نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا غزل کی تشریح
یہ غزل مرزا غالبؔ کی ابتدائی دور کی نہایت مشہور غزلوں میں سے ایک ہے، جو فلسفیانہ، رمزیاتی اور فکری گہرائی سے بھرپور ہے۔ غالبؔ نے اس میں انسان، کائنات، فن، تخیل اور حقیقتِ زندگی کے باہمی تعلق پر نہایت بلند فکری انداز میں اظہار کیا ہے۔ ذیل میں ہر شعر کی تشریح پیش کی گئی ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
تشریح
غالبؔ اس شعر میں فنِ تخلیق اور وجود کے فلسفے پر بات کرتے ہیں۔ نقش فریادی سے مراد تصویر یا خاکہ ہے جو کاغذ پر قید ہے اور شوخیِ تحریر سے مراد خالقِ حقیقی کی قدرت اور تخلیقی قوت ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز، ہر پیکر گویا خدا کی تحریر کا مظہر ہے اور ہر وجود کاغذ کی طرح نازک، غیر حقیقی اور فانی ہے۔ یعنی یہ کائنات اس قادرِ مطلق کے فن کی تصویر ہے جو اپنی طاقت کے مظاہر سے ایک ناپائیدار مگر حسین دنیا بنا دیتا ہے۔
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
تشریح
یہاں شاعر نے زندگی کی مشقت اور انسان کی تنہائی کا نقشہ کھینچا ہے۔ کاو کاو کا مطلب ہے مسلسل محنت اور جوئے شیر لانا ایک نہایت مشکل کام کی تمثیل ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زندگی ایک ایسی جدوجہد ہے جس میں صبح سے شام کرنا بھی جیسے شیر کا دودھ لانے کے برابر ہے۔ یہ شعر اس کرب، اکتاہٹ اور جدوجہدِ حیات کا مظہر ہے جو انسان کو روز مرہ زندگی میں سہنا پڑتا ہے۔
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
تشریح
یہ شعر عشق اور شوق کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر کوئی عشق یا شوق کے بے اختیاری جذبے کو دیکھنا چاہے تو دیکھے کہ جیسے تلوار کی جان اس کے نیام سے باہر ہوتی ہے۔ یعنی عاشق یا صاحبِ شوق اپنے ضبط سے باہر ہو جاتا ہے اس کے اندر کی تپش تلوار کے دھار کی طرح ظاہر ہو جاتی ہے۔ شوق کی یہی شدت انسان کو خطرات سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
تشریح
غالبؔ کہتے ہیں کہ چاہے ہم کتنے ہی علم، عقل اور شعور کے جال پھیلائیں مگر اصل حقیقت ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ مدعا عنقا ہے یعنی حقیقت ناپید ہے جیسے عنقا ایک فرضی پرندہ ہے جس کا وجود کہیں نہیں۔ گویا شعور، علم اور تقریر سب حقیقت کو پا لینے میں ناکام ہیں۔ یہ شعر انسانی عقل کی محدودیت اور وجود کی گہرائی پر فلسفیانہ اشارہ ہے۔
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
تشریح
غالبؔ یہاں اپنی فطرتِ بے چین اور زندہ دلی کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قید میں رہنے کے باوجود ان کے اندر آگ بھری ہوئی ہے ان کے پاؤں میں بھی آتشِ جوش و ولولہ ہے۔ موئے آتش دیدہ یعنی آگ سے گزرے ہوئے بال کی طرح ان کی زنجیر کے حلقے بھی ان کی حرارت سے پگھلنے لگے ہیں۔ اس میں غالبؔ کی انفرادی خودی، ان کا جوشِ حیات اور ان کی اندرونی تپش ظاہر ہوتی ہے۔
آتشیں پا ہوں گدازِ وحشتِ زنداں نہ پوچھ
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا
تشریح
یہ شعر پچھلے شعر کی توسیع ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں آتش قدم ہوں یعنی میرا جوش و اضطراب اس قدر ہے کہ قید کا سکون بھی پگھل گیا ہے۔ قید خانہ جسے سکون کی جگہ سمجھا جاتا ہے میری تپش سے بے قرار ہو گیا ہے۔ یہاں وحشت زنداں سے مراد شاعر کا وہ اضطراب ہے جو قید کے باوجود ختم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
شوخیِ نیرنگ صیدِ وحشتِ طاؤس ہے
دام سبزہ میں ہے پروازِ چمن تسخیر کا
