مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
غالبؔ کی عظمت کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو غزل کو سوچنے کا طریقہ سکھایا اور اسے غور و فکر کی عادت ڈالی۔ غالبؔ سے پہلے، اردو غزل کی دنیا بہت محدود تھی، جہاں صرف حسن اور عشق کی باتیں ہوتی تھیں۔ غالبؔ نے زندگی کے مسائل پر غور کیا اور انہیں اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ غالبؔ فلسفی تو نہیں تھے اور ان کے پاس ایسا کوئی منظم فلسفہ نہیں تھا جیسے اقبالؔ کے پاس تھا، لیکن ان کے پاس ایک حکیمانہ نظر ضرور تھی۔ شاعری دو طرح کی ہوتی ہے: اچھی شاعری اور عظیم شاعری۔ اچھی شاعری وہ ہوتی ہے جس سے صرف لطف حاصل ہو، جبکہ عظیم شاعری وہ ہوتی ہے جو لطف دینے کے ساتھ ساتھ سوچ کو بھی جگائے۔۔ رابرٹ فراسٹ کے اس خیال میں بہت وزن ہے کہ” اعلا درجے کی شاعری مسرت سے شروع ہو کر بصیرت پر ختم ہوتی ہے”۔ پروفیسر آل احمد سرور نے فرمایا ہے کہ “فکر سے من کو آب و تاب ملتی ہے”۔
غالبؔ کی شاعری میں فکری عنصر نے بھی حسن پیدا کیا ہے۔ غالبؔ زندگی کی مشکلات اور تلخیوں سے بخوبی واقف تھے۔ ان کی ذاتی زندگی میں انہیں کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی مطمئن نہیں تھے۔ کوئی حساس اور سمجھدار شخص کبھی بھی مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوتا۔ غالبؔ پر جو گزرتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں، اس سے وہ کبھی مایوس ہو جاتے ہیں اور کبھی حیران۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ طرح طرح کے سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا یہ سوالیہ انداز ان کے دیوان میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔
چند شعر پیش کیے جاتے ہیں۔
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یا د کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالبؔ کا کوئی منظم فلسفہ نہیں ہے۔ وہ ایک سوچنے والے شاعر ہیں، مگر ان کی سوچ کا نتیجہ کبھی کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ اور۔ کبھی خوش نظر آتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں اداس ہو جاتے ہیں۔ کبھی دنیا پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور پھر کسی چھوٹی سی بات پر اس سے بیزار ہو جاتے ہیں۔کبھی خود داری کا یہ حال ہے کہ” الٹے لوٹ آئے در کعبہ اگروانہ ہوا اور ذرادیر میں یہ صورت ہے کہ جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار با” یا تو یہ عالم ہے کہ محبوب کے ساتھ زور زبردستی سے بھی گریز نہیں۔ فرماتے ہیں۔
عجز ونیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچے
غالبؔ کے کلام کی ایک اور خاصیت اس کی تہداری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شعر میں ایک سے زیادہ معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جب پہلی بار شعر پڑھا یا سنا جاتا ہے تو اس کے ایک معنی سمجھ آتے ہیں۔ پھر جب غور سے دیکھا جاتا ہے تو اسی شعر سے دوسرے معنی بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے۔
کوئی و یرنی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
اس شعر کا ایک مطلب یہ ہے کہ دشت کی ویرانی بہت خوفناک ہے، اور اسے دیکھ کر خیال آیا کہ ہمارا گھر بھی ویسا ہی ویران تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ محبت کرتے ہوئے گھر چھوڑ کر اس وحشت میں آنا پڑتا ہے۔ لیکن اس شعر کا ایک تیسرا مطلب بھی ہے: پہلے مصرعے کو تحقیر کے انداز میں پڑھا جائے، یعنی یہ بھی کوئی ویرانی ہے، اصل ویرانی تو میرے گھر کو دیکھو۔ غالب ؔ کے کلام میں ایسے بہت سے شعر مل جاتے ہیں جن کے کئی کئی معنی نکلتے ہیں۔
