے مولانا حالیؔ نے ایک جگہ بیان کیا ہے: “مفتی صدر الدین آزردہ کے گھر پر چند دوست جمع تھے، جن میں مومن اور شیفتہ بھی شامل تھے۔ اس محفل میں میرؔ کا یہ شعر پڑھا گیا۔”
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گر یہاں کے چاک میں
اس شعر کی بہت تعریف ہوئی، اور سب کو خیال آیا کہ اس قافیے میں ہر شخص اپنی قابلیت اور سوچ کے مطابق شعر کہنے کی کوشش کرے۔ سب نے قلم، دوات اور کاغذ لے کر الگ الگ بیٹھ کر شعر کہنے کی کوشش شروع کر دی۔ اسی دوران ایک اور دوست وہاں پہنچے۔ یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا، “یہاں کیا ہو رہا ہے؟” جواب ملا کہ “قل ہو اللہ کا جواب لکھا جا رہا ہے”۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح قرآن مجید کا جواب لکھنا ممکن نہیں، اسی طرح میرؔ کے کلام کا جواب دینا بھی ممکن نہیں۔ اردو کے بڑے بڑے شاعروں نے میرؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ غالبؔ فرماتے ہیں۔
ؔریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ذوق بھی کمال میر کے معترف ہیں۔
نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔکا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
ہر بڑے فنکار کو اپنی عظمت کا احساس ہوتا ہے میرؔ بھی جابجا اپنے کلام پر فخر کرتے نظر آتے ہیں۔
ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا
بلکہ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
:میرؔ کی عظمت کا راز
میرؔ کا کلام ان کی زندگی میں ہی دور دور تک مشہور ہو گیا تھا۔ ان کے بعد بھی ہر دور کے بڑے شاعروں نے میر ؔکو خراج عقیدت پیش کیا۔ موجودہ زمانے کے حالات میں میرؔ کی شاعری کی آواز کچھ زیادہ ہی قریب محسوس ہوتی ہے، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی مقبولیت اور بھی بڑھ رہی ہے۔ میر ؔکی مقبولیت کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
:فکر کا عنصر
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ میرؔ کے کلام میں فکری عنصر کم ہے اور ان کی شاعری زیادہ تر جذبات کی شاعری ہے۔ شاعری، خاص طور پر غزل میں، فلسفہ اور پیغام کے لیے زیادہ جگہ نہیں ہوتی کیونکہ غزل کا فن اشاروں کنایوں کا فن ہے، اور ان اشاروں میں فلسفہ پیش کرنا آسان نہیں ہے۔ اقبالؔ جیسے شاعروں کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں جنہوں نے غزل میں ایک پیچیدہ اور مربوط فلسفہ کامیابی سے پیش کیا۔
شاعری میں فکر اور جذبات مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔ بڑا شاعر زندگی کی حقیقتوں پر غور کرتا ہے اور انہیں شعر میں پیش کرنے سے پہلے جذبات کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ میرؔ نے یہ کام بڑی مہارت سے کیا۔ بے شک میرؔ میں عقلی تجزیے کی وہ صلاحیت نہیں تھی جو مثلاً غالبؔ میں ہے، لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہ سوچتے نہیں تھے یا زندگی کی حقیقتوں پر غور نہیں کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، کسی شیشے کے کارخانے کو دیکھ کر انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے مصنوعات کی شکل بگڑ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں دنیا کے معاملات کا خیال آتا ہے کہ یہاں بھی قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوتا ہے، کیونکہ ذرا سی غفلت سے کام بگڑ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگئہ شیشہ گری کا
