نظؔیر اکبر آبادی (1740–1830)
نظیر اکبر آبادی کا اصل نام ولی محمد تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور بعد میں اپنے خاندان کے ساتھ آگرہ میں آ کر رہنے لگے۔ نظیر ایک عوامی شاعر تھے، یعنی وہ عام لوگوں کی زندگی کے بارے میں شاعری کرتے تھے۔
ان کی شاعری میں ہندوستانی زندگی اور ماحول کی سچی تصویر ملتی ہے۔ وہ موسموں، میلوں، تہواروں اور انسانی زندگیکےمختلف پہلوؤں پر نظمیں لکھتے تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ عام اور آسان زبان میں بات کرتے تھے، تاکہ ہر انسان ان کی بات سمجھ سکے۔ نظیراکبر آبادی کے پاس لفظوں کا بہت بڑا خزانہ تھا، اور وہ ہر موضوع کے لحاظ سے درست اور موزوں لفظ چنتے تھے۔ ان کے کلام میں گہرا اثر ہوتا تھا جو پڑھنے یا سننے والے کے دل کو چھو لیتا ہے۔
ان کی کچھ مشہور نظمیں یہ ہیں
روٹیاں، بنجارا نامہ، مفلسی، ہولی، آدمی نامہ اور کرشن کنھیا کا بال پین۔
اس کے علاوہ ہندوستان کے موسموں، پھلوں اور شخصیتوں پر لکھی گئی ان کی نظمیں بھی بہت خاص مانی جاتی ہیں۔ نظیراکبرآبادی اردو کے مشہور شاعر ہیں۔
نظم نیکی اور بدی کا تشریح و خلاصہ
نظیر اکبر آبادی کی نظم نیکی اور بدی ایک سبق آموز اور حقیقت پسند نظم ہے جس میں شاعر نے دنیا کے اصول، نیکی و بدی کا انجام، اور عدل و انصاف کی کارفرمائی کو نہایت سادہ اور عام فہم زبان میں بیان کیا ہے۔
نظم کے آغاز میں شاعر دنیا کو ایک اور طرح کی بستی کہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا ایک پیچیدہ جگہ ہے جہاں ہر شخص کو اس کے حالات اور عمل کے مطابق چیزیں میسر آتی ہیں۔ جیسے
جو مہنگوں کو تو مہنگی ہے اور سَستوں کو یہ سَستی ہے
یعنی دنیا ایک جیسی نہیں، ہر انسان کے لیے اس کا تجربہ مختلف ہے۔
پھر شاعر بتاتا ہے کہ دنیا میں جھگڑے اور عدالتیں عام ہیں، مگر ساتھ ہی انصاف کا نظام بھی موجود ہے۔ اگر کوئی بلند ہو تو عزت پاتا ہے، اگر کوئی گرے تو ذلت کا شکار ہوتا ہے۔
گر مَست کرے تو مستی ہے اور پَست کرے تو پستی ہے
یعنی انسان اپنی حالت خود بناتا ہے، جیسا سوچے گا ویسا پائے گا۔
اسی تسلسل میں شاعر بار بار کہتا ہے
کچھ دیر نہیں، اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
یہ مصرعہ نظم کا مرکزی خیال ہے دنیا میں انصاف ضرور ہوتا ہے، چاہے دیر سے ہو۔
آگے شاعر اعمال کی جزا و سزا کو واضح کرتے ہوئے کہتا ہے
جو پان کھلاوے پان ملے، جو روٹی دے تو نان ملے
یعنی جو دوسروں کی مدد کرے، اسے بھی مدد ملتی ہے۔
جو جیسا جس کے ساتھ کرے، پھر ویسا اس کو آن ملے
یعنی ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ملتا ہے اچھے کا اچھا اور برے کا برا۔
شاعر مزید کہتا ہے کہ جو دوسروں کو پار لگاتا ہے، یعنی مدد کرتا ہے، اس کی اپنی ناؤ بھی پار لگتی ہے۔
جو پار اُتارے اوروں کو اس کی بھی ناؤ اُترنی ہے
اور جو دوسروں کو ڈبوتا ہے، وہ خود بھی کسی دن ڈوبتا ہے۔
شاعر ظلم کا انجام بھی بڑی شدت سے بیان کرتا ہے۔ جو ظالم دوسروں پر زور زبردستی کرتا ہے، وہ خود بھی کسی دن ایسی ہی حالت میں آتا ہے
جو اور کا اونچا بول کرے تو اُس کا بول بھی بالا ہے
یعنی جو تکبر سے بات کرتا ہے، اس کے سامنے بھی کوئی اونچا بولنے والا آتا ہے۔
بے ظلم و خطا جس ظالم نے مظلوم ذبح کر ڈالا ہے
یہ مصرع ظلم کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے، اور اس کے فوراً بعد شاعر یہ یاد دلاتا ہے کہ انصاف کا نظام حرکت میں آتا ہے اور وہ ظالم سزا پاتا ہے۔
