NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 4 Qual ka pass قول کا پاس Solutions

پریم چند اردو کے مشہور ناول اور افسانہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 1880 میں بنارس کے ایک گاؤں لمہی میں ہوئی۔ ان کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد 1899 میں چُنار گڑھ کے ایک مشن اسکول میں اسسٹنٹ ماسٹر یعنی اُستاد کے طور پر کام کرنے لگے۔ پھر 1905 میں کان پور کے ضلع اسکول میں اُستاد مقرر ہوئے۔ پریم چند کو بچپن سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں لوگوں کے دکھ درد کو بہت قریب سے دیکھا، اسی لیے ان کی کہانیاں عام لوگوں اور ان کی مشکلات پر مبنی ہوتی تھیں۔ ان کی زبان آسان اور صاف ہوتی تھی، جسے سب لوگ آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔ ان کی زیادہ تر کہانیاں دیہات کی زندگی سے تعلق رکھتی تھیں۔

پریم چند نے تقریباً ایک درجن ناول اور تین سو سے زیادہ کہانیاں لکھی ہیں۔ان کے مشہورناولوں میں نرملا، بیوہ، میدانِ عمل،بازارِحسن اورگئودان ہیں۔

افسانہ قول کا پاس مغل بادشاہ اکبر کے زمانے کی ایک متاثر کن کہانی ہے، جو سچائی، وعدے کی پاسداری، انسانیت، بہادری اور رحم دلی جیسے اعلیٰ اوصاف کو بیان کرتی ہے۔

اکبر بادشاہ نے ہندوستان کا بیشتر علاقہ فتح کر لیا تھا۔ صرف راجپوتانہ باقی تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے اس نے حملہ کیا۔ راجپوتوں نے بہادری سے مقابلہ کیا، لیکن شکست کھا گئے۔ راجپوتوں کے سردار رانا پرتاپ سنگھ جنگل میں چھپ گئے۔ راجپوتوں میں ایک اور دلیر سردار رگھو پت سنگھ تھا جو کچھ جوانوں کو لے کر مغلوں سے چھاپا مار لڑائیاں کر رہا تھا۔ اس کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ مغل سپاہی اس کا نام سن کر کانپنے لگتے تھے۔ اکبر بادشاہ نے کئی بار کوشش کی کہ اسے پکڑ لے، لیکن رگھو پت سنگھ ہر بار بچ نکلتا۔ اسی دوران اس کے اکلوتےبیٹے کو سخت بیماری لگ گئی۔ جب رگھو پت کو خبر ملی کہ بیٹے کے آخری لمحات ہیں، تو وہ خطرہ مول لے کر گھر جانے نکلا۔ اکبر کے سپاہیوں نے پہلے ہی اس کے گھر پر پہرہ لگا رکھا تھا تاکہ وہ وہاں آئے تو پکڑ لیا جائے۔

رگھو پت جب گھر پہنچا تو دروازے پر پہرہ دار سپاہی نے روکا۔ اس نے سچ سچ کہا کہ وہ اپنے مرنے والے بیٹے کو آخری بار دیکھنے آیا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ واپس آ جائے گا۔ وہ راجپوت ہے، کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ پہرہ دار نے اس کی سچائی پر یقین کیا اور اسے اندر جانے دیا۔ گھر جا کر رگھو پت نے بیٹے کو پیار کیا، دوا کی ترکیبیں بتائیں اور بیوی کو تسلی دی۔ پھر وہ وعدے کے مطابق واپس آیا تاکہ خود کو سپاہی کے حوالے کرے۔ سپاہی نے کہا کہ وہ بھاگ جائے، مگر رگھو پت نے کہا کہ وہ اپنا قول نہیں توڑ سکتا۔

اس کے بعد رگھو پت سنگھ نظروں سے غائب ہو گیا، لیکن جب اسے خبر ملی کہ سپاہی کو قید کر لیا گیا ہے تو وہ خو ہی اپس آ گیا اور مغل افسر کے سامنے پیش ہو کر کہا کہ سپاہی بے گناہ ہے، اسے چھوڑ دو اور مجھے پکڑ لو۔ لیکن مغل افسر نے دونوں کو سزائےموت سنا دی۔ دوسرے دن جب دونوں کو قتل کے لیے میدان میں لایا گیا، تو عین وقت پر اکبربادشاہ آ پہنچا۔ اس نے پوری بات سننے کے بعد پہرہ دار کی رحم دلی اور رگھو پت کی وعدہ نبھانے والی فطرت کو سراہا۔ اکبر نے کہا کہ جو سپاہی انسانیت کو پہچانتا ہے اور جو دشمن بھی اپنے وعدے پر قائم رہتا ہے، وہ سزا کے نہیں، انعام کے مستحق ہیں۔

