NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 13 mirza ghalib ghazal مرزا غالبؔ solution

مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کی پیدائش 1797 میں آگرہ میں ہوئی۔ جب وہ بہت چھوٹے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ پھر ان کے چچا نصر اللہ بیگ نے ان کی پرورش کی۔ شادی کے بعد غالب دہلی منتقل ہو گئے۔ دہلی کے علمی اور ادبی ماحول نے ان کے شاعری کے ذوق کو پروان چڑھایا۔ جلد ہی انہوں نے اپنی الگ پہچان بنائی اور اعلیٰ ادبی مقام حاصل کیا۔

غالب نظم اور نثر دونوں میں مہارت رکھتے تھے اور ان کا انداز بہت منفرد اور دلکش تھا۔ ان کے کلام کی خاص بات خیال کی بلندی، نئے موضوعات کا انتخاب اور شوخی تھی۔ ان کی شاعری میں انسان کی زندگی اور دنیا کے گہرے مسائل کا بیان ملتا ہے۔ غالب نہ صرف ایک بڑے سوچنے والے تھے بلکہ ایک بڑے فنکار بھی تھے۔ ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی لکھائی اور اندازِ اظہار بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

اگرچہ دیوانِ غالب میں تقریباً دو ہزار اشعار ہیں، لیکن وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے مشہور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے خطوط کا مجموعہ اور اردو معلّے اور عود ہندی نامی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ غالب کا انتقال 1869 میں ہوا۔

یہاں غالب کہہ رہے ہیں کہ دل و دماغ میں اب کوئی امید باقی نہیں رہی۔ جہاں بھی دیکھو، مشکلوں اور اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی ایسی خوشخبری یا روشنی کی کرن نظر نہیں آتی جو انسان کو زندگی کی تلخیوں سے باہر نکال سکے۔ یہ احساس ناامیدی کی عکاسی کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی حل یا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ “صورت” سے مراد حالات یا صورتِ حال ہے۔ یعنی حالات اتنے خراب اور پیچیدہ ہیں کہ مسئلے کا کوئی حل یا نکالنے کا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ زندگی کی الجھنوں کی نشاندہی ہے۔

یہاں وہ ایک سچائی بیان کر رہے ہیں کہ موت کا وقت ہر انسان کے لیے پہلے سے مقرر ہے۔ یہ قدرت کا فیصلہ ہے اور کوئی اسے نہیں بدل سکتا۔ اس شعر میں انسانی زندگی کی محدودیت اور موت کی یقینی حقیقت کا ذکر ہے۔ موت کی حقیقت کو جانتے ہوئے بھی انسان کے دل و دماغ میں بےچینی ہوتی ہے جس کی وجہ سے رات بھر نیند نہیں آتی۔ دل پریشان ہے، خیالات اداس اور مایوس کن ہیں۔ نیند کا نہ آنا اس بےچینی اور فکر کی علامت ہے۔

ماضی کی بات کرتے ہوئے غالب کہتے ہیں کہ پہلے جب دل کے حالات خراب ہوتے تھے تو کبھی کبھی اس پر ہنسی بھی آ جاتی تھی۔ یعنی دل کی الجھنوں کو ہنس کر یا مزاح سے برداشت کیا جاتا تھا۔ دکھ میں بھی کبھی خوش مزاجی یا ہنسی آ جاتی تھی، جو دل کو تھوڑی راحت دیتی تھی۔ اب وہ حالت نہیں رہی۔ دل اس قدر اداس اور مغموم ہے کہ کوئی بھی بات خوشی یا ہنسی کا باعث نہیں بنتی۔ حالات سنجیدہ اور دردناک ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے دل کبھی خوش نہیں ہو پاتا۔

غالب کہتے ہیں کہ دل میں ایسی کوئی بات ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش ہیں۔ شاید دل کی کوئی تکلیف یا راز ہے جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ دل کچھ کہنے کو ہے مگر حالات یا اندرونی وجوہات کی بنا پر چپ ہیں۔ اگر موقع ملے تو غالب بات کرنے سے نہیں گھبراتے۔ گفتگو کرنے میں کوئی مشکل نہیں۔ لیکن اس وقت وہ چپ ہیں کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو زبان پر لانا آسان نہیں ہوتا۔

یہ شعر خود احتسابی کا اظہار ہے۔ غالب اپنے گناہوں اور کمزوریوں پر شرمندگی کا احساس کرتے ہیں اور خود سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کیسے مقدس جگہ کعبہ جا سکتے ہیں؟ یعنی گناہوں اور کمیوں کے ساتھ عبادت گاہ جانے پر شرمندگی ہونی چاہیے۔ لیکن ایک عجیب بات ہے کہ وہ خود اپنے گناہوں کے باوجود شرم محسوس نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو جانتے ہوئے بھی دلیر ہیں، یا شاید اس بات کا اظہار ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں اور دنیا کی حقیقتوں سے لڑتے رہتے ہیں بغیر شرمندہ ہوئے۔