شاعر نے بار بار اس ہاتھ کرو اُس ہاتھ ملے کا جملہ دہرا کر ہمیں سمجھایا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی یک طرفہ نہیں ہوتا۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، اور ہر سلوک کا بدلہ ملتا ہے۔
یہ نظم انسان کو یہ سبق دیتی ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا بدلہ ہے۔ اگر انسان نیکی کرے گا، تو نیکی ملے گی۔ اگر ظلم کرے گا، تو خود بھی ظلم کا شکار ہوگا۔ قدرت کا نظام انصاف پر مبنی ہے، اور ہر شخص کو اس کی کرنی کا پھل ضرور ملتا ہے۔ شاعر ہمیں خبردار کرتا ہے کہ وقتی کامیابی سے دھوکہ نہ کھائیں، کیونکہ اصل فیصلہ وقت کرتا ہے۔ نظم ہمیں سکھاتی ہے کہ نیکی، سچائی، احسان اور انصاف کا راستہ ہی اصل کامیابی کا راستہ ہے۔
معروضی سوالات
سوال 1 ۔ نظیر اکبر آبادی کا اصل نام کیا تھا؟
الف) محمد ولی اللہ
ب) ولی محمد
ج) محمد اکبر
د) احمد ولی
جواب ۔ ب) ولی محمد
سوال 2 ۔ نظیر اکبر آبادی کا تعلق کس شہر سے تھا جہاں وہ آ کر بس گئے؟
الف) دہلی
ب) لکھنؤ
ج) آگرہ
د) بنارس
جواب ۔ ج) آگرہ
سوال 3 ۔ نظم نیکی اور بدی کا مرکزی خیال کیا ہے؟
الف) مذہبی تعلیمات
ب) جنگ کا بیان
ج) عدل و انصاف کا اصول
د) خوشی اور غمی
جواب ۔ ج) عدل و انصاف کا اصول
سوال 4 ۔ نظم کے مطابق اگر کوئی احسان کرے تو اس کے بدلے کیا ملتا ہے؟
الف) بدلہ
ب) روٹی
ج) نقصان
د) احسان
جواب ۔ د) احسان
سوال 5 ۔ نظم میں شاعر کے مطابق “اس ہاتھ کرو، اُس ہاتھ مِلے” کا مطلب کیا ہے؟
الف) ہاتھ سے کچھ گر جائے
ب) بدلہ ضرور ملتا ہے
ج) سلام کرنا
د) ہاتھ ملانا
جواب ۔ ب) بدلہ ضرور ملتا ہے
سوال 6 ۔ نظم میں کچھ دیر نہیں، اندھیر نہیں کا کیا مطلب ہے؟
الف) اندھیرا بہت ہے
ب) ہر کام میں تاخیر ہے
ج) عدل ضرور ہوتا ہے
د) انصاف نہیں ملتا
جواب ۔ ج) عدل ضرور ہوتا ہے
سوال 7 ۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا سب سے بڑا وصف کیا تھا؟
الف) مشکل الفاظ کا استعمال
ب) فلسفیانہ انداز
ج) سادہ زبان اور عوامی موضوعات
د) صرف غزلیں
جواب ۔ ج) سادہ زبان اور عوامی موضوعات
سوال 8 ۔ جو غرق کرے پھر اس کو بھی یاں ڈبکوں ڈبکوں کرنی ہے سے کیا مراد ہے؟
الف) تیرنا سیکھنا
ب) جو ظلم کرے، وہ خود بھی نقصان اٹھائے گا
ج) دریا کی سیر
د) کشتی بنانا
جواب ۔ ب) جو ظلم کرے، وہ خود بھی نقصان اٹھائے گا
سوال 9 ۔ نظم کے مطابق جو شخص کسی کو نان دے، اسے کیا ملے گا؟
الف) شیرینی
ب) پان
ج) نان
د) نقدی
جواب ۔ ج) نان
سوال 10 ۔ نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم “آدمی نامہ” کا تعلق کس چیز سے ہے؟
الف) انسان کی اقسام اور رویے
ب) خدا کی تعریف
ج) عورت کی خوبی
د) پرندوں کی باتیں
جواب ۔ الف) انسان کی اقسام اور رویے
سوال و جواب
سوال 1 ۔ نظم کے پہلے بند میں دنیا کو کس طرح کی بستی بتایا گیا ہے؟
جواب ۔
نظم کے پہلے بند میں دنیا کو ایک ایسی بستی بتایا گیا ہے جو بہت رنگا رنگ اور مختلف قسم کے لوگوں کی ہے۔ یہاں امیر لوگ چیزوں کو مہنگا سمجھتے ہیں اور غریب لوگ انہیں سستا۔ اس سے شاعر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ دنیا کا تجربہ ہر شخص کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر وقت جھگڑے ہوتے ہیں اور عدالتیں لگتی رہتی ہیں، یعنی یہاں انصاف کے فیصلے ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بلند و بالا ہوتا ہے تو اسے مستی کہا جاتا ہے اور جو نیچا گرتا ہے اسے پستی کہا جاتا ہے۔ اس طرح دنیا ایک متحرک جگہ ہے جہاں اچھائی اور برائی، کامیابی اور ناکامی دونوں موجود ہیں۔ اس کے باوجود، شاعر کہتا ہے کہ یہاں کوئی اندھیرا مستقل نہیں رہتا، بلکہ انصاف اور عدل کا نظام قائم ہے جو دیر سے ہی سہی، کام ضرور کرتا ہے۔
