رتن سنگھ 1927
رتن سنگھ 1927 میں قصبہ داؤد، تحصیل نارووال، ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایک مقامی اسکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے۔ 1962 میں وہ آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام ایکزیکیٹو کے طور پر کام کرنے لگے۔ اپنی ملازمت کے دوران انہوں نے جالندھر، بھوپال، لکھنو، جبل پور اور سری نگر جیسے شہروں میں رہائش اختیار کی۔
رتن سنگھ کو بچپن سے کہانیاں لکھنے کا بہت شوق تھا اور طالب علمی کے دوران وہ افسانے لکھنے لگے۔ جلد ہی وہ ایک مشہور افسانہ نگار بن گئے۔ ان کے مشہور افسانوی مجموعے “پہلی آواز”، “پنجرے کا آدمی”، “کاٹھ کا گھوڑا” اور “پناہ گاہ” شامل ہیں۔ ان کے دو ناولٹ “در بدری” اور “اڑن کھٹولہ” بھی شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک طویل سوانحی نظم”ہڈ بیتی”اردو اور پنجابی زبان میں لکھی ہے۔ رتن سنگھ مترجم کے طورپر بھی جانے جاتے ہیں۔
کاٹھ کا گھوڑا کا خلاصہ
کہانی “کاٹھ کا گھوڑا” میں بندو کی حالت ایک گہرے دکھ اور مایوسی کی تصویر پیش کرتی ہے۔ بندو کا ٹھیلا اتنا بھاری ہے کہ وہ اسے آگے نہیں کھینچ پا رہا، جس کی وجہ سے سڑک پر کئی گاڑیاں، تانگے، رکشے پھنس گئے ہیں۔ ان گاڑیوں میں بیٹھے وزیر، کاروباری لوگ، فوجی، ڈاکٹر، اسکول کے بچے، اور عام لوگ سب اپنی اپنی مصروفیات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی جلدی میں ہے، مگر بندو کی سست رفتاری کی وجہ سے سب کا کام رکا ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی فرد یا چیز اپنی جگہ ٹھہر جائے تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ بندو کی ماضی کی یادیں بھی اس کہانی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ بچپن میں جب اس نے کاٹھ کا گھوڑا خریدا تھا تو اسے اپنے اس کھلونے پر فخر تھا، لیکن دوسرے بچوں کے پاس تیز رفتار اور جدید کھلونے تھے، جو اس کے گھوڑے کو بے جان اور بے کار ثابت کرتے تھے۔ یہ موازنہ بندو کی زندگی کی حالیہ صورتحال سے ملتا ہے کہ جس طرح اس کا گھوڑا آگے نہیں بڑھ سکا، ویسے ہی وہ خود بھی زندگی میں پیچھے رہ گیا۔
بندو کی زندگی میں مشکلات کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے بیٹے چندو نے اسکول جانا بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ گھر کے خرچے پورے نہیں کر پاتا۔ بندو کا دل ٹوٹتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھانے سے قاصر ہے۔ اس کی تھکن اور مایوسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ سوچنے لگا ہے کہ شاید وہ اس ٹھیلے کو چھوڑ دے۔ یہ کہانی ہمیں معاشرتی اور اقتصادی فرق، انسانی کمزوری، اور زندگی کی جدوجہد کی ایک سچی تصویر دکھاتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ بعض لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کے لیے آگے بڑھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بندو کا “کاٹھ کا گھوڑا” ایک علامت ہے ان لوگوں کی جن کی زندگی میں مشکلات اتنی زیادہ ہو جائیں کہ وہ اپنے راستے پر چل نہ سکیں اور پورے معاشرے کی رفتار کو بھی روک دیں۔
آخر میں، بندو کا وہ گھوڑا جسے بچپن میں اس نے بڑے فخر سے لیا تھا، آج اس کی ناامیدی اور بے بسی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم سب کو معاشرے میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے تاکہ کوئی بھی زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے اور سب کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔
معروضی سوالات
سوال 1۔ رتن سنگھ کہاں پیدا ہوئے تھے؟
الف) جالندھر
ب) قصبہ داؤد، تحصیل نارووال
ج) سیالکوٹ شہر
د) لکھنو
جواب۔ ب) قصبہ داؤد، تحصیل نارووال
سوال 2۔ رتن سنگھ نے اپنی تعلیم کہاں تک حاصل کی؟
الف) میٹرک
ب) بی اے
ج) ایم اے
د) ایف ایس سی
جواب۔ الف) میٹرک
سوال 3۔ رتن سنگھ نے 1962 میں کہاں کام شروع کیا؟
الف) اخبار میں
ب) ٹی وی چینل میں
ج) آل انڈیا ریڈیو میں
د) سکول میں
جواب۔ ج) آل انڈیا ریڈیو میں
سوال 4۔ بندو کا ٹھیلا کیوں رک گیا تھا؟
الف) ٹھیلا خراب ہو گیا تھا
ب) ٹھیلے پر زیادہ بوجھ تھا اور راستہ چڑھائی والا تھا
ج) بندو بیمار تھا
د) راستہ صاف تھا
جواب۔ ب) ٹھیلے پر زیادہ بوجھ تھا اور راستہ چڑھائی والا تھا
سوال 5۔ بندو کے ٹھیلے کی وجہ سے کون سی جگہ بند ہو گئی تھی؟
الف) اندھیر دیو کے تنگ بازار
ب) شہر کا مین گیٹ
ج) ریلوے اسٹیشن
د) اسکول کا راستہ
جواب۔ الف) اندھیر دیو کے تنگ بازار
سوال 6۔ بندو کا ٹھیلا کیا چیز سے تشبیہ دیا گیا ہے؟
الف) بے جان کاٹھ کا گھوڑا
ب) تیز رفتار گاڑی
ج) بھاری بوجھ والا ریل گاڑی
د) خوش حال گھوڑا
جواب۔ الف) بے جان کاٹھ کا گھوڑا
سوال 7۔ بندو کے بچے چندو نے اسکول جانا کیوں چھوڑ دیا تھا؟
الف) اس کے پاس وقت نہیں تھا
ب) ضرورت کی چیزیں جمع نہ کر پانے کی وجہ سے
ج) اسکول بند ہو گیا تھا
د) اس نے تعلیم چھوڑنی چاہی
جواب۔ ب) ضرورت کی چیزیں جمع نہ کر پانے کی وجہ سے
سوال 8۔ بندو نے اپنے کاٹھ کے گھوڑے کو کب جلایا تھا؟
الف) بچپن میں میلے سے لانے کے بعد
ب) اسکول کے آخری دن
ج) جب اس کا ٹھیلا خراب ہوا
د) جب وہ بیمار تھا
جواب۔ الف) بچپن میں میلے سے لانے کے بعد
سوال 9۔ بندو کے ٹھیلے کی وجہ سے سڑک پر کونسی گاڑیاں پھنس گئیں؟
الف) بسیں، ٹرک، تانگے، رکشے
ب) صرف موٹر سائیکل
ج) کاریں اور ٹرین
د) بسیں اور سائیکل
جواب۔ الف) بسیں، ٹرک، تانگے، رکشے
سوال 10۔ بندو نے دوسروں کو کیا مشورہ دیا جب اسے ہارن بجانے والے غصہ کرنے لگے؟
الف) تیز چلنے کو کہا
ب) اپنے پیروں میں پہیے لگوانے کو کہا
ج) ٹھیلہ چھوڑنے کو کہا
د) راستہ بدلنے کو کہا
جواب۔ ب) اپنے پیروں میں پہیے لگوانے کو کہا
سوال و جواب
سوال 1۔ بندو کو کاٹھ کا گھوڑا کیوں کہا گیا ہے؟
جواب۔
بندو کو کاٹھ کا گھوڑا اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے ٹھیلے کو کھینچنے میں بہت سست اور بے جان محسوس ہوتا ہے۔ اس کا ٹھیلا بہت زیادہ بوجھ سے بھرا ہوا ہے اور چڑھائی والے راستے کی وجہ سے آگے بڑھنا اس کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ اسی طرح جیسے کاٹھ سے بنا ہوا گھوڑا جو خود حرکت نہیں کر سکتا، بندو بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ یہ تشبیہ بندو کی زندگی کی مشکلات اور اس کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔
سوال 2۔ بندو کی سست رفتاری کا اثر کن کن لوگوں پر پڑا؟
جواب۔
بندو کی سست رفتاری کی وجہ سے سڑک پر کئی گاڑیاں اور رکشے پھنس گئے ہیں جن میں وزیر، بڑے کاروباری سیٹھ، کارخانے دار، فوجی، پولیس والے، دفتری افسر، دوکاندار، ڈاکٹر، نرس، انجینئر، اسکول اور کالج کے بچے شامل ہیں۔ سب اپنی اپنی مصروفیات میں پھنس کر پریشان ہیں۔ بندو کی سست رفتاری نے پورے شہر کی ٹریفک کو روک دیا ہے، جس کی وجہ سے ملک کی معاشی اور سماجی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
