NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 9 khuda ke naam khat خدا کے نام خط solution

یہ سبق اسپین کی ایک مشہور لوک کہانی پر مبنی ہے۔
لوک کہانی وہ ہوتی ہے جو کسی معاشرے میں لوگوں کے درمیان سنائی اور سنائی جاتی ہے، اور جس میں فطرت، انسان اور ماحول سے جڑی باتوں کو اخلاقی سبق دینے کے لیے کہانی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

اس کہانی میں ایک کسان کے خدا پر مضبوط یقین کو ایسے انداز میں دکھایا گیا ہے کہ اس سے لوگوں کے درمیان ہمدردی اور انسان دوستی کا خوبصورت منظر سامنے آتا ہے۔

یہ کہانی اسپین کی ایک وادی میں رہنے والے کسان لین شو کے مضبوط ایمان اور امید کی عکاسی کرتی ہے۔ وادی میں ایک چھوٹی سی چٹان پر اس کا گھر اور ارد گرد اس کے کھیت تھے، جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔ ایک دن آسمان پر بادل آئے اور جیسا کہ لین شو نے اندازہ لگایا تھا، بارش شروع ہو گئی۔ ابتدا میں بارش فصل کے لیے رحمت ثابت ہو رہی تھی، لیکن اچانک تیز آندھی اور ژالہ باری نے سب کچھ برباد کر دیا۔ چند گھنٹوں میں کھیت، مٹر کی بیلیں اور غلے کے پودے تباہ ہو گئے، درختوں کے پتے گر گئے اور زمین پر سفید اولوں کی چادر بچھ گئی۔

اس آفت کے بعد لین شو کو احساس ہوا کہ اس کے پاس اگلی فصل تک زندہ رہنے کا کوئی ذریعہ نہیں بچا۔ لیکن اس کا خدا پر پکا یقین برقرار تھا۔ اس نے سوچا کہ جب سب کا پالن ہار موجود ہے تو مدد ضرور ملے گی۔ اس نے خدا کے نام ایک خط لکھا جس میں ایک سو روپے مانگے تاکہ دوبارہ بیج بو سکے اور گھر کا خرچ چلا سکے۔ لفافے پر پتہ لکھا: “یہ خط خدا کو ملے” اور اسے ڈاک خانے بھیج دیا۔ ڈاک خانے کے پوسٹ ماسٹر نے خط پڑھ کر لین شو کے ایمان پر حیرت اور تعریف کا اظہار کیا۔ وہ اور اس کے ساتھی لین شو کی مدد کے لیے چندہ جمع کرنے لگے۔ جتنی رقم لین شو نے مانگی تھی اتنی تو جمع نہ ہو سکی، مگر انہوں نے 70 روپے اکٹھے کر کے خدا کے نام سے خط میں رکھ دیے اور لین شو کو بھیج دیے۔

اگلے اتوار لین شو ڈاک خانے آیا۔ رقم دیکھ کر اسے کوئی حیرت نہ ہوئی کیونکہ اسے یقین تھا کہ خدا ضرور مدد کرے گا۔ لیکن جب اس نے رقم گنی اور 100 کے بجائے 70 نکلے تو وہ ناراض ہو گیا۔ اسے لگا کہ خدا نے تو پوری رقم بھیجی ہو گی، باقی ڈاک خانے کے ملازموں نے رکھ لی ہے۔ اس نے فوراً دوسرا خط لکھا، خدا سے باقی رقم بھیجنے کو کہا اور یہ بھی لکھا کہ آئندہ رقم ڈاک کے ذریعے نہ بھیجی جائے کیونکہ ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان ہیں۔ یہ کہانی ایمان، امید، اور ہمدردی کا سبق دیتی ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی بتاتی ہے کہ کبھی کبھی ہمارا اندازہ حقیقت سے مختلف ہو سکتا ہے۔

الف) میدان میں
ب) پہاڑ کی چوٹی پر
ج) وادی میں ایک چٹان پر
د) دریا کے کنارے

الف) کھاد کی
ب) بارش کی
ج) دھوپ کی
د) مزدور کی

الف) فصل پک گئی
ب) پودے مرجھا گئے
ج) ساری فصل تباہ ہو گئی
د) کچھ بھی نقصان نہیں ہوا

