مومن خان مومنؔ
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مرزاغالبؔ نے یہ شعر سن کر کہا تھا مومنؔ کے اس شعر کے بدلے میں اپنا پورا دیوان دینے کو تیار ہوں نیاز فتح پوری جو ہمارے عہد کے نامور نقاد ہوئے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ ” میرؔ کے سو اگر تمام کلاسیکی شعرا کے دیوان میرے سامنے رکھ دیے جائیں اور ان میں سے صرف ایک دیوان منتخب کرنے کو کہا جائے تو میں بلا تامل مؤمنؔ کا دیوان اٹھا لوں گا اور کہوں کا باقی سب لے جاؤ”۔ مومنؔ کے زمانے سے لے کر آج تک ان کا کلام بہت پسند کیا گیا ہے۔ مومنؔ کے کلام کے شوقین ہر دور میں رہے ہیں اور شاید ہمیشہ رہیں گے۔
اکثر یہ بات کہی گی ہے کہ مومنؔ کی شاعری کا دائرہ چھوٹا ہے اور وہ حسن و عشق کی حدوں سے باہر نہیں جاتے۔ یہ بات درست ہے۔ یہ دنیا جو ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہے، اتنی وسیع اور عظیم ہے کہ اسے مکمل طور پر فن میں پیش کرنے کا خیال بھی ناممکن ہے۔ اس دنیا کے ایک چھوٹے سے حصے کو فن میں سمو لینا بھی ایک قابل تعریف کارنامہ ہے۔ سمجھدار فنکار اپنی پسند اور مہارت کے مطابق اس دنیا کے کسی چھوٹے سے حصے کو منتخب کر کے اسے فن پارے میں پیش کرتے ہیں۔ مومنؔ نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے اپنی غزل کے لیے حسن و عشق کی دنیا کو چن لیا۔ اس میں دو خطرات تھے: ایک یہ کہ شاعری کا میدان محدود ہو جائے گا۔ بلاشبہ، مومنؔ کی شاعری کا دائرہ چھوٹا ہو گیا، لیکن انہوں نے اس کو یوں حل کیا کہ حسن و عشق سے متعلق تمام ممکنہ معاملات، عاشق کو پیش آنے والے تمام واقعات اور اس کے دل پر گزرنے والی تمام کیفیتوں کو اپنی غزل میں شامل کر لیا۔
ان کے دیوان کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مومنؔ نے اس محدود دائرے میں کس قدر مہارت دکھائی ہے اور اس چھوٹے دائرے کو کیسے گہرائی اور وسعت عطا کی ہے۔ ہجر وصال ، روٹھنا، مننا، محبوب کی وفاداری، اس کا ہر جائی اپن ، بہانہ سازی، عاشق کا محبوب سے برابری کا سلوک کرنا ، کبھی اپنی جاں نثاری پر فخر کرنا کبھی پچھتانا عشق و محبت کی کوئی ایسی کیفیت نہیں جو مومنؔ کے اشعار میں نہ ہو۔
ان میں سے ایک مشہور غزل ہی ہے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں ، وہ مزے مزے کی حکاتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر ہم ، تو و فاجتانے کو دم بہ دم
گلہ سلامت اقرباء تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی ،کبھی ہم تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمھیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
یہ اشعار ایک ہی غزل کے ہیں۔ ان اشعار میں قوال و قرار، عہد و پیماں، لطف وکرم ، گلے شکوے ، روٹھن اور من جانا ، عزیزوں کے طعن جیسے مضامین کیسے دل کش انداز میں پیش کر دیے گئے ہیں۔
غزل اصل میں عشق کے جذبات اور حسن کی کیفیات بیان کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی۔ مومنؔ کے زمانے میں ہی غزل نے اس حد کو پار کر لیا، لیکن مومنؔ نے مخصوص موضوعات کا راستہ اپنایا اور اس دائرے سے باہر نہیں نکلے۔ تاہم، اس دائرے کے اندر ہی انہوں نے ایسے تخلیقی کمالات دکھائے کہ غزل کے ناقدین کو مومنؔ کی شاعری کی محدودیت کا شکوہ نہ رہا۔
عشقیہ شاعری میں دوسرا بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں بے ہودگی یا فحاشی آ جائے۔ آسان زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ عریاں مضامین اور بے حیائی شامل ہو جاتے ہیں۔ دبستان لکھنو کی شاعری میں بھی یہی ہوا۔ جرات اور انشا کے دیوانوں میں ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جنہیں پڑھ کر شرم آتی ہے۔ مومنؔ کا کلیات کافی ضخیم ہے، مگر ایسی گندگی سے بالکل پاک ہے۔
مومنؔ کی عشقیہ شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے ناقدین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ان کا محبوب کون تھا؟ بعض جگہوں پر انہوں نے اپنے محبوب کے امرد، یعنی خوبصورت لڑکا ہونے کا اشارہ دیا ہے، لیکن زیادہ تر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی پردہ نشین عورت ہے۔ اس سلسلے کے دوشعر ۔
عشق پردہ نشیں میں مرتے ہیں
زندگی پرده در نہ ہو جائے
یا رب کوئی معشوقہ دلجو نہ ملے اب
جو ان کی دعا ہے وہی اپنی بھی دعا ہے
کہا جاتا ہے کہ مومن کی محبوبہ ایک پردہ نشین خاتون تھی اور شعر بھی کہتی تھی ۔ صاحب یا حجاب اس کا تخلص تھا۔
