NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 2 betakallufi بے تکلّفی Solutions

کنھیا لال کپور 1910 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہیں انہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور انگریزی کے اُستاد بن گئے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ ہندوستان آگئے اور پنجاب کے شہر موگا میں واقع گورنمنٹ کالج میں پرنسپل کے طور پر کام کرنے لگے۔ ان کا انتقال بھی یہیں 1980 میں ہوا۔ کنھیا لال کپور کا اصل میدان طنز و مزاح تھا۔ وہ پیروڈی (مزاحیہ نقل) لکھنے میں بہت ماہر تھے۔ وہ روزمرہ زندگی کے عام واقعات سے ہنسی مذاق پیدا کر لیتے تھے، یہی ان کی پہچان تھی۔

انکی مشہورکتابوں میں شامل ہیں نوکِ نشتر، بال و پر،نرم گرم،گردِ کارواں، نازک خیالیاں، نئے شگوفے، سنگ و خشت، شیشہ و تیشہ اور کامیڈین شیخ چِلّی۔

مصنف نے اس طنزیہ و مزاحیہ مضمون میں بے تکلّفی کی صورت میں انسانی تعلقات میں پیدا ہونے والی بے ادبی، بدتمیزی اور حد سے بڑھی ہوئی آزادی کو بڑے دلچسپ اور ظریفانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ شروع میں مصنف استاد ذوقؔ کے شعر کا حوالہ دیتے ہیں
اے ذوق، تکلّف میں ہے تکلیف سراسر
اور طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ اگر تکلّف میں تکلیف ہے تو بے تکلّفی میں بھی کوئی راحت نہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو تکلّف کی شائستگی اور تہذیب، بے تکلّفی کے مقابلے میں کہیں بہتر اور آسان ہوتی ہے۔

مصنف نے بے تکلّفی کی کئی دلچسپ اور مزاحیہ مثالیں دی ہیں

مہمان نوازی کا تکلّف
اگر مہمان سے تکلّف کیا جائے تو وہ ہر چیز سے انکار کرتا ہے، لیکن بے تکلّفی کی صورت میں وہ چائے کے ساتھ حلوہ، آم لیٹ، سنبوسے، رول اور کیک سب کچھ مانگ لیتا ہے، اور جلدی لانے کی تاکید بھی کرتا ہے۔

بدتمیزی بھری بے تکلّفی
ایک شخص دروازہ توڑنے کے انداز میں دستک دیتا ہے، گالیاں دیتا ہے، اور کمرے میں داخل ہو کر کہتا ہے معاف کیجیے گا، ان سے میری بے تکلّفی ہے۔
بعض تو دوستوں کے ساتھ گالی گلوچ کرتے ہوئے بھی “معذرت” کر کے سب جائز کر لیتے ہیں۔

ذاتی چیزوں پر قبضہ
ایک دوست ہر ملاقات پر قمیض مانگ کر لے جاتا ہے، دوسرا پورے کے پورے کپڑے، اور جاتے وقت نوکر سے کہہ جاتا ہے کہ فلاں چیزیں میں لے جا رہا ہوں، بعد میں واپس کر دوں گا۔

بازار میں بغلگیری
ایک دوست بار بار بازار کے بیچ میں بغلگیر ہوتا ہے، اتنی گرمجوشی سے کہ لوگ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں، حالانکہ دو دن پہلے بھی ایسی ہی گرمجوشی دکھا چکا ہوتا ہے۔

حد سے بڑھی ہوئی آزادی
بے تکلّف دوست آپ کے گھر آدھی رات کو آ کر سونا، کھانا اور ہر چیز مانگ لیتے ہیں۔ مذاق میں مونچھیں کاٹ دینا، دریا میں دھکا دینا، یا ٹکٹ پھاڑ دینا ان کے لیے عام بات ہوتی ہے۔ مصنف کہتے میں

تکلّف ایک شائستہ اور نفیس رویہ ہے جو فاصلہ رکھ کر تعلقات کو عزت دیتا ہے۔

بے تکلّفی اگر حد سے بڑھ جائے تو وہ بدتمیزی، زبردستی اور ذہنی اذیت بن جاتی ہے۔

مصنف آخر ہیں

!تکلّف اگر ‘پہلے آپ’ ہے تو بے تکلّفی ‘پہلے ہم، اور جہنم میں جائیں آپ

اور آخر میں طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر استاد ذوقؔ کو کبھی بے تکلّف دوستوں سے واسطہ پڑا ہوتا تو وہ کبھی نہ کہتے کہ تکلّف میں سراسر تکلیف ہے۔