بادشاہ نے دونوں کو معاف کر دیا۔ رگھو پت سنگھ نے زمین پر جھک کر شکریہ ادا کیا اور کہا

جسے آپ تلوار سے نہ جیت سکے، اُسے آج آپ نے اپنی دریا دلی سے جیت لیا۔ اب میں کبھی آپ کا دشمن بن کر تلوار نہ اٹھاؤں گا۔

یہ افسانہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سچائی، وعدے کی پابندی، رحم دلی، اور دوسروں کی مدد کرنا ایسے اوصاف ہیں جو انسان کو نہ صرف عزت دلواتے ہیں بلکہ دلوں کو فتح کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بادشاہ ہو یا سپاہی، اگر دل میں انسانیت ہو تو وہ عظمت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

الف) راج نارائن
ب) دھنپت رائے
ج) پریم ناتھ
د) دیوی پرساد

الف) لکھنؤ
ب) الہٰ آباد
ج) لمہی، بنارس
د) کانپور

الف) طنز و مزاح
ب) نظم
ج) افسانہ اور ناول
د) سفرنامہ

الف) پرتاب سنگھ
ب) رگھو پت سنگھ
ج) دیو سنگھ
د) ہری سنگھ

الف) بیوی سے
ب) بیٹے سے
ج) مغل افسر سے
د) پہرے دار سپاہی سے

الف) سکول جا رہا تھا
ب) بہت بیمار تھا
ج) کھیل رہا تھا
د) سپاہی بن چکا تھا

الف) ڈر کے مارے
ب) رشوت لے کر
ج) اس کے سچے وعدے پر اعتبار کر کے
د) اکبر کے حکم سے

الف) قید میں ڈال دیا
ب) دونوں کو انعام دیا
ج) دونوں کو معاف کر دیا
د) صرف رگھو پت کو قتل کیا

الف) میں کبھی واپس نہیں آؤں گا
ب) آپ نے دل جیت لیا، اب میں آپ کا دشمن نہ بنوں گا
ج) مجھے قید نہ کریں
د) میرا بیٹا مر چکا ہے

الف) ہوشیاری فائدہ دیتی ہے
ب) وعدہ نبھانا اور سچائی پر قائم رہنا اعلیٰ صفات ہیں
ج) دشمن سے بدلہ لینا ضروری ہے
د) جنگ ہی مسئلوں کا حل ہے

اکبر مغل خاندان کا بادشاہ تھا۔ مغل خاندان ہندوستان میں ایک طاقتور اور مشہور سلطنت تھا۔ اس خاندان کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے رکھی تھی۔ اکبر بابر کا پوتا تھا۔ اکبر ایک عقل مند، انصاف پسند اور رحم دل حکمران تھا۔ وہ صرف تلوار سے نہیں بلکہ اپنی دانائی، انصاف، اور سب مذاہب کو ساتھ لے کر چلنے کی خوبیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہوا۔

راجپوت سردار کا نام رگھوپتسنگھ تھا۔ وہ ایک بہادر، خوددار اور عزت دار شخص تھا۔ رگھوپت سنگھ نے اکبر کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی اور میدانِ جنگ میں مغل فوج سے شکست کھا گیا تھا۔ شکست کے بعد وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے گاؤں کے قریب جنگل میں چھپ گیا۔ وہ اپنے بیوی بچوں سے ملنا چاہتا تھا، لیکن مغل فوج کے ڈر سے چھپ کر رہ رہا تھا۔

جب رگھوپت بیمار بیٹے کو دیکھنے کے لیے گیا تو راستے میں مغل سپاہی نے اسے گرفتار کر لیا۔ رگھوپت نے پہرے دار سے درخواست کی کہ اسے ایک بار بیٹے سے ملنے کی اجازت دے دی جائے، وہ وعدہ کرتا ہے کہ واپس آ جائے گا۔
پہرے دار پہلے تو ڈرا کہ اگر رگھوپت بھاگ گیا تو اسے سزا ملے گی، لیکن رگھوپت کی باتوں اور اس کی سچائی پر یقین کر کے اسے جانے دیا۔ رگھوپت نے وعدہ نبھایا اور واپس آ کر پہرے دار کی عزت بچائی۔ اس طرح اس نے پہرے دار پر احسان کیا، ورنہ اگر وہ واپس نہ آتا تو پہرے دار کی جان خطرے میں پڑ جاتی۔

اکبر کو رگھوپت سنگھ کی قول کا پاس کرنے کی خوبی بہت پسند آئی۔ رگھوپت سنگھ چاہتا تو موقع پا کر ہمیشہ کے لیے بھاگ جاتا، کیونکہ وہ پہلے ہی شکست خوردہ راجپوت تھا اور جنگل میں چھپا بیٹھا تھا۔ لیکن اس نے وعدہ نبھایا، جو ایک اعلیٰ انسان کی پہچان ہے۔ جب رگھوپت نے اپنا بچہ بیمار دیکھنے کے بعد بھی خود کو مغل فوج کے حوالے کر دیا، تو اکبر کو اس کی سچائی، دیانت داری اور وعدہ وفا کرنے کی عادت نے بہت متاثر کیا۔