مومنؔ کے کلام کی اہم خصوصیت نازک خیالی اور نئے مضامین پیدا کرنا بھی ہے۔ وہ اس طرح بات سے بات نکالتے ہیں کہ اکثر ہمارے لیے اصل مفہوم تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پر وفیسر ضیا احمد بدایونی جنھوں نے کلام مومن کے محاسن کو بڑی خوش اسلوبی سے اُجا گر کیا ، مومن کی اس خصوصیت کی اس طرح تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
“مومن ؔ اردو تغزل میں ایک طرز خاص کے مالک ہیں مطلب کو پیچ سے ادا کرنا اور بات کو پھر سے کہنا اس طرزخاص کی خصوصیت ہے۔ یہی سبب ہے کہ عوام تو درکنار کبھی کبھی خواص بھی ان کے مفہوم تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ تمام اردو شعر میں صرف غالبؔ اور مومن ہی ایسے ہیں جن کا کلام شرح طلب ہے “۔
کچھ مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ دیوانِ مومنؔ میں ایسے بہت سے اشعار موجود ہیں جن کا مطلب سمجھنے کے لیے کافی غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک شعر ہے۔
آئے وہ دست غیر میں دیے ہاتھ
آس ٹوٹی شکستہ پائی کی
شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اس کا پیر ٹوٹ گیا اور وہ کوچۂ حبیب میں جانے سے مجبور ہو گیا۔ امید تھی کہ انہیں خبر ملے گی تو عیادت کے لیے آئیں گے۔ وہ آئے ضرور، مگر اس طرح کہ رقیب کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے۔ایک اور شعر ہے۔
دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب
تھا سازگار طالع ناساز دیکھنا
مطلب یہ ہے کہ نجومی نے میرے ہاتھ کی لکیروں سے یہ جان لیا کہ میری قسمت خراب ہے اور محبوب مجھے نہیں مل سکتا۔ اس نے سوچا کہ قسمت آزمانے کا یہ اچھا موقع ہے، اس لیے وہ میرا رقیب بن گیا۔
شوخی اور ادا بھی مومنؔ کے کلام کی ایک خاص خصوصیت ہے۔ وہ اکثر اپنی بات اس طرح چبھتے ہوئے انداز میں کہتے ہیں کہ کبھی صرف شوخی کا رنگ پیدا ہوتا ہے اور کبھی طنز کا انداز غالب آ جاتا ہے۔
منظور ہو تو وصل سے بہتر ستم نہیں
اتنا رہا ہوں دور کہ ہجراں کا غم نہیں
رشک دشمن بہانہ تھا سچ ہے
میں نے ہی تم سے بے وفائی کی
مومنؔ کے کلام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ بات کو خود سے شروع کرکے خود پر ہی ختم کر دیتے ہیں۔ وہ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے مخاطب کے فائدے کے لیے کہہ رہے ہوں، لیکن غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس میں شاعر کا اپنا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں ۔
محفل میں تم اغیار کو دزدیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو
ظاہری طور پر تو یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ اگر بزم میں میرے رقیبوں کو چوری چوری دیکھو گے تو تمہیں رسوائی ہوگی، لیکن دل کی بات یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کا محبوب ان کے رقیبوں کی طرف متوجہ ہو۔ اس صفت کو مولانا ضیا احمدبدایونی نے مکرِ شاعرانہ کا نام دیا ہے۔ اس کی چند مثالیں اور دیکھیے۔
ہے دوستی تو جانب دشمن نہ دیکھنا
جادو بھرا ہوا ہے تمھاری نگاہ میں
غیروں پر کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا
مومنؔ الفاظ کے انتخاب اور ان کی ترتیب کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے بحروں کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا، جس کی وجہ سے ان کی زیادہ تر غزلیں بہت مترنم ہیں۔ انہوں نے جو تشبیہیں اور استعارے استعمال کیے ہیں، ان میں بھی نیاپن پایا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ مومنؔ کا کلام بہت دلکش ہے اور ان کا شمار ہماری زبان کے بہت مقبول شاعروں میں ہوتا ہے۔
البتہ، انہوں نے غزل کو اس کے لفظی معنی میں محدود کر کے، یعنی اپنی غزل کو صرف حسن و عشق کے مضامین تک محدود کر کے، خود کو بلند مقام سے محروم کر لیا۔ ورنہ وہ غالبؔ اور اقبالؔ کے ہم رتبہ ہوتے۔ دوسری بات یہ کہ ان کی زیادہ تر غزلیں پوری طرح سنواری اور نکھاری نہیں جا سکیں۔ انہوں نے اپنے اشعار کو سنوارنے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ صرف بیماری کے عالم میں ایک بار مومنؔ کے ایک شاگرد نے ان کا کلام پڑھ کر سنایا اور مومنؔ نے کہیں کہیں اصلاح کی۔ لیکن جن غزلوں پر نظر ثانی کا موقع ملا ہے، وہ بلا شبہ بڑے بڑے شاعروں کی غزلوں کے برابر ہیں اور مومنؔ کو دائمی مقام دلانے کے لیے کافی ہیں۔