تشریح
یہ شعر تخیل کی رنگینی اور فطرت کی دلکشی پر ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ حسن کی نیرنگی یعنی رنگا رنگی طاؤس (مور) کی وحشت کو بھی قید کر لیتی ہے۔ یعنی فطرت کا حسن اس قدر جادوئی ہے کہ خود آزاد پرندے بھی اس کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔ دامِ سبزہ یعنی سبزہ زار کا جال جس میں چمن کی سیر اور حسن کی محبت قید ہے۔ گویا حسن اپنی دلکشی سے خود آزادی کو بھی اسیر کر لیتا ہے۔
لذتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل
نعلِ آتش میں ہے تیغِ یار سے نخچیر کا
تشریح
یہاں شاعر عشق کی شدت اور معشوق کے ناز کا فلسفہ بیان کرتا ہے۔ معشوق کا نازاس کی بیگانگی اور عاشق کی قربانی ایک کھیل کی طرح ہے۔ نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا یعنی عاشق کے لیے محبوب کی تلوار سے مارا جانا بھی لذت بخش ہے۔ گویا عشق میں اذیت بھی لطف میں بدل جاتی ہے۔ یہ شعر عشقِ حقیقی اور جذبۂ تسلیم و رضا کا اعلیٰ مظہر ہے۔
خشتِ پشتِ دستِ عجز و قالبِ آغوشِ وداع
پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا
تشریح
یہ شعر فنا اور ناپائیداریِ حیات پر ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کی ہستی محض مٹی کی اینٹ ہے جو سیلِ فنا سے بہہ جاتی ہے۔ پیمانہ کس تعمیر کا اس کا مطلب ہے کہ یہ جسمانی دنیا کتنی عارضی ہے یہ وجود لمحوں میں مٹ جاتا ہے۔ گویا شاعر فنا کے فلسفے کو ایک خوبصورت تمثیل میں بیان کرتا ہے۔
وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسدؔ
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
تشریح
غالبؔ اس آخری شعر میں اپنے تخیل کے فلسفے کو سمیٹ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عدم (یعنی نیستی یا موت) کا خواب ہی زندگی کا سب سے بڑا تماشا ہے۔ انسان کی ساری جدوجہد اس کی خواہشیں سب اسی خوابِ عدم کی شور انگیز تعبیر ہیں۔ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا اس کا مطلب ہے کہ حقیقت خواب کی تعبیر میں نہیں بلکہ اس کے پسِ پردہ اسرار میں ہے۔ یعنی زندگی کی اصل حقیقت انسانی عقل سے ماورا ہے۔
یہ غزل غالبؔ کی فلسفیانہ، رمزیاتی اور وجدانی شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس میں کائنات کی تخلیق، زندگی کی جدوجہد، عشق کی تپش، عقل کی محدودیت اور فنا و بقا کے اسرار کو نہایت بلند اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کاغزل کا خلاصہ
مرزا غالبؔ کی یہ غزل اُن کی فکری گہرائی، فلسفیانہ مزاج اور تخیل کی بلندی کی نمائندہ ہے۔ اس غزل میں غالبؔ نے زندگی، کائنات، عقل، عشق اور انسان کی باطنی کیفیتوں کو نہایت لطیف اور گہرے انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ دنیا کو محض ایک عارضی اور خیالی وجود سمجھتے ہیں ایک ایسی تصویر جس کا وجود صرف کاغذ پر ہے یعنی سب کچھ فانی اور غیر حقیقی ہے۔ شاعر کے نزدیک انسان کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد ہے جس میں ہر دن اور ہر لمحہ ایک نئی آزمائش ہے۔ غالبؔ اس غزل میں عقل و علم کے محدود ہونے اور عشق کے لا محدود ہونے کا موازنہ بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خواہ انسان کتنا ہی علم حاصل کر لے حقیقت پھر بھی اس کی گرفت سے باہر رہتی ہے کیونکہ اصل حقیقت عقل سے نہیں بلکہ وجدان اور احساس سے سمجھی جا سکتی ہے۔ عشق انسان کے اندر ایک ایسی قوت ہے جو تلوار کی دھار کی طرح تیز، بے قابو اور زندگی بخش ہے۔