اسی غزل کے دو اور اشعار ہیں جو اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ میرؔ غور و فکر کرنے اور نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ میرؔ کے کلیات میں اس کی اور بھی مثالیں مل جائیں گی۔ میرؔ بنیادی طور پر جذبات کے شاعر ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے یہاں فکر کی مثالیں کم ہیں۔ جب کوئی خیال ان کے ذہن میں آتا ہے، تو وہ فوراً اسے شعر میں نہیں ڈھالتے۔ وہ خیال ان کے دماغ میں پکتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ احساس کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور پھر آخرکار ایک اثر انگیز شعر کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
:موضوع سخن
جب کوئی شاعر کسی خاص نظریے یا فلسفے کو اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے، تو اکثر اس کی شاعری میں تازگی کم ہو جاتی ہے، اور پڑھنے والے کو ایک طرح کی بندش کا احساس ہوتا ہے۔ میرؔ کسی خاص نظریے کے شاعر نہیں تھے، اور نہ ہی وہ زندگی کو کسی مخصوص زاویے سے دیکھتے تھے۔ بلکہ زندگی میں آنے والا ہر چھوٹا بڑا تجربہ ان کے دل پر اثر کرتا، اور یہی تجربہ ان کے کسی شعر کی بنیاد بن جاتا۔
اسی طرح میرؔ اپنی شاعری میں بہت سے تجربات پیش کرنے میں کامیاب ہیں، اور ان میں بڑی تعداد ایسے تجربات کی ہے جو عشق و محبت سے متعلق ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ہر دل پر کبھی نہ کبھی ضرور گزرتا ہے، اسی لیے میرؔ کی شاعری میں ہر شخص کو اپنی کہانی نظر آتی ہے۔ میرؔ اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہیں، اور سننے والے کو وہ اپنی کہانی لگتی ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ میرؔ نے اپنی کہانی کو سب کی کہانی بنا دیا۔
:میرؔ کی زبان
میر ؔ نے اپنی شاعری میں عا م بول چال کی زبان استعمال کیا ہے ۔میرؔ کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر نورالحسن نقوی فرما تےہیں۔
“میرؔ شعر نہیں کہتے باتیں کرتے ہیں۔ وہ باتیں جو سنے والے کو ایسی لگیں جیسے پہلےسے اس کے دل میں موجود تھیں۔انداز ایسا جیسے بے تکلف دوست اپنے دوست سے رازونیا زمیں محو ہو لہجے سرگوشی کا ز بان عام بول چال کی” ۔
میرؔ کے کلیات میں ان گنت ایسے شعر موجود ہیں جن پر بات چیت کا گمان ہوتا ہے۔ اور میر ؔکو اپنی اس خصوصیت پر ناز ہے اور فخرسے کہتے ہیں۔
باتیں ہماری یا د رہیں
پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
لیکن جس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ شاعر عام بول چال کی زبان کو ضرور استعمال کرتا ہے، مگر اسے شعری زبان بنا دیتا ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ عام زبان کو شعر کی زبان بنانے کے لیے شاعر کو شعری وسائل استعمال کرنے پڑتے ہیں، مثلاً کہیں استعارہ اور تشبیہ کا سہارا لیتا ہے، کہیں اشارے کنایے کا، کہیں صنعت سے کام لیتا ہے تو کہیں پیکر تراشی سے۔
لیکن جس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ شاعر عام بول چال کی زبان کو ضرور استعمال کرتا ہے، مگر اسے شعری زبان بنا دیتا ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ عام زبان کو شعر کی زبان بنانے کے لیے شاعر کو شعری وسائل استعمال کرنے پڑتے ہیں، مثلاً کہیں استعارہ اور تشبیہ کا سہارا لیتا ہے، کہیں اشارے کنایے کا، کہیں صنعت سے کام لیتا ہے تو کہیں پیکر تراشی سے۔
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے ہاں سدا
مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباں نہیں
دوسری جگہ یہی تجربہ شعری انداز اختیار کر لیتا ہے۔
اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں یاں
کبھو سرو و گل کے سایے تھے
آفتاب سے مراد ہے دھوپ۔ جب شاعر کہتا ہے کہ میں دھوپ میں کھڑا ہوں، تو اس کا مطلب ہے کہ میں زمانے کی سختیاں برداشت کر رہا ہوں۔ اور جب وہ کہتا ہے کہ کبھی میرے سر پر پھولوں اور خوبصورت پودوں کا سایہ تھا، تو اس کا مطلب ہے کہ ایک وقت تھا جب مجھے ہر طرح کی آسائشیں میسر تھیں۔ گویا دھوپ اور سایہ دو استعارے ہیں۔ ایک جگہ جب پھول کی ناپائیداری دکھانا چاہتے ہیں، تو فرماتے ہیں۔
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
یہ شعر پیکر تراشی کا بہترین مثال ہے۔ پھول اور کلی نے جاندار کرداروں کی شکل اختیار کر لی ہے، اور اسے تجسیم کہتے ہیں۔ کلی کا تبسم بہت معنی خیز ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ شاعر کا سوال کافی مزاحیہ تھا۔ کلی اس بے وقوفانہ سوال کا کیا جواب دیتی؟ طنز کے ساتھ مسکرا دی، کیونکہ پھول کی زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس کے بارے میں پوچھنا بے وقوفی ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ کلی کے مسکرانے میں بس ایک پل لگتا ہے، اور یہ اشارہ ہے کہ جتنی دیر میری مسکراہٹ ہے، اتنی ہی پھول کی زندگی ہے۔
ملاحظہ ہوں بات چیت کی زبان میں میرؔ کے چند اشعار
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر ؔباز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
:غنائیت
موسیقی یا ترنم شاعری کے لیے بہت ضروری ہے۔ جیسے اچھی نثر کی خوبی یہ ہے کہ اسے بلند آواز سے پڑھنے پر کانوں کو خوشی ملے، اسی طرح اچھی شاعری وہ ہے جسے گایا جا سکے۔ شعر کے لیے شاعر پہلے بہترین الفاظ کا انتخاب کرتا ہے، پھر انہیں بہترین ترتیب میں پیش کرتا ہے۔ میرؔ کو الفاظ کے انتخاب اور ان کی ترتیب دونوں کا ہنر بہت اچھے طریقے سے آتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ موسیقی کے فن میں ماہر ہیں۔ وہ بہت غور و فکر کے بعد الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں اور انہیں اس طرح شعر میں بٹھاتے ہیں کہ ترنم پیدا ہو۔ کبھی کبھی وہ الفاظ کی تکرار سے خوشگوار آہنگ بھی پیدا کرتے ہیں۔
اشعار میر کی نغمگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اسماکم اور افعال زیادہ استعمال کرتے ہیں بعض شعروں میں ایک سے زیادہ نحوی اکائیاں ہیں اور یہ بات طے شدہ ہے کہ افعال سے نغمگی پیدا ہوتی ہے۔
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اسے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول / شہر کو سیلاب لے گیا
عشق ہمارے خیال پڑا ہے / خواب گیا / آرام گیا
دل کا جانا ٹھر گیا ہے / صبح گیا / یا شام گیا
:فارسی تراکیب
غالبؔ کی فارسی ترکیبوں پر برابر اعتراض ہو تا رہا ہے۔ قا بل غوربات یہ ہے کہ غالبؔ نے متعدد تراکیب کلام میرؔ سے لی ہیں۔ میرؔ نے دو دو اور تین تین اضافتوں والی تراکیب استعمال کی ہیں مگر یہ شعروں میں اس طرح چھپ گئی ہیں کہ کسی کو ان کے وجود کا احساس تک نہیں ہوتا۔ دیکھیے۔
ہنگامہ گرم کن جو دل ِنا صبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شور ِنشور تھا
کوئی ہو محرم شوخی ترا تو یں پوچھوں
کہ بزم ِعیشِ جہاں کیا سمجھ کے برہم کی