مرزا غالب اس غزل میں انسان کی زندگی کی ایک ایسی حالت بیان کر رہے ہیں جس میں امید ختم ہو چکی ہو اور زندگی کے مسائل بہت زیادہ ہوں۔ دل و دماغ میں ایسی بےچینی اور اداسی ہو کہ کوئی سکون نہ ملے، نہ کوئی روشنی دکھائی دے۔ موت کی حقیقت کو جانتے ہوئے بھی انسان کی نیند اڑ جاتی ہے کیونکہ دل میں بہت سا غم اور فکر ہے۔ پہلے دل کی حالت پر ہنسی بھی آ جاتی تھی جو دکھوں کو برداشت کرنے میں مدد دیتی تھی، مگر اب وہ کیفیت ختم ہو چکی ہے اور ہر بات سنجیدہ ہو گئی ہے۔ غالب اپنی چپ رہنے کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں کہ دل میں ایسی بات ہے جو کہنی مشکل ہے۔

آخر میں وہ اپنے نفس کی خود شناسی کرتے ہیں کہ اتنے گناہوں اور کمزوریوں کے ساتھ وہ کیسے مقدس کعبہ جا سکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ اپنی بےباکی کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گناہوں پر شرم نہیں آتی، یعنی وہ اپنی کمزوریوں کے باوجود ہمت نہیں ہارتے اور زندگی کا سامنا کرتے ہیں۔

یہ غزل انسانی دل کی گہرائیوں، امید کی کمی، بےچینی، اور نفس کی خود شناسی کا حسین اور درد بھرا اظہار ہے۔ غالب نے بڑے خوبصورت انداز میں دکھایا ہے کہ انسان کی زندگی میں مایوسی اور تسلیم کا کیا مقام ہوتا ہے، اور وہ اپنی کمزوریوں کے باوجود کیسے اپنے رب سے رابطہ قائم رکھتا ہے۔

الف) دہلی
ب) لکھنؤ
ج) آگرہ
د) لاہور

الف) والد
ب) چچا نصر اللہ بیگ
ج) دادا
د) والدہ

الف) لکھنؤ
ب) آگرہ
ج) دہلی
د) حیدرآباد

الف) صرف نظم
ب) صرف نثر
ج) نظم اور نثر دونوں
د) صرف غزل

الف) خیال کی بلندی، مضمون آفرینی اور شوخی
ب) صرف خیال کی بلندی
ج) صرف شوخی
د) صرف مضمون آفرینی

الف) پانچ ہزار سے زیادہ
ب) تقریباً دو ہزار
ج) دس ہزار
د) ایک ہزار سے کم

الف) اردو معلّے اور عود ہندی
ب) دیوان غالب
ج) خطوط غالب
د) خطوط کی کتاب

الف) امیدوں کا پورا ہونا
ب) کوئی امید نظر نہیں آتی
ج) نئی امید کا آنا
د) غم کا ختم ہونا

الف) خوشی کی وجہ سے
ب) فکر اور بےچینی کی وجہ سے
ج) تھکن کی وجہ سے
د) بیماری کی وجہ سے

الف) شرم آتی ہے اور نہیں جانا چاہیے
ب) بغیر شرم کے جانا چاہیے
ج) کعبہ نہیں جانا چاہیے
د) شرم نہیں آتی لیکن جانا چاہیے

کوئی صورت نظر نہیں آتی” کا مطلب ہے کہ حالات یا مسئلے کا کوئی حل یا راستہ نظر نہیں آتا۔ یہاں “صورت” کا مطلب ہے حالات یا حالتِ زندگی۔ شاعر کا کہنا ہے کہ زندگی کے مسائل اتنے پیچیدہ اور مشکل ہو چکے ہیں کہ ان سے نکلنے کا کوئی ذریعہ یا حل دکھائی نہیں دیتا۔ یہ جملہ مایوسی اور بے بسی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں انسان کو ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف اندھیرا ہے اور کوئی روشنی یا راستہ نہیں مل رہا۔

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

یہ شعر پہلے شعر “کوئی امید بر نہیں آتی” کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس میں شاعر بیان کر رہا ہے کہ نہ صرف امید ختم ہو گئی ہے بلکہ زندگی کے حالات یا مسائل کا کوئی حل بھی سامنے نہیں آ رہا۔ یعنی ہر طرف بے چارگی، الجھن اور مشکلیں چھائی ہوئی ہیں۔ زندگی میں ایسا وقت آ جاتا ہے جب ہر راستہ بند لگتا ہے اور دل میں سکون یا راہ کی کوئی جھلک نہیں ہوتی۔

کعبہ اسلام میں سب سے مقدس جگہ ہے جہاں ہر مومن جانے کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن شاعر مرزا غالب اپنی کمزوریوں، گناہوں اور خطاؤں کے پیش نظر خود کو اس مقام کے لیے ناہل اور شرمندہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنے گناہ کرنے کے باوجود کیسے مقدس جگہ کعبہ جا سکتا ہوں؟ یہ ایک طرح کی خود احتسابی اور شرمندگی ہے جو انسان اپنے گناہوں پر محسوس کرتا ہے۔
اس کے ساتھ یہ شعر انسان کی اندرونی کشمکش اور اپنی کمزوریوں کو قبول کرنے کا اظہار بھی ہے۔ غالب یہاں انسان کی نفسیات کی ایک گہرائی کو بیان کر رہے ہیں جہاں وہ اپنے اعمال پر شرمندہ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اپنی اصلاح کی امید رکھتا ہے۔

آتی
آتی
معین ہے
آتی
ہنسی
آتی
چُپ ہوں
آتی
غالبؔ
آتی

Scroll to Top