غالبؔ کے کلام کی تیسری اہم خصوصیت مشکل پسندی ہے۔ ان کے زیادہ تر اشعار ایسے ہیں کہ ان کے معنی تک پہنچنے کے لیے استاد کی رہنمائی یا تشریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورڈزور تھ شاعری کے لیے ایسی زبان پسند کرتے ہیں جو عام لوگوں کے بول چال میں استعمال ہوتی ہو، جبکہ کولرچ فلسفے کی زبان کو شاعری کے لیے مناسب سمجھتے ہیں۔ شاعر اور ادیب اس زبان کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کے موضوع کے لیے ضروری ہو۔ ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ جب زندگی سادہ تھی، تو شعر و ادب کی زبان بھی سادہ ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ زندگی پیچیدہ ہوتی گئی، تو شعر بھی پیچیدگی کا انداز اختیار کر گیا۔گویا غالب ؔ نے پیچیدہ پیرایہ اظہار اپنایا تو یہ ان کے عہد کا تقاضا تھا۔ غالب کے اشعار اس لیے مشکل معلوم ہوتے ہیں کہ انھوں نے پہلی بار فکر کو شاعری میں داخل کیا۔
اردو شاعری کے سامعین اس کی زبان کی خوبصورتی کے عادی تھے اور شعر میں زبان کے نئے رنگ تلاش کرتے تھے۔ اس کا ایک سبب غالبؔ کی فارسی دانی ہے۔ فارسی زبان اور فارسی شعر و ادب ان کی زندگی میں گہرائی سے شامل تھے، اس لیے ان کے کلام میں فارسی الفاظ کی بڑی تعداد ہے، جو ان کے کلام کو مشکل بنا دیتی ہے۔ لیکن اس کا اصل سبب غالبؔ کے تخیل کی بلند پروازی ہے۔ تخیل وہ چیز ہے جو خیال کی پرواز کو ممکن بناتی ہے، اور اس کے بغیر شعر وجود میں نہیں آ سکتا۔ مگر تخیل کی پرواز اتنی بلند بھی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جائے اور زمین سے اس کا تعلق ہی ٹوٹ جائے۔ غالبؔ کی شاعری میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ محمد حسین آزاد نے آپ حیات میں غالب ؔ سے تخیل کی بلند پروازی پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” بعض بلند پرواز ایسے اوج پر جائیں گے جہاں آفتاب تارا ہو جائے گا اور بعض ایسے اڑیں گے کہ اڑ ہی جائیں گے؟ ایک جگہ لکھتے ہیں۔ اکثر شعر ایسے اعلا درجہ رفعت پر واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے نارسا ذہن وہاں تک نہیں پہنچے سکتے ۔
غالبؔ کی مشکل گوئی کی شکایت ان کے ایک ہم عصر طبیب و شاعر آغا جان عیش نے ان الفاظ میں کی ہے۔
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اوردوسرا سمجھے
اس طرح کی شکایتوں سے غالب ؔ کے مزاج میں برہمی پیدا ہوتی تھی ۔ ایک بار جھنجلا کر اس اعتراض کا یہ جواب دیا۔
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس تنقید کا غالبؔ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان کے ابتدائی کام میں مشکل زبان استعمال ہوئی۔ انہوں نے کچھ غزلیں مثال کے طور پر چھوڑ دیں اور باقی کو قلم زد کر دیا۔ بعد میں انہوں نے نسبتاً آسان زبان اختیار کرنے کی کوشش کی۔
شوخی اور ظرافت غالبؔ کے مزاج کا حصہ تھے، اس لیے حالیؔ نے انہیں “حیوان ظریف” کہا ہے۔ وہ دلچسپ لطیفوں اور چٹکلوں سے ہر وقت محفل کو سجائے رکھتے تھے۔ ان کے پسندیدہ جملے ان کے عقیدت مند قیمتی تحفے کی طرح اپنے وطن لے جاتے تھے، دوستوں اور عزیزوں کو سناتے اور محفوظ رکھتے تھے۔ اسی لیے مرثیہ میں حالیؔ نے کہا:
تھیں تو دلی ّ میں اس کی باتیں تھیں