ان شعروں میں “ہنگامہ گرم کن”، “دل ناصبور”، “شور نشور”، “محرم شوخی”، “بزم عیش جہاں” اور اسی طرح کی دیگر ترکیبیں استعمال ہوئی ہیں، جیسے “یوم الحساب” اور “خلوتی راز نہاں”۔ میرؔ فارسی الفاظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ “وسواس”، “بھیجک” اور اسی طرح کے دوسرے ہندی الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں نہ تو فارسی الفاظ عجیب لگتے ہیں اور نہ ہی ہندی الفاظ، کیونکہ وہ دونوں زبانوں کے استعمال میں ماہر ہیں۔
:پیکر تراشی
پیکر تراشی کلام میرؔ کی خاص خصوصیت ہے، یعنی الفاظ کے ذریعے تصویر بنانا۔ یہ ایک ایسا شعری فن ہے جس سے کوئی حالت یا منظر قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دیکھی ہوئی چیز سنی ہوئی چیز سے زیادہ دلکش اور مؤثر ہوتی ہے۔ میرؔ اس فن میں ماہر ہیں، اور ان کی پیکر تراشی کی معلومات بھی غیر معمولی ہیں۔ اس لیے میرؔ کے کلام میں شعری پیکر ہر طرف بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔مثال کے طور پر ۔
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
بات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں کم کم با دو باراں ہے
رات محفل میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
:استعارہ و تشبیہ
میر ؔکے یہاں تشبیہیں زیادہ اور استعارہ کم ملتے ہیں کیونکہ تشبیہ سے وضاحت پیدا ہوتی ہے اور استعارے میں ایک طرح کا ابہام پایا جاتا ہے۔ پیکیر سازی میں استعارہ اور تشبیہ بہت معاون ہوتے ہیں شاعر اپنے محبوب کو چاند کہتا ہے تو چاند کی تصویر آنکھوں میں کھنچ جاتی ہے۔ میرؔ تشبیہیں بھی ایسی انتخاب کرتے ہیں جن تک آسانی سے ذہن کی رسائی ہو جائے ۔ اس کی چند شالیں۔
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
:سوز و گداز
میر نے ایک شعر میں اپنی قلمی تصویر ان لفظوں میں کھنچی ہے۔
قامت خمید و رنگ شکست برای نزار
تیرا تو میرؔ غم میں عجب حال ہو گیا
اس میں کوئی شک نہیں کہ میرؔ کی زندگی میں غموں نے بڑا حصہ ڈالا رکھا تھا۔ ابھی ہوش سنبھالا بھی نہ تھا کہ والد اور منہ بولے چچا دنیا سے رخصت ہو گئے، اور سوتیلے بھائی نے دشمنوں جیسا سلوک کیا۔ دہلی پہنچ کر خان آرزو کے گھر پناہ لی، لیکن سوتیلے بھائی نے وہاں بھی دشمنی کی، اور جان کا خطرہ بن گئے۔ گھر چھوڑ کر آوارہ پھرا، اور آخرکار غموں کی اتنی شدت ہوئی کہ ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ زندگی میں کئی بار ایسے مواقع آئے کہ انہوں نے دروازے پر دستک دی اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلایا، مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ کوئی کسی کی مدد کو تیار نہیں تھا۔ ہر جگہ سے ناکام لوٹے، اور معاشی تنگی نے زندگی بھر عاجز رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ حالات نے انہیں چڑچڑا اور بدمزاج بنا دیا تھا۔
حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ
دل سوزش درونی سے جلتا ہے جوں چراغ
سینہ تمام چاک ہے، سارا جگر ہے داغ
ہے مجلسوں میں نام مرا میر ؔبے دماغ
میر کے غم کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ ہمیں پسپا نہیں کرتا، حوصلہ بڑھاتا ہے اور حالات کامقابلہ کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔ بقول سید عبداللہ ” میرؔ اپنے شعروں میں غم کا اظہار تو جا بجا کرتے ہیں مگر اس لیے کہ ہم اس کے تلے دب نہ جائیں وہ برابر ہمیں سہارا دیے رہتے ہیں غم کے پہلو بہ پہلو وہ کسی نہ کسی خوشی کا ذکر بھی کرتے جاتے ہیں جس سے غم کی شدت کم ہو جاتی ہے اور وہ گوارا محسوس ہونے لگتا۔
ایک محروم چلے مؔیر ہمیں دنیا سے
ورنہ عالم نے زمانے کو دیا کیا کیا کچھ