سوال 2 ۔ ‘کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں’ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب ۔
یہ مصرع شاعر کی امید اور یقین کی علامت ہے کہ دنیا میں کبھی کبھی ناانصافی، ظلم اور تاخیر ضرور ہوتی ہے، لیکن یہ صورتحال مستقل یا دائمی نہیں ہوتی۔ یعنی “اندھیرا” یعنی ظلم و ناانصافی کا عرصہ مختصر ہوتا ہے۔ آخرکار انصاف کا نظام کام کرتا ہے اور سچائی جیتتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیے کیونکہ عدل و انصاف کا عمل کبھی پیچھے نہیں رہتا، چاہے اس میں کچھ وقت لگ جائے۔ شاعر یہ سکھاتا ہے کہ انسان کو چاہے مشکل حالات کا سامنا ہو، وہ مایوس نہ ہو کیونکہ سچ اور انصاف کی جیت یقینی ہے۔
سوال 3 ۔ کس کی ناؤ پار اترتی ہے؟
جواب ۔
شاعر کا مطلب ہے کہ جو لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں، جو خیر و بھلائی کرتے ہیں، ان کی زندگی آسان اور کامیاب ہوتی ہے۔ “ناؤ پار اترنا” ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کامیابی اور منزل تک پہنچنا۔ اس نظم میں کہا گیا ہے کہ جو دوسرے لوگوں کو پریشانی سے نکالیں، ان کی اپنی زندگی میں بھی مشکلات ختم ہو جاتی ہیں اور وہ ترقی پاتے ہیں۔ یہ انسانیت کی بھلائی اور ایک دوسرے کے ساتھ مدد کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یعنی جو نیکی کرے گا، اس کو زندگی میں بھی نیکی اور کامیابی ملے گی۔
سوال 4 ۔ ظالم کو ظلم کا کیا بدلہ ملتا ہے؟
جواب ۔
نظم میں ظالموں کے لیے سخت وارننگ دی گئی ہے کہ جو لوگ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں، ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ ظالم چاہے زبان سے ظلم کرے یا عمل سے، وہ ایک دن اپنے ظلم کی سزا ضرور پاتا ہے۔ شاعر بیان کرتا ہے کہ ظالم کی طاقت عارضی ہوتی ہے، اور آخرکار اس کی زبان بھی دبی جاتی ہے، یعنی اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی زندگی میں مشکلات آتی ہیں اور اس کا خون بہتا ہے، یعنی اسے تکلیف اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ظلم کرنے والا کبھی سکون سے نہیں رہتا کیونکہ دنیا میں انصاف کا نظام موجود ہے جو ظلم کی روک تھام کرتا ہے۔ اس لیے ظالم کا انجام عبرتناک ہوتا ہے اور وہ ایک دن ضرور اپنی کرتوتوں کا بدلہ بھگتتا ہے۔ اس نظم کے ذریعے شاعر لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ ظلم سے گریز کریں اور انصاف و نیکی کے راستے پر چلیں کیونکہ دنیا میں ہر عمل کا بدلہ ملنا مقرر ہے۔
نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی
اگر تم دوسروں کے ساتھ نیکی کرو گے تو تمہیں بھی نیکی ہی ملے گی، کیونکہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ہوتی ہے۔
بول بالا ہونا
اس گاؤں میں اس کا بول بالا ہے کیونکہ وہ سب کی مدد کرتا ہے اور سب اسے عزت دیتے ہیں۔
پاراتارنا
جب وہ غصے میں آتا ہے تو دوسروں کو سخت الفاظ سے پاراتارتا ہے، جو اچھا نہیں لگتا۔
مان رکھنا
ہمیں اپنے بڑوں کا ہمیشہ مان رکھنا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے تجربے سے ہمیں سنبھالتے ہیں۔
خالی جگہوں میں اسم یا فعل بھریے
یہ دنیا اور طرح بستی کی ہے۔
یہاں ہر دم جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔
جو اوروں کو پار اتارتا ہے اس کی ناؤ بھی پار لگ جاتی ہے۔