NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 12 Aadmi ki kahani آدمی کی کہانی Solution

محمد مجیب 1902 میں لکھنؤ کی علمی فضا میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے علم کی روشنی ان کے گھر میں جگمگاتی رہی اور ابتدائی تعلیم یہیں گھر پر حاصل کی۔ 1918 میں سینیئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا اور اگلے ہی سال وکالت کی تعلیم کے لیے انگلینڈ کا رخ کیا۔ وہاں 1922 میں بی۔ اے آنرز مکمل کیا۔ لندن میں قیام کے دوران فرانسیسی اور لاطینی زبانوں سے دوستی کی، پھر برلن جا کر جرمن زبان میں بھی مہارت پیدا کی۔

وطن واپس لوٹے تو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1948 میں شیخ الجامعہ کا منصب سنبھالا اور برسوں کی خدمت کے بعد اسی منصب سے سبکدوش ہوئے۔ کتب بینی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ فنِ تعمیر، سنگ تراشی، مجسمہ سازی، مصوری، موسیقی اور باغبانی جیسے فنون بھی ان کی دلچسپی کا حصہ رہے۔ تاریخ نگاری ان کی علمی زندگی کا نمایاں پہلو تھی۔ ان کی مشہور تصانیف میں دنیا کی کہانی (1931)، تاریخِ فلسفہ سیاست (1936)، تاریخِ تمدن ہند(1957)  اور روسی ادب کی تاریخ دو جلدیں، (1960) شامل ہیں۔

ادب کے میدان میں انھیں خاص لگاؤ ڈراما نگاری سے تھا۔ انھوں نے آٹھ ڈرامے تحریر کیے، جن میں کھیتی، انجام، خانہ جنگی اور آزمائش جامعات کے نصاب کا حصہ بنے۔ بچوں کے لیے بھی ایک دلچسپ ڈراما آؤ ڈراما کریں لکھا۔ افسانہ نگاری میں کیمیا گر، باغی، چراغِ راہ اور پتھر قارئین کو بہت پسند آئے۔ ترجمہ نگاری میں بھی ان کا ہاتھ خاصا مضبوط تھا۔ قوم،علم اور ادب کے لیے ان کی طویل خدمات کے اعتراف میں حکومتِ ہند نے انھیں پدم بھوشن کا اعزاز عطا کیا۔

سائنس دانوں کے مطابق کبھی زمین ایک دہکتا ہوا آگ کا گولا تھی، لیکن یہ آگ عام آگ نہیں تھی بلکہ ایک عجیب سی توانائی تھی، جو خود ہی جلتی اور خود ہی بجھتی تھی۔ لاکھوں کروڑوں برس گزرے تو یہ آگ آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو گئی۔ بھاپ اور گیسیں پانی میں بدل گئیں، اور جو حصے سخت تھے وہ چٹانوں اور زمین کی شکل اختیار کر گئے۔ پھر ایک وقت آیا جب سمندر کی تہہ میں زندگی کا بیج پڑا۔ یہ بیج پھوٹا اور بے شمار سالوں میں مختلف روپ بدلتا رہا۔ پہلے پانی میں ننھے جاندار پیدا ہوئے، پھر پودے اور کیڑے مکوڑے۔ کچھ مچھلیاں اتھلے پانی میں آئیں اور پھر خشکی پر نکل آئیں۔ آہستہ آہستہ وہ پرندے بن کر آسمان میں اڑنے لگے اور چوپایوں کی شکل میں زمین پر دوڑنے لگے۔

ابتدائی زمانے میں کچھ جانور نہایت بڑے اور ڈراؤنے تھے چالیس فٹ لمبے مگرمچھ، بیس ہاتھ اونچے ہاتھی جیسے جانور، اور ایسے جاندار جن کی گردنیں اتنی لمبی تھیں کہ پرندوں کو اڑتے ہی پکڑ سکتے تھے۔ یہ بے ڈول مخلوق آخرکار ختم ہو گئی۔ ان کے بعد دودھ پلانے والے جانور آئے جو زیادہ سخت جان نکلے اور وقت کی سختیوں کو سہہ گئے۔ انھی میں سے ایک قسم بن مانسوں کی تھی۔ انہوں نے دو پیروں پر چلنا سیکھا، ہاتھوں سے پکڑنا اور چیزیں پھینکنا شروع کیا، اور قدرت نے انہیں پنجوں جیسے ہاتھ دیے۔ ان کی زبان کچھ کھلی اور عقل دوسرے جانوروں سے بڑھ گئی۔

زمین کے موسم کئی بار بدلے۔ کبھی برف کے دور آئے، جب بڑے بڑے برفانی پہاڑ ہر چیز کو روند ڈالتے تھے، اور کبھی گرمی واپس آئی۔ ان ادوار میں بن مانس مشکلات کا شکار ہوئے، لیکن انہوں نے کچھ اہم باتیں سیکھ لیں—آگ جلانا، گوشت بھوننا، اور پتھروں کو تراش کر ہتھیار بنانا۔ وقت کے ساتھ یہی بن مانس آہستہ آہستہ انسان میں بدل گئے۔ آج کا انسان انہی دور کے جانداروں کی اولاد ہے، لیکن ان کی پہلی اصل شکل ابھی تک سائنس کو پوری طرح معلوم نہیں ہو سکی۔

الف) پانی کا گولہ
ب) آگ کا گولہ
ج) زمین کا گولہ
د) ہوا کا گولہ

الف) سمندر بنے
ب) زمین پانی میں ڈوب گئی
ج) بھاپ اور گیسیں پانی میں بدلیں اور چٹانیں بنیں
د) جانور پیدا ہوئے