الف) 50 روپے
ب) 70 روپے
ج) 100 روپے
د) 150 روپے

الف) پوسٹ ماسٹر کے نام
ب) شہر کا نام
ج) یہ خط خدا کو ملے
د) اپنے گھر کا پتہ

الف) غصہ کیا
ب) ہنس پڑا اور پھر سنجیدہ ہوا
ج) خط پھاڑ دیا
د) واپس کر دیا

الف) بینک سے قرض لیا
ب) بازار سے لیا
ج) اپنے اور عملے کے چندے سے
د) حکومت سے مدد لی

الف) 100 روپے
ب) 70 روپے
ج) 50 روپے
د) 80 روپے

الف) خدا نے منع کیا تھا
ب) ڈاک خانہ بند تھا
ج) ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان ہیں
د) اسے ضرورت نہیں تھی

الف) لالچ سے بچنے کا
ب) ایمان، امید اور ہمدردی کا
ج) محنت نہ کرنے کا
د) شکایت کرنے کا

لین شو نے صبح سے آسمان بار بار دیکھا تھا اور اپنی بیوی سے کہا کہ اُس کا اندازہ ہے کہ آج بارش ہوگی۔ وہ بادلوں اور ہوا کے رنگ و رخ سے یہ محسوس کر رہا تھا کہ بارش آنے والی ہے، اس لیے وہ نے احتیاط و خوشی دونوں میں یہ بات بی بی کو بتائی۔

وہ اپنے کھیتوں کا بہت خیال رکھتا تھا۔ جب بارش شروع ہوئی تو وہ خوشی اور جذبات کے ساتھ کھیتوں کی طرف گیا تاکہ بارش کے قطروں اور فضائی لہروں کو اپنے سینے میں محسوس کرے، یہ دیکھے کہ اس کی زمینیں بارش سے کیسی نظر آ رہی ہیں اور فصلوں کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یعنی اس کا مقصد خیر کی امید میں بارش کا مشاہدہ کرنا اور اپنے کھیتوں کی حالت جانچنا تھا۔

ژالہ باری نے تیزی سے اور شدید نقصان پہنچایا: اولے زمین پر سفید چادر کی طرح بچھ گئے، درختوں کے پتے اڑ گئے، غلے کے کھیت اور مٹر کی بیلیں بری طرح ٹوٹ گئیں، کھیتوں کی ساری فصل تباہ ہو گئی۔ نتیجتاً نہ اناج بچا، نہ سبزی خاندان کی سال بھر کی روزی اور اگلی بوائی کے لیے لازم بیج ختم ہو گئے۔ لین شو اور اس کے کنبے کو شدید معاشی تنگی اور ممکنہ قحط کا خدشہ لاحق ہو گیا۔

لین شو نے سچے دل سے خدا سے مدد مانگی۔ اس نے لکھا کہ ژالہ باری نے ساری فصل تباہ کر دی ہے، اگر مدد نہ ہوئی تو وہ اور اس کا کنبہ اس سال بھوک کا شکار ہوں گے۔ اس نے فوراً ایک سو (100) روپے طلب کیے تاکہ کھیتوں کو دوبارہ درست کیا جا سکے، بیج کرائے جا سکیں اور نئی فصل کی کٹائی تک گھر چلا سکے۔ خط میں اس نے اپنی ضروریات اور حالت دل کی سچائی کے ساتھ بیان کی۔

پوسٹ ماسٹر نے پہلے خط کو دیکھ کر ہنسی میں آ کر تبصرہ کیا کیونکہ یہ غیر معمولی لگ رہا تھا، مگر جلدی ہی وہ سنجیدہ اور متاثر ہوگیا۔ اس نے خط عملے کے سامنے پڑھوایا اور پھر سب کے ساتھ مشورہ کیا۔ پوسٹ ماسٹر خود اور اس کے عملے نے چندہ جمع کیا — پوسٹ ماسٹر نے خاصی رقم دی اور باقی ملازمین نے بھی حسبِ وسعت دینے میں ہاتھ بٹایا۔ انہوں نے جو رقم جمع کی اسے لفافے میں رکھ کر لین شو کے پتے پر بھیجا، اور ایک سادہ سی چٹھی درج کی جس پر بطورِ دستخط صرف لفظ “خدا لکھا تھا — یوں وہ رقم ایک طرح سے “خدا کی طرف سے” بھیجی گئی۔

جب لین شو کو لفافہ ملا تو اُس میں موجود رقم گن کر دیکھنے پر صرف ستر (70) روپے نکلے۔ یہ دیکھ کر وہ ناراض ہوا اور فوراً دوسرے خط میں لکھا کہ جو رقم اس نے مانگی تھی اس میں سے صرف ستر روپے ہی ملے ہیں، باقی رقم فوراً بھیج دی جائے کیونکہ اسے شدید ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اس نے ہدایت کی کہ باقی رقم ڈاک کے ذریعے ہرگز نہ بھیجی جائے، کیونکہ وہ سمجھ بیٹھا تھا کہ ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان ہیں اور شاید باقی رقم انہی نے رکھ لی ہو۔ لہٰذا دوسرے خط کا لہجہ شک اور غصے کے ساتھ تھا — اس نے باقی رقم جلد بھیجنے اور مستقبل میں ڈاک کے راستے استعمال نہ کرنے کی درخواست کی۔

اکلوتا –  علی اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔

ملازمین –  فیکٹری کے ملازمین نے ہڑتال کر دی۔

نیک دلی –  نیک دلی سے دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔

پختہ یقین –  اسے کامیابی حاصل ہونے کا پختہ یقین ہے۔

تکیہ کرنا –  محنت کرنے والے کو دوسروں پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔

پالن ہار –  اللہ سب کا پالن ہار ہے۔

نزدیک – دور

تیز – آہستہ

شکست – فتح

پختہ – کچا

موجود – غائب

شہر – گاؤں

مکان → مکانات

چادر → چادریں

روح → روحیں

سبزی → سبزیاں

افسر → افسران

خط → خطوط

!پیارے خدا

میری زندگی کی تمام امیدیں تیرے کرم کے سہارے بندھی ہیں۔ یہ زمین، یہ کھیت، یہ فصلیں سب تیری نعمتیں تھیں، مگر اب ژالہ باری نے میری ساری محنت کو برباد کر دیا ہے۔ وہ نرم و ملائم فصلیں، جو تیرے سایے تلے پروان چڑھیں، ایک دم مرجھا گئیں، ٹوٹ گئیں اور بکھر گئیں۔ میرے دل پر ایک بھاری بوجھ ہے، اور میرے گھر میں غربت کی چھاؤں بڑھتی جا رہی ہے۔

اے رحم کرنے والے! میں تیری بارگاہ میں عاجزی سے ہاتھ پھیلاتا ہوں، کہ میری مدد کر۔ مجھے سو روپے کی ضرورت ہے تاکہ میں دوبارہ زمین کو سنوار سکوں، نئی فصل کی بوائی کر سکوں، اور اپنے بچوں کے لئے روزی کا انتظام کر سکوں۔ تیرے وعدوں پر میرا پختہ یقین ہے کہ تو اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ میری تمام امیدیں تیری مہربانی اور کرم کے سہارے ہیں۔ اگر تو نے مدد نہ کی تو ہم بھوک اور تنگدستی کی گھٹن میں گھِر جائیں گے، اور میرا خاندان بے بسی کی حالت میں رہ جائے گا۔

تجھے میری دعاوں کا علم ہے، اور مجھے یقین ہے کہ تو دل کی گہرائیوں کو پہچانتا ہے۔ میں نے اپنا سب کچھ تیرے حوالے کر دیا ہے۔ بس تُو ہمیں اپنی رحمتوں سے نواز دے، اور ہمیں زندگی کی اس سخت آزمائش سے نکال۔

جب میں نے پہلا خط بھیجا، تو مجھے تھوڑی سی رقم ملی، لیکن پورے سو روپے نہیں۔ میں تیری مہربانی سے شکر گزار ہوں، مگر باقی رقم بھیجنے کی درخواست کرتا ہوں۔ اس بار، برائے مہربانی، ڈاک کے ذریعے نہ بھیج، کیونکہ یہاں کے کچھ ملازمین میرے اعتماد کے قابل نہیں ہیں۔ مجھے پورے دل سے امید ہے کہ تیری رحمت جلد ہمارے گھر آئے گی۔

اے مہربان! میرے دکھوں کو دیکھ اور اپنے رحم کے سائے سے ہمیں ڈھانپ دے۔ ہم تیرے بندے تیرے فیصلے کے محتاج ہیں۔

تیرے فرمانبردار
لین شو

Scroll to Top