اسمعیل میرٹھی (1917-1844)
محمد اسمعیل میرٹھی کی پیدائش 1844ء میں میرٹھ میں ہوئی۔ اُنھیں بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ اسی شوق اور محنت کی وجہ سے وہ کم عمری میں ہی ملازمت کرنے لگے اورعلم وادب کی دنیا میں مشہور ہو گئے۔ وہ اردو اور فارسی کے استاد بھی تھے۔ انھوں نے بچوں کی پسند، ناپسند، شوق، اور دلچسپی کو بہت اچھی طرح سمجھا۔ اسی تجربے کی بنیاد پر انہوں نے بچوں کے لیے آسان نظمیں لکھیں اور اردو کی درسی کتابیں بنائیں۔ یہ کتابیں بچوں میں بہت مقبول ہوئیں اور آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ اسمعیل میرٹھی نے اپنی تحریروں میں آسان اور صاف زبان استعمال کی اور بچوں کے ذہن اور مزاج کا خاص خیال رکھا۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی اور اچھی باتیں سمجھاتے تھے۔ وہ آج بھی بچوں کے سب سے پسندیدہ اور اہم لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔
حمد کا خلا صہ
یہ نظم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مبنی ہے، جس میں شاعر اللہ کی عظیم قدرت، حکمت اور نعمتوں کا ذکر بڑے محبت بھرے انداز میں کرتا ہے۔ نظم کی ابتدا میں شاعر اللہ کی اس تعریف سے کرتا ہے کہ وہی ہے جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا زمین، آسمان، سورج، چاند، سب کچھ۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو بسنے کے قابل بنایا، اس میں خوبصورت درخت، پھول، پودے اور بیل بوٹے اُگائے اور انہیں سبز لباس پہنایا، یعنی فطرت کو دلکش بنایا۔ پھر اللہ نے سورج کے ذریعے روشنی اور گرمی عطا کی، جو زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ سورج اللہ کی مہربانی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔
اس کے بعد شاعر پرندوں کا ذکر کرتا ہے، جو قدرتی طور پر چہچہا کر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ یہ پرندے اللہ کی تخلیق کا حسین نمونہ ہیں۔ نظم میں آگے چل کر شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے ہمیں بے شمار نعمتیں ملی ہیں، اور اللہ نے ہی ہمیں ان نعمتوں کی قدر کرنا سکھایا ہے۔ آخر میں شاعر اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں اللہ کی کاریگری اور حکمت نظر آتی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کا کوئی بھی نظام بے مقصد یا فضول نہیں بنایا۔
خلاصہ یہ کہ
یہ نظم انسان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غور کرنے، ان کا شکر ادا کرنے اور اُس کی بڑائی بیان کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ شاعر بہت سادہ مگر پُراثر انداز میں ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کے وجود اور قدرت کی گواہی دیتی ہے۔
معروضی سوالات
سوال 1 ۔ اسمعیل میرٹھی کی پیدائش کہاں ہوئی؟
الف) دہلی
ب) لکھنؤ
ج) میرٹھ
د) علی گڑھ
جواب ۔ ج) میرٹھ
سوال 2 ۔ اسمعیل میرٹھی نے کس زبان میں درسی کتابیں لکھیں؟
الف) عربی
ب) انگریزی
ج) فارسی
د) اردو
جواب ۔ د) اردو
سوال 3 ۔ اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے کیسی زبان استعمال کی؟
الف) مشکل اور دقیق
ب) فلسفیانہ
ج) آسان اور سلیس
د) صرف فارسی
جواب ۔ ج) آسان اور سلیس
سوال 4 ۔ نظم “حمد” میں شاعر نے زمین کو کیسا کہا ہے؟
الف) بدصورت
ب) عجیب
ج) خوبصورت
د) اونچی
جواب ۔ ج) خوبصورت
سوال 5 ۔ شاعر نے سورج کو کیا کہا ہے؟
الف) اندھیرے کا ذریعہ
ب) آسمان کا چراغ
ج) روشنی اور گرمی کا ذریعہ
د) رات کا ستارہ
جواب ۔ ج) روشنی اور گرمی کا ذریعہ
سوال 6 ۔ شاعر کے مطابق چڑیاں کیا کر رہی ہیں؟
الف) سو رہی ہیں
ب) گانا گا رہی ہیں
ج) تسبیح پڑھ رہی ہیں
د) کھانا کھا رہی ہیں
جواب ۔ ج) تسبیح پڑھ رہی ہیں
سوال 7 ۔ شاعر کے مطابق بیل بوٹے کس چیز سے اُگے؟
الف) پانی
ب) پتھر
ج) مٹّی
د) ہوا
جواب ۔ ج) مٹّی
سوال 8 ۔ شاعر نے بیل بوٹوں کو کیا پہنایا؟
الف) سرخ لباس
ب) زرد رنگ
ج) سبز خلعت
د) نیلا آسمان
جواب ۔ ج) سبز خلعت
سوال 9 ۔ شاعر کے مطابق یہ کارخانہ کس نے بنایا؟
الف) انسان نے
ب) حکومت نے
ج) قدرت نے
د) خدا نے
جواب ۔ د) خدا نے
سوال 10 ۔ شاعر کے مطابق خدا نے نعمتیں کس سے عطا کیں؟
الف) غصے سے
ب) عادت سے
ج) رحمت سے
د) سزا کے طور پر
جواب ۔ ج) رحمت سے
سوال و جواب
سوال 1۔ شاعر نے بیل بوٹوں کو مٹّی سے اُگایا ہوا کیوں کہا ہے؟
جواب ۔
شاعر نے بیل بوٹوں کو مٹّی سے اُگایا ہوا اس لیے کہا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو نمایاں کر سکے۔ ایک سادہ سی چیز مٹّی جو بظاہر بے جان اور بے رنگ ہوتی ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ رنگ برنگے پھول، پتے، پودے اور بیلیں اُگاتا ہے۔ یہ سب مٹی میں سے پیدا ہو کر خوشنما شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ بات اللہ کی تخلیقی طاقت کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ بے جان چیزوں سے بھی ایسی خوبصورتی پیدا کر دیتا ہے جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اور دل کو خوش کرتی ہے۔ یہاں شاعر ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ قدرتی خوبصورتی کی اصل جڑیں مٹّی میں چھپی ہوئی ہیں، اور یہ سب اللہ ہی کے حکم سے ممکن ہے۔
سوال 2 ۔ سورج کو چشمہ کیوں کہا گیا ہے؟
جواب ۔
شاعر نے سورج کو “چشمہ” اس لیے کہا ہے کہ سورج روشنی اور گرمی کا مسلسل بہاؤ ہے، جیسے پانی کا چشمہ مسلسل بہتا ہے اور زندگی کو قائم رکھتا ہے۔ سورج بھی روشنی کا چشمہ ہے جو زمین کو روشن اور گرم رکھتا ہے۔ سورج کی وجہ سے دن اور رات کا فرق ہوتا ہے، فصلیں اگتی ہیں، پودے خوراک بناتے ہیںانسان اور جانور حرارت حاصل کرتے ہیں۔ اگر سورج نہ ہو تو زمین پر اندھیرا اور سردی چھا جائے اور زندگی ختم ہو جائے۔
شاعر نے سورج کو مہربان بھی کہا ہے کیونکہ یہ بغیر کسی بھید بھاؤ کے سب کو روشنی دیتا ہے انسان، جانور، پودے، غریب، امیر، سب کو یکساں۔
سوال 3 ۔ چڑیاں خدا کی تسبیح کیسے کرتی ہیں؟
جواب ۔
چڑیاں اللہ کی تسبیح اپنی فطری آوازوں، چہچہاہٹ، اور حرکات کے ذریعے کرتی ہیں۔ صبح سویرے جب چڑیاں چہچہاتی ہیں تو وہ اللہ کی حمد و ثنا کر رہی ہوتی ہیں، کیونکہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق عمل کر رہی ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں بھی ذکر ہے کہ ہر چیز اپنے طریقے سے اللہ کی تسبیح کرتی ہے، چاہے انسانوں کو وہ سمجھ نہ آئے۔ چڑیاں اپنی خوبصورت آوازوں کے ذریعے اللہ کی بڑائی کا اعلان کرتی ہیں اور یہ بھی ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہمیں بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
سوال 4 ۔ آخری شعر میں کارخانے سے کیا مراد ہے؟
جواب ۔
کارخانے سے مراد ہے اللہ کی بنائی ہوئی یہ پوری کائنات اور اس کا نظام۔ جیسے ایک کارخانے میں ہر چیز ایک ترتیب، مقصد اور حکمت سے بنائی جاتی ہے، ویسے ہی اللہ تعالیٰ نے بھی دنیا کو ایک بہتریننظام کے تحت بنایا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے یہ کارخانہ یعنی دنیا رائیگاں بےکار یا فضول نہیں بنایا، بلکہ ہر چیز آسمان، زمین، سورج، چاند، پرندے، درخت، انسان سب کا ایک خاص مقصد اور فائدہ ہے۔ یہ نظم ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم غور و فکر کریں کہ ہر شے کسی نہ کسی کام کے لیے پیدا کی گئی ہے، اور یہ سب اللہ کی حکمت، علم اور کاریگری کو ظاہر کرتا ہے۔
علمی کام
سوال 1 ۔ اس نظم کی روشنی میں نیچے دیے گئے مصرعے پر پانچ جملے لکھیے
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
جواب ۔
اللہ تعالیٰ وہ واحد ہستی ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا، اس لیے وہ تعریف کے لائق ہے۔
آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے اور ہر مخلوق اللہ کی قدرت کا مظہر ہیں۔
دنیا کی ہر چیز اللہ کی حکمت، علم اور عظمت کی گواہ ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اپنے رب کی تعریف اور شکرگزاری کریں۔
اس نظم کا آغاز اسی خوبصورت مصرع سے ہوتا ہے جو ہمیں اللہ کی عظمت یاد دلاتا ہے۔