سوال 3۔ وزیر کی بے چینی کا سبب کیا تھا؟
جواب۔
وزیر اس لیے بے چین تھا کیونکہ اسے کسی غیر ملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آ رہا تھا اور راستہ بند ہونے کی وجہ سے وہ مقررہ وقت پر اپنی ملاقات میں پہنچنے سے قاصر تھا۔ اس کی وجہ سے وزیر کی ملاقات کا شیڈول خراب ہونے کا خدشہ تھا، جس کی وجہ سے وہ پریشان اور گھڑی بار بار دیکھ رہا تھا۔
سوال 4۔ کاروباریوں کے لیے پل کے معنی لاکھوں کے گھاٹے کے کیوں ہیں؟
جواب۔
کاروباری سیٹھوں کے لیے ہر گزرتا ہوا پل مالی نقصان کی علامت ہے کیونکہ ان کی کامیابی اور منافع کا دارومدار وقت کی پابندی اور کاروباری سرگرمیوں کی رفتار پر ہوتا ہے۔ جب بندو کے ٹھیلے کی وجہ سے سڑک پر گاڑیاں پھنس جاتی ہیں تو کاروباری لین دین رکتے ہیں، اور انہیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے لیے وقت کی قدر بہت زیادہ ہے اور ہر لمحہ ان کے لیے مالی خسارہ ہے۔
سوال 5۔ چندو کے بارے میں بندو کے ذہن میں کیا خیال آیا؟
جواب۔
بندو کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ اس کا بیٹا چندو اسکول جانا چھوڑ چکا ہے کیونکہ وہ گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسے جمع نہیں کر پاتا۔ بندو کو اس بات کا بہت افسوس ہے اور وہ دکھی ہے کہ جب خود اپنی زندگی کے بوجھ کو صحیح طریقے سے اٹھا نہیں سکتا تو پھر اپنے بیٹے کے بوجھ کو کیسے سنبھالے گا۔ یہ سوچ بندو کی ذہنی کرب اور زندگی کی سختی کو ظاہر کرتی ہے۔
سوال 6۔ پیروں میں پہیئے لگوانے سے بندو کی کیا مراد تھی؟
جواب۔
بندو نے کہا کہ جو لوگ اتنی تیزی سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ اپنے پیروں میں پہیے لگوا لیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ خود بہت کمزور اور سست ہے، اس لیے وہ دوسروں کی تیز رفتاری کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ یہ جملہ بندو کی اپنی کمزوری، مایوسی اور معاشرتی فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یا تو وہ بھی تیز ہو جائے یا پھر وہ اپنی جگہ پر رکا رہے، کیونکہ اس کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کی رفتار کے برابر چل سکے۔
سوال ۔ نیچے دیے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیں
قطار — گاڑیوں کی لمبی قطار سڑک پر رک گئی تھی۔
رفتار — بندو کی رفتار بہت سست تھی۔
کیفیت — بندو کی کیفیت بہت اداس تھی۔
فخر — وہ اپنے کاٹھ کے گھوڑے پر بڑا فخر کرتا تھا۔
دشوار — ٹھیلا کھینچنا بندو کے لیے بہت دشوار ہو گیا تھا۔
حرکت — بندو کے ٹھیلے میں حرکت نہیں ہو رہی تھی۔
سوال ۔ نیچے دیے ہوئے لفظوں سے خالی جگہوں کو بھریے
حرکت ، سوانگ ، رفتار، ساکت ، شخصیت
سوال 1۔ ساری دنیا کی رفتار دھیمی پڑ گئی۔
سوال 2۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا ساکت بے جان تھا۔
سوال 3۔ اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے بیچ پھنسا کر دوڑنے کا سوانگ کیا تھا۔
سوال 4۔ وہ بے جان کاٹھ کا گھوڑا اس کی شخصیت سے چپک کر رہ گیا تھا۔
سوال 5۔ اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
سوال ۔ نیچے دیے ہوئے جملوں میں زمانے کی نشان دہی کیجیے
سوال 1۔ احمد کل آیا تھا۔ (ماضی)
سوال 2۔ موہن بازار سے لوٹ آیا ہے۔ (حال)
سوال 3۔ سردی کا زمانہ کب آئے گا۔ (مستقبل)
سوال 4۔ گرمی کا موسم جا رہا ہے۔ (حال)
سوال 5۔ ہم عید کے دن ملیں گے۔ (مستقبل)