لے چلیں اب وطن کو کیا سوغات
ان کی ذاتی زندگی اور مجموعہ مکاتیب کی طرح غالبؔ کے دیوان میں بھی شوخی ظرافت اور طنز کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ان کا رقیب، ان کا محبوب ، جنت ، دوزخ ، فرشتے اور حد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو بھی ان کی ظرافت سے محفوظ نہ رہ سکا۔ دیکھیے۔
غالبؔ کی انا بھی ان کی اسی نظر کا نتیجہ ہے، جس سے ہر کمی اصل سے زیادہ ناقص نظر آتی ہے۔ کوئی بھی خرابی فنکار کی نظر سے چھپ نہیں سکتی۔ وہ اسے دیکھتا ہے، اس پر افسوس کرتا ہے اور اسے اپنے طنز کا نشانہ بناتا ہے۔ فنکار بہت حساس ہوتا ہے اور کسی بھی خامی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ خود کو کمزور فنکاروں کے مقابلے میں بہت بلند مقام پر پاتا ہے اور انہیں حقارت سے دیکھتا ہے۔ ہر بڑے فنکار کی طرح غالبؔ کو بھی اپنی عظمت کا احساس تھا، اور اس احساس کا اظہار ان کی نظم اور نثر میں جا بجا ملتا ہے۔
ایک خط میں لکھتے ہیں
خدا کے واسطے داد دینا، اگر ریختہ یہ ہے تو میرو مرزا کیا کہتے تھے۔ اگر ریختہ وہ تھا تو پھریہ کیا ہے”۔”
یہی بات شعروں میں بھی دہرائی گئی ہے۔
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعر نغزہ گرے و خوش گفتار
رزم کی داستان گر سنیے
ہے زباں میری تیغ جو ہر دار
بزم کا التزام گر کیجے
ہے قلم میرا ابو گوہر بار
غالبؔ کو تصویر کشی میں بھی کمال حاصل ہے۔ وہ لفظوں سے ایسی تصویر بناتے ہیں جو ایک مصور بھی رنگوں سے اتنی مکمل اور جیتی جاگتی نہیں بنا سکتا۔ مثال کے طور پر غالبؔ کی وہ غزل پیش کی جا سکتی ہے جس کا ہر شعر ایک زندہ تصویر ہے، اور پوری غزل ایک دلکش البم کی طرح ہے۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشان کیے ہوئے
غالبؔ رنگوں کے ایسے شیدائی ہیں کہ استعاروں کے انتخاب میں بھی وہ رنگوں سے بہت کام لیتے ہیں اور ایسے حسی پیکر تراشتے ہیں جنھیں رنگ و نور کا مجسمہ کہا جا سکتا ہے، گل، گلستان، آفتاب ،لالہ ، قطرہ خوں ان کے پسندیدہ استعارے ہیں۔
گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے
ہر نیچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے
دل تا جگر کہ ساحل دریا نے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوہ اگل آگے گرد تھا
غالبؔ کے کلام کی نمایاں خصوصیت اس کی موسیقیت ہے۔ غالبؔ کو موسیقی میں صرف دلچسپی ہی نہیں تھی، بلکہ اس میں مہارت بھی رکھتے تھے۔ وہ لفظوں کا انتخاب بڑی مہارت سے کرتے تھے اور انہیں سلیقے سے ترتیب دیتے تھے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس فن پر کس قدر عبور حاصل تھا۔ اسی لیے ان کی زیادہ تر غزلوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انہیں بڑے دلکش انداز میں گایا جا سکتا ہے۔
کلام غالب ؔ کے ایک نقاد کی یہ رائے درست ہے کہ موزوں و مترنم الفاظ ان کی مناسب ترتیب بحر وقافیہ کا انتخاب ، استعاره و بیکہ جیسے شعری وسائل ہی سے کسی شاعر کی عظمت کا تعین نہیں ہوتا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ شاعر کے پاس ایسے تجربات موجود ہیں یا نہیں جو منفرد بھی ہوں اور قابل ذکر بھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ تجربات شاعر کے احساس میں جذب ہو کر فنی اصولوں کے ساتھ شعر کی صورت اختیار کر چکے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو اس شاعر کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور غالبؔ ایسے ہی ایک شاعر ہیں۔