اکبر ایک عظیم بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ انصاف پسند اور رحم دل بھی تھا۔ جب اس نے سنا کہ رگھوپت نے وعدہ نبھایا اور سپاہی کی بات کا پاس رکھا، تو اس نے رگھوپت کو سزا دینے کے بجائے اس کی ایمانداری کا احترام کیا اور معاف کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پہرے دار سپاہی کو بھی بخش دیا جو رگھوپت کو چھوڑنے کی جرات کر بیٹھا تھا، حالانکہ اسے اس کی سزا مل سکتی تھی۔
اکبر کے اس رحم دل اور سمجھ دار رویے نے رگھوپت کے دل کو جیت لیا۔ رگھوپت نے خود کہا

اب ہم آپ کے دشمن نہیں رہے، آپ نے ہمارے دل جیت لیے۔

اس طرح اکبر نے تلوار سے نہیں بلکہ اخلاق، انصاف اور رحم دلی سے دشمن کو دوست بنا لیا۔ یہ ایک سچے اور عظیم بادشاہ کی پہچان ہے۔

اکبر بادشاہ نے اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔

راجپوتوں کی فوج نے بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔

پہرے دار نے رات بھر چوکس رہ کر قلعے کی حفاظت کی۔

رگھوپت سنگھ نے اپنے بیمار بیٹے کے لیے علاج کی تدبیر کی۔

اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا قصور قبول کرنا چاہیے۔

۔ اکبر بادشاہ مغلوں کا بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔
۔ راجپوتوں کے ایک سردار کا نام رگھوپت تھا۔
۔ بیوی نے کہا ایسا نہ کرو، دوسرے دروازے سے نکل جاؤ۔
۔ دوسرے دن سپاہی رگھو پت اور پہرے دار کو میدان میں لائے۔
۔ جو آدمی اپنے وعدے کے پکّے ہوتے ہیں خدا ہمیشہ ان کی مدد کرتا ہے۔

افواج (جمع) → فوج (واحد)

تدابیر (جمع) → تدبیر (واحد)

مدد (واحد/جمع دونوں ایک ہی)

ملک (واحد) → ممالک (جمع)

سفر (واحد) → سفر (جمع) (سفر کا واحد اور جمع دونوں ایک ہی ہوتے ہیں)

بادشاہ (مذکر) → ملکہ (مؤنث)

گھوڑا (مذکر) → گھوڑنی (مؤنث)

لڑکا (مذکر) → لڑکی (مؤنث)

عورت (مؤنث) → آدمی (مذکر)

بیٹی (مؤنث) → بیٹا (مذکر)

امتحان کے دوران میرا پاؤں اکھڑ گیا اور میں گھبرا گیا۔

اپنے استاد کی تعریف سن کر طالب علموں کی ڈھارس بندھی۔

میں نے اپنے والد کو قول دیا کہ میں محنت سے پڑھوں گا۔

جب اس نے غربت کی کہانی سنائی تو میرا دل بھر آیا۔

جب میں نے امتحان میں اچھے نمبر حاصل کیے تو میں پھولا نہ سمایا۔

سچائی → جھوٹ

دکھ → خوشی

بہادر → خوفزدہ

قید → آزادی

دشمن → دوست

محبت → نفرت

اسم خاص→ اکبر، رگھوپت، راجپوتانہ

اسم عام→ بادشاہ، بہادر، بیٹا، گھوڑا

اس سبق سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ وعدہ نبھانا اور سچائی پر قائم رہنا بہت ضروری ہے۔ جو لوگ اپنے وعدوں کے پکے ہوتے ہیں اور سچ بولتے ہیں، وہ دوسروں کا اعتماد جیت لیتے ہیں۔ دشمنی میں بھی اگر انصاف اور رحم دلی دکھائی جائے تو دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنا اور ان کی مدد کرنا بھی بہت اچھی بات ہے۔

اکبر مغل سلطنت کا ایک بہت طاقتور اور مشہور بادشاہ تھا۔

وہ انصاف پسند اور رحم دل حکمران تھا۔

اکبر نے اپنی حکمت عملی سے ہندوستان کا بڑا حصہ فتح کیا۔

وہ بہادروں کی قدر کرتا تھا اور ان کا احترام کرتا تھا۔

اکبر نے اپنے دشمنوں سے بھی عدل و انصاف کا سلوک کیا اور دل جیتنے کی صلاحیت رکھی تھی۔

Scroll to Top