الف) خشکی پر
ب) سمندر کی تہہ میں
ج) ہوا میں
د) پہاڑوں پر

الف) چھوٹے کیڑے
ب) برنٹوسورس اور میکسلو سورس جیسے ڈایناسور
ج) پرندے
د) دودھ پلانے والے جانور

الف) وہ اڑ سکتے تھے
ب) وہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر پالتے تھے
ج) وہ پانی میں رہتے تھے
د) وہ سب سے چھوٹے ہوتے تھے

الف) پنجوں کی شکل دی
ب) پنکھ بنائے
ج) پاؤں کی جگہ پنجے بنائے
د) اپنے ہاتھ چھوڑ دیے

الف) ایک بار
ب) دو بار
ج) چار بار
د) دس بار

الف) لکھنا
ب) آگ جلانا
ج) گھومنا
د) پرندے پکڑنا

الف) کپڑے
ب) ہتھیار اور اوزار
ج) گھروں کی دیواریں
د) گاڑیاں

الف) جانوروں
ب) بن مانسوں
ج) پرندوں
د) مچھلیوں

زمین سے بڑے آگ کے گولے وہ آسمانی اجسام ہیں جیسے ستارے اور سیارے، جو لاکھوں کروڑوں سال سے آسمان میں چکر لگا رہے ہیں۔ یہ وہ آگ کی گولیاں ہیں جو زمین سے بہت بڑی اور قدیم ہیں۔ ہماری زمین بھی ایک وقت میں اسی آگ کے گولے میں شامل تھی۔ اس کے علاوہ زمین پر آتش فشاں پہاڑ ہوتے ہیں جو زمین کے اندر سے دہکتی ہوئی آگ نکالتے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ زمین کے اندر ابھی بھی آگ موجود ہے۔

 زمین کی عمر کا اندازہ زمین کی ساخت اور چٹانوں کے تجزیے سے لگایا جاتا ہے۔ سائنس دان زمین کی تہہ میں دفن قدیم پتھروں، دھاتوں اور جانوروں کی ہڈیوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان اشیاء میں پائے جانے والے کیمیائی عناصر اور ریڈیو ایکٹیو مواد کی مدد سے زمین کی عمر کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ یہ اندازے لاکھوں کروڑوں برسوں پر محیط ہوتے ہیں، جو انسانی عقل سے بہت بڑے دورانیے ہیں۔

زمین پر زندگی کی ابتدا سمندر کی گہرائیوں میں ہوئی، جہاں زندگی کا چھوٹا سا بیج پھوٹا۔ ہزاروں لاکھوں برسوں میں یہ زندگی مختلف شکلیں اختیار کرتی گئی۔ پانی میں موجود چھوٹے کیڑے مچھلیوں میں بدل گئے، جو پھر خشکی پر نکل کر رینگنے لگے۔ کچھ جانوروں نے پر بنا کر ہوا میں اڑنا سیکھا، اور کچھ چوپایوں کی صورت اختیار کر کے زمین پر دوڑنے لگے۔ زندگی نے سانس لینے اور پانی کے بغیر زندہ رہنے کے قابل ہونا سیکھا، جس سے زندگی نے اپنی وسعت بڑھائی۔

دودھ پلانے والے جانور اپنی اولاد کو دودھ پلانے کی وجہ سے زیادہ حفاظت کر سکے اور اپنی نسل کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے۔ ان جانوروں کے جسم میں ایسی خصوصیات پیدا ہوئیں جو موسم کی سختیوں اور دشمنوں سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوئیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں بچوں کی حفاظت کرتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی بقا کا امکان زیادہ تھا۔ اس لیے وہ بڑے، بے ڈول اور خوفناک جانوروں کی نسبت زیادہ دیر تک زندہ رہ سکے۔

جب زمین کی آب و ہوا شدید سرد ہو گئی اور برفانی پہاڑ زمین پر چھا گئے، تو بہت سے جانداروں کا برباد ہونا یقینی تھا۔ برف کے نیچے دب کر کئی اقسام کے جانور مر گئے یا اپنی زندگی کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وقت کے ساتھ جب زمین گرم ہوئی اور برف پگھلی تو زندگی نے دوبارہ ابھرنا شروع کیا۔ یہ سرد اور گرم ادوار چار مرتبہ آئے، جنہوں نے زمین کے ماحول اور جانداروں کی زندگی کو گہرائی سے متاثر کیا۔

آگ جلانا انسان کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ آگ کی مدد سے انسان سردی سے بچ سکتا تھا، خطرناک جانوروں کو دور رکھ سکتا تھا، اور کھانے کو پکانے لگا۔ اس نے گوشت کو بھون کر کھانا سیکھا، جس سے اس کا نظام ہضم بہتر ہوا۔ آگ سے روشنی اور حرارت ملی، جس سے رات کا وقت بھی مفید گزرا۔ اس کے علاوہ پتھروں کو گھس کر ہتھیار بنانا سیکھا، جو شکار اور حفاظت میں مددگار ثابت ہوئے۔ آگ نے انسان کی زندگی کو محفوظ، آسان اور بہتر بنایا۔

اس پیچیدہ مسئلے کو سمجھنا میرے کھوپڑی میں نہیں سما رہا۔

ہم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، لیکن ہر ایک کی سوچ مختلف ہے۔

اس نے موقع دیکھ کر اپنی بھیس بدل لی تاکہ کسی کو پہچانا نہ جائے۔

Scroll to Top