غزل کے آخر میں غالبؔ اپنے اندر کی بے قراری، قیدِ زندگی کی تپش اور روحانی بے چینی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ خود کو ایک ایسے قیدی کی طرح محسوس کرتے ہیں جس کے پاؤں تپتے ہیں مگر اسی آگ میں اس کی تخلیق، فکر اور زندگی کا حسن پوشیدہ ہے۔ یوں یہ غزل زندگی کی معنویت، حقیقت کی تلاش اور انسان کے اندر کے فلسفیانہ اضطراب کی مکمل ترجمان ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ غزل غالبؔ کے فکری جہان کی ایک گہری جھلک ہے جہاں عقل، عشق، فن اور فلسفہ سب ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔
مرزا غالبؔ کی شاعری کی خصوصیات
غالبؔ کی شاعری اردو ادب کی وہ قیمتی متاع ہے جس نے اردو زبان کو ایک نیا اندازِ فکر، نئی گہرائی اور ایک فلسفیانہ رنگ عطا کیا۔ مرزا اسداللہ بیگ خاں غالبؔ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے اور 15 فروری 1869 کو دہلی میں وفات پائی۔ ان کی شاعری نہ صرف الفاظ کا جادو ہے بلکہ فکر و فلسفہ کی ایک دنیا ہے۔ غالبؔ نے اپنی تخلیقی صلاحیت، طرزِ بیان اور ذہانت سے اردو شاعری کو محض جذباتی اظہار سے نکال کر عقل و شعور کی روشنی میں داخل کیا۔ ان کا مشہور شعر
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
ان کے منفرد اسلوب اور فکری انفرادیت کا بہترین مظہر ہے۔
غالبؔ کی شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیت طرفگیِ ادا اور جدتِ اسلوب ہے۔ وہ خیالات اور جذبات کو محض بیان نہیں کرتے بلکہ ان پر اپنی عقل و شعور کی روشنی ڈال کر ایک نیا زاویہ پیدا کرتے ہیں۔ اگر میرؔ کی شاعری میں سادگی، روحانی درد اور قلبی تڑپ کا اظہار ہے تو غالبؔ کے ہاں انہی جذبات پر دماغی غلبہ، فلسفیانہ شعور اور شعوری تجزیہ نظر آتا ہے۔ وہ صرف تڑپتے نہیں بلکہ تڑپ کو ایک فن بناتے ہیں دکھ کو سمجھ کر اس میں ایک لذت پیدا کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق، غم، زندگی، موت، جنت، دوزخ سب موضوعات عقل و وجدان کے حسین امتزاج کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کا یہ تماشا محض بازیچۂ اطفال ہے جہاں انسان آتا ہے، کھیلتا ہے اور پھر رخصت ہو جاتا ہے۔
غالبؔ نے اپنے فن کو نکھارنے کے لیے بیدلؔ، صائبؔ، عرفیؔ اور نظیریؔ جیسے فارسی اساتذہ سے استفادہ کیا لیکن وہ کسی ایک رنگ میں محدود نہیں رہے۔ انہوں نے فارسی کی پیچیدگی کو اردو کی نرمی اور سادگی کے ساتھ اس طرح جوڑا کہ ایک متوازن، دلکش اور نیا اسلوب پیدا ہوا۔ عشق کے مضامین کو بھی انہوں نے نئی گہرائی کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے اشعار میں نفسیاتی بصیرت، تخیل کی باریکی اور زبان کا موسیقیت بھرا حسن پایا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک عشق صرف جذباتی وابستگی نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی تجربہ ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں فلسفہ، تصوف اور رندی سب جمع ہیں۔ وہ دنیا کے دکھوں میں الجھنے کے بجائے ان سے ایک فلسفیانہ بے نیازی پیدا کرتے ہیں۔ یہی وہ انداز ہے جو انہیں میرؔ اور دیگر شعرا سے ممتاز بناتا ہے۔ ان کے اشعار میں عقل و عشق، روح و جسم، حقیقت و مجاز سب ایک دوسرے میں مدغم نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میرؔ کی شاعری دل کی صدائے درد ہے تو غالبؔ کی شاعری عقل و وجدان کا گہرا مکالمہ ہے۔
غرض کہ غالبؔ کی شاعری اردو ادب میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے ان پر قابو پایا اور شاعری کو محض احساس سے اٹھا کر فکر و فلسفہ کے درجے پر فائز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور