NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 22 qadum bdhao doston قدم بڑھاؤ دوستو solution

بشر نواز کا اصل نام بشارت نواز خاں تھا۔ وہ اورنگ آباد میں پیدا ہوئے اور وہاں تعلیم حاصل کی۔ وہ 1960 کے بعد کے وقت کے شاعروں میں سے تھے۔ اس دور کے شاعروں پر جدید انداز کا اثر تھا، لیکن بشر نواز نے روایتی شاعری میں بھی دلچسپی رکھی۔ اسی وجہ سے ان کی زبان پر گرفت مضبوط تھی اور ان کی شاعری میں نیا انداز اور کلاسیکی رنگ دونوں شامل تھے۔ وہ زیادہ تر غزل کے شاعر تھے، لیکن نظم گو شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے دو مشہور مجموعے “رائیگاں” اور “اجنبی سمندر” ہیں۔

نظم میں شاعر دوستوں کو حوصلہ دیتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور زندگی کے سفر کو خوش دلی اور امید کے ساتھ طے کریں۔
قدم بڑھاؤ دوستو کا مطلب ہے کہ ہمت اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھو کیونکہ منزلیں دور سے بلارہی ہیں یعنی کامیابی اور خوشیاں آپ کے قریب ہیں۔
شاعر بتاتا ہے کہ راستے روشن اور صاف ہیں، یعنی مشکلات ختم ہو رہی ہیں اور نئی خوشیاں آ رہی ہیں۔ چمن اور افق کا صاف اور روشن ہونا نئی زندگی اور بہار کی علامت ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ پرانے طریقے چھوڑ دو اور نئے راستے اپناؤ، کیونکہ وقت تمہارا انتظار کر رہا ہے۔
وہ وطن کی خاک کو گلستان بنانے کی بات کرتا ہے، یعنی اپنے ملک کو خوشحال اور خوبصورت بنانے کی تحریک دیتا ہے۔
آخر میں، محبت کے چراغ جلا کر، ہر کلی (چھوٹا پھول) کو نکھار کر، سب کو اپنے ملک کو سنوارنے کا اختیار اور ذمہ داری قبول کرنے کا کہا گیا ہے۔

یہ نظم ایک مضبوط پیغام دیتی ہے کہ زندگی کے سفر میں ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھنا ضروری ہے۔ شاعر دوستوں کو بار بار حوصلہ دیتا ہے کہ نئے جذبے، نئی امیدوں اور نئی توانائی کے ساتھ قدم بڑھاؤ کیونکہ کامیابی دور نہیں بلکہ قریب ہے۔ یہ نظم ہمیں بتاتی ہے کہ پرانے خیالات اور رکاوٹوں کو چھوڑ کر نئے راستے اختیار کرنا چاہئیں تاکہ ہم اپنی منزل کو آسانی سے پا سکیں۔ وطن کی محبت کا جذبہ نظم کا اہم حصہ ہے جہاں شاعر کہتا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کو گلستان بنانا ہے، یعنی خوشحال، خوبصورت اور ترقی یافتہ بنانا ہے۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی محبت، محنت اور قربانی سے ملک کی خدمت کرے۔

آخر میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہر انسان کے پاس اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کا اختیار ہے، اس اختیار کو قبول کر کے ہم اپنی زمین کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

الف) لاہور
ب) اورنگ آباد
ج) دہلی
د) ممبئی

الف) بشارت نواز خاں
ب) بشیر احمد
ج) بشیر نواز
د) بشارت علی

الف) 1950 کی نسل
ب) 1960 کے بعد کی نسل
ج) 1970 کی نسل
د) 1980 کی نسل

الف) صرف جدید رنگ
ب) صرف کلاسیکی رنگ
ج) جدید اور کلاسیکی رنگ دونوں
د) کوئی رنگ نہیں

الف) نظم گو
ب) غزل گو
ج) افسانہ نویس
د) ناول نگار

الف)  رائیگاں  اور  اجنبی سمندر
ب)  شام کا دیا  اور  پھولوں کی خوشبو
ج)  گلزار  اور  چاندنی رات
د)  آگ کا دریا  اور  دھوپ کا سفر 

الف) ماضی کی باتیں یاد کرنا
ب) ہمت اور امید کے ساتھ آگے بڑھنا
ج) دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا
د) تنہا زندگی گزارنا

الف) پیچھے ہٹنے کی
ب) رکاوٹوں کو بڑھانے کی
ج) قدم بڑھانے کی
د) راستہ بدلنے کی

الف) سمندر
ب) جنگل
ج) گلستان
د) صحرا

الف) مٹی میں دفن کر دینا
ب) نکھار کر پیار کے چراغ جلانا
ج) کاٹ دینا
د) چھوڑ دینا

شاعر کی مراد ہے کہ زندگی میں ہمت، حوصلہ اور یقین کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ مشکلات اور رکاوٹوں کو پس پشت ڈال کر نئے راستے اپنانے چاہئیں۔ “قدم بڑھاؤ” کا مطلب ہے اپنے خوف اور جھجک کو چھوڑ کر ترقی اور کامیابی کی طرف بڑھنا۔ شاعر دوستوں کو بار بار حوصلہ دیتا ہے کہ وہ مسلسل محنت کریں کیونکہ منزل دور ضرور ہے مگر وہ ہم سب کا انتظار کر رہی ہے۔

اگرچہ یہ جملہ نظم کا حصہ نہیں، لیکن عام طور پر اس طرح کے الفاظ کا مطلب ہوتا ہے کہ زندگی کے بڑے بڑے مسائل، رکاوٹیں یا خوفناک حالات کو نظرانداز کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔ یعنی زندگی میں حوصلہ مند بن کر، اپنی راہ میں آنے والی بڑی مشکلات کو ایک طرف رکھ کر، اپنے مقصد کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

شاعر کا پیغام ہے کہ ہمیں ہمت، جوش اور محبت کے ساتھ زندگی کے سفر پر نکلنا چاہیے۔ پرانی سوچ اور طریقے چھوڑ کر نئے خیالات کو اپنانا ضروری ہے۔ وطن کی محبت سے سرشار ہو کر اسے خوشحال اور خوبصورت بنانا ہمارا فرض ہے۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داری سمجھے اور اپنی محبت، قربانی اور محنت سے وطن کی ترقی کے لیے کام کرے۔ نظم میں نئی بہار کی بات کی گئی ہے، جو امید اور خوشیوں کی علامت ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ ہم سب مل کر اپنی زمین کو گلستان بنائیں اور اپنی زندگی میں روشنی لائیں۔

Scroll to Top