یہ مضمون ہمیں سکھاتا ہے کہ تعلقات میں حد اور تہذیب ضروری ہے۔ بے تکلّفی اگرچہ محبت کی علامت ہو سکتی ہے، لیکن جب وہ حدود پار کر جائے تو مزاحمت، شرمندگی اور تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔ تکلّف انسان کو شائستہ اور باوقار رکھتا ہے۔

الف) رومانوی نظم

ب) سوانح عمری

ج) طنز و مزاح

د) تاریخ نویسی

بے تکلفی اگرچہ دوستی، محبت یا قریبی تعلق کی علامت سمجھی جاتی ہے، لیکن اگر وہ حد سے بڑھ جائے تو کئی پریشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بے تکلف لوگ اکثر ذاتی حدیں پار کر لیتے ہیں۔ وہ وقت بے وقت آ جاتے ہیں، زیادہ مطالبات کرتے ہیں، بدتمیزی سے پیش آتے ہیں، اور بعض اوقات ایسے کام کر جاتے ہیں جن سے شرمندگی یا تکلیف ہوتی ہے۔

کوئی دوست بغیر اجازت دروازہ پیٹ پیٹ کر کھولنے کا کہے

بازار کے بیچ کئی بار گلے لگے

کھانے پینے کی چیزیں لمبی فہرست کے ساتھ مانگے

یا مذاق کے نام پر مونچھیں کاٹ دے، ٹکٹ پھاڑ دے، یا دریا میں دھکا دے دے۔

یہ سب حرکات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بے تکلفی اگر تہذیب اور حدود سے خالی ہو جائے تو وہ دوسروں کے لیے باعثِ زحمت بن جاتی ہے۔

انگریزی ادیب تھیکرے کا ایک کردار ایسا ہے جو جہاں بھی اپنے کسی دوست کے پاس ٹھہرتا ہے، جاتے وقت اس سے قمیض مانگ لیتا ہے۔

مصنف نے اس بات کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے ذکر کیا کہ اُن کا ایک اپنا دوست تو تھیکرے کے کردار سے بھی زیادہ بے تکلف ہے۔ وہ قمیض پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ پوری پوشاک کا مطالبہ کرتا ہے۔

یہ دوست

ٹیکسی میں آ کر کہتا ہے کہ “پانچ روپے دو، ڈرائیور کو پیسے دینے ہیں۔”

اور رخصت ہوتے وقت نوکر سے کہتا ہے صاحب سے کہہ دینا، میں ان کا گرم کوٹ، خاکی ٹائی اور کالی پتلون لے جا رہا ہوں، چند دن بعد واپس کر دوں گا۔

یہ مثالیں یہ دکھاتی ہیں کہ بے تکلفی بعض اوقات ذاتی فائدے اٹھانے کا ذریعہ بن جاتی ہے اور بدتمیزی میں بدل جاتی ہے۔

اس مصرعے میں استاد ذوقؔ کہہ رہے ہیں کہ تکلّف کرنا یعنی رسمی اور باادب انداز اختیار کرنا، سراسر تکلیف دہ ہوتا ہے۔
یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بہت زیادہ ادب، لحاظ یا رسم و رواج کی پابندی، انسان کو بے تکلف بات یا برتاؤ کرنے سے روک دیتی ہے، جو بعض اوقات بوجھ بن جاتا ہے۔

لیکن مصنف اس شعر سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ تکلّف میں تھوڑی سی “ظاہری” تکلیف ہو سکتی ہے، لیکن وہ بہتر ہے، کیونکہ اس میں نرمی، شائستگی اور عزت ہوتی ہے۔ جبکہ بے تکلّفی میں لوگ زبان، رویے اور حرکات میں حدود کو پار کر جاتے ہیں، جو دوسروں کو زبردست ذہنی، جسمانی یا اخلاقی تکلیف دے سکتے ہیں۔

لہٰذا مصنف کا طنزیہ جملہ ہے

!اگر استاد ذوقؔ کو کبھی بے تکلف دوستوں سے واسطہ پڑا ہوتا تو وہ یہ مصرع کبھی نہ کہتے

اُستاد نے ایسی ترکیب بتائی کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور کام بھی ہو گیا۔

پولیس نے چور کو ایسی مار ماری کہ اُسے چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔

اتنا خوبصورت منظر دیکھ کر سب نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔

جمعواحدالفاظ
ہاتھیںہاتھ
نشاننشانات 
جوتیاںجوتی
ٹوپیٹوپپاں 
فرائض فرض
احساناحسانات 
سوالات سوال
جنگلات جنگل
جوابجوابات 
منزلیں منزل

Scroll to Top