Gulistan e Adab Chapter 1 Maktub Nigari munshi hargopal tafta ke naam منشی ہر گوپال تفتہ کے نام Solutions

مکتوب نگاری کو اہلِ قلم نے ایک لطیف اور پُرکشش فن قرار دیا ہے۔ ایسے لاتعداد خطوط موجود ہیں جن میں تخلیقی ادب کی شان و شوکت نظر آتی ہے۔ مکتوب نگاری دراصل شخصی اظہار کا ایک لطیف ذریعہ ہے، جہاں مکتوب نگار کا مخاطب ایک فرد ہوتا ہے، جبکہ دیگر ادبی اصناف میں تخاطب کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور کئی لوگ مخاطب ہوتے ہیں۔

کچھ اہلِ قلم نے ایسے اعلیٰ پائے کے خطوط تحریر کیے ہیں کہ مکتوب نگاری کو ایک مستقل ادبی صنف کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ ایسے خطوط کا مطالعہ اس لیے بھی زیادہ دلکش ہوتا ہے کہ مخاطب کوئی بھی ہو، اگر مکتوب نگار کی تحریر میں تاثیر اور کشش ہو تو ہر پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔

بعض خطوط تو ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں ادب کے شہ پارے کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں غالب، شبلی، مہدی افادی، چودھری محمد علی رودولوی، رشید احمد صدیقی، منٹو، میراجی، اور ابوالکلام آزاد کے خطوط کو خاص مقام حاصل ہے۔ ان کے خطوط ادب میں ایک لازوال ورثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

مرزا غالب (1797 تا 1869) نے نثر نگاری کا آغاز فارسی سے کیا، اور ان کی تین معروف تصانیف “پنج آہنگ”، “مہر نیمروز”، اور “دستنبو” نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ اردو میں بھی ان کے چار نثری رسالے ملتے ہیں۔ علاوہ ازیں، غالب نے مختلف کتابوں پر دیباچے، تقریظیں اور متفرق تحریریں بھی قلمبند کیں۔ ان کی نثر عام طور پر سادہ اور صاف تھی، لیکن ان کا سب سے اہم نثری کارنامہ ان کے خطوط ہیں۔ غالب نے اردو مکتوب نگاری کو ایک نئی جہت بخشی۔ حالی کے الفاظ میں
مرزا کی اردو خط و کتابت کا طریقہ فی الواقع سب سے نرالا ہے۔ نہ مرزا سے پہلے کسی نے اس طرز کو اپنایا اور نہ ان کے بعد کوئی اس کی پوری تقلید کر سکا۔

غالب نے خط کو مکالمہ بنا دیا۔ ان کے خطوط میں ان کی ذاتی زندگی اور ان کے عہد کا عکس انتہائی دلکش انداز میں دکھائی دیتا ہے، خصوصاً 1857 کے واقعات اور اس کے ماحول کو انہوں نے نہایت تفصیل سے قلمبند کیا، جس سے ان خطوط کی حیثیت تاریخی دستاویز کی ہو جاتی ہے۔

غالب کے اردو خطوط کے دو مشہور مجموعے “عود ہندی” اور “اردوئے معلیٰ” آج بھی بہت مقبول ہیں۔ ان کا منفرد اسلوب، جس میں واقعہ نگاری، منظر کشی اور جذبات نگاری کا حسین امتزاج ہے، کوئی دوسرا اختیار نہ کر سکا۔ ساتھ ہی ساتھ، طنز و مزاح کا خوبصورت رنگ بھی ان کی نثر میں نمایاں ہے، جو اسے اور بھی دلکش بناتا ہے۔

یہ خط مرزا غالب نے منشی ہر گوپال تفتہ کے نام 5 دسمبر 1857 کو لکھا۔ غالب اس خط میں اپنے پرانے دوستوں اور زمانوں کی یاد تازہ کرتے ہیں، خاص طور پر ماضی میں ان کے اور منشی نبی بخش حقیر کے درمیان جو ربط تھا، اس کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ موازنہ کرتے ہیں کہ جیسے وہ دوبارہ جنم لے چکے ہوں، لیکن اب نہ وہ دوست ہیں اور نہ وہ ماحول۔

غالب دہلی کے اس تباہ کن دور کا ذکر کرتے ہیں جب شہر اجڑ گیا تھا، اور مسلمانوں کی آبادی تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ دہلی میں کوئی مسلمان نظر نہیں آتا، امیر و غریب سب نکل چکے ہیں۔ وہ حکیم محمد حسن خاں کے مکان میں کرایے پر رہتے ہیں، جو کہ دہلی کی غارت کے دوران محفوظ رہا تھا، لیکن وہ خود خوف میں زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔

وہ اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ اس ہنگامے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا اور وہ صرف اشعار کی اصلاح کرتے رہے۔ شہر میں ان کی موجودگی حکام کو معلوم ہے، لیکن چونکہ ان پر کوئی الزام نہیں، اس لیے ان کی طلبی نہیں ہوئی۔ غالب تفتہ کو دہلی نہ آنے کی تاکید کرتے ہیں کیونکہ حالات ابھی بہتر نہیں ہوئے اور مسلمانوں کی آبادی بحال ہونے کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا۔

غالب کے جملے “دوسرا جنم ہم کو ملا” میں ان کی مراد ایک نئے دور، نئے حالات اور ایک مختلف زندگی سے ہے۔ یہ جنم اصل زندگی کا نہیں، بلکہ زندگی کی ایک نئی حالت یا شکل ہے جو انہیں 1857 کے غدر کے بعد ملی۔ غالب اپنے پرانے دوستوں اور خوشیوں کو یاد کرتے ہیں جو ان کے ساتھ ایک زمانے میں تھے، لیکن اب وہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ دہلی میں حالات بدل چکے ہیں، پرانی محفلیں، پرانے دوست اور پرانا سکون سب ختم ہو چکا ہے۔ اس نئے “جنم” میں نہ وہ پرانے دوست موجود ہیں، نہ ہی وہ پُرانی خوشیوں کا ماحول، اور غالب ان بدلتے حالات میں خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ دہلی میں اب ایک نئی زندگی ہے جس میں پہلے کی طرح کی خوشیاں اور دوستیاں نہیں رہی ہیں، بلکہ غم، ویرانی اور سیاسی عدم استحکام غالب ہے۔

غالب اس جملے سے دراصل اپنے دل کی گہرائیوں میں موجود اُس دکھ کو ظاہر کرتے ہیں جو انہیں اُس وقت کے بدلتے حالات کی وجہ سے محسوس ہو رہا تھا۔ ان کی زندگی میں اب وہ لوگ نہیں رہے جو کبھی ان کے قریبی ساتھی تھے، اور دہلی کے حالات بھی اس قدر بدل گئے ہیں کہ وہ اپنے پرانے شہر اور پرانی زندگی کو پہچان نہیں پا رہے۔

غالب کا یہ جملہ دہلی کے اس دور کے خطرناک اور پراسرار ماحول کو ظاہر کرتا ہے۔ 1857 کے غدر کے بعد انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا تھا، اور وہ ہر اس شخص کو مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے جس کا کسی بھی طرح سے بغاوت یا مخالفت میں شامل ہونے کا امکان ہوتا۔ جاسوس اور مخبر ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے، اور چھوٹی سی بات پر لوگوں کو پکڑ کر سزا دی جاتی تھی۔ غالب، جو کہ ایک مشہور شاعر اور نثر نگار تھے، ان حالات سے بخوبی واقف تھے، اور وہ جانتے تھے کہ کچھ لکھنے یا کہنے کا غلط مطلب لیا جا سکتا ہے۔

مفصل حال لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ غالب موجودہ حالات کی تفصیل میں جانے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے الفاظ کو غلط طور پر پیش کیا جا سکتا ہے یا ان پر کوئی الزام لگ سکتا ہے۔ دہلی میں لوگوں کے حالات بدتر تھے، لیکن وہ ان سب کو تفصیل سے لکھنے سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ کہیں انگریز حکام یا مخبر ان کے خطوط کو بغاوت سے جوڑ کر انہیں گرفتار نہ کر لیں۔

اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ غالب نے 1857 کے غدر اور اس کے بعد پیدا ہونے والے فتنہ و فساد سے خود کو دور رکھا اور کسی بھی سیاسی یا فوجی مصلحت میں حصہ نہیں لیا۔ غالب یہ واضح کر رہے ہیں کہ وہ ایک شاعر اور ادیب ہیں اور ان کی دلچسپی صرف ادب اور شاعری تک محدود ہے، نہ کہ سیاست یا جنگ میں۔ “مصلحت” سے مراد ایسی کوئی بھی چال یا حکمت عملی ہے جس میں شامل ہو کر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو، لیکن غالب نے اس سب سے دور رہنے کی کوشش کی۔

غالب کا یہ بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے دور کے سیاسی اور عسکری معاملات سے لا تعلق رہنا چاہتے تھے، اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا نام کسی بھی فتنہ یا سازش سے منسلک نہ ہو۔ اس جملے میں غالب کی وہ کوشش نظر آتی ہے جو وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کر رہے تھے، تاکہ انہیں کسی بھی قسم کے سیاسی یا حکومتی دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں کا مطلب ہے کہ دہلی کے زیادہ تر گھروں میں زندگی ختم ہو چکی ہے۔ 1857 کے غدر اور انگریزوں کی دہلی پر چڑھائی کے بعد بیشتر لوگ یا تو مارے گئے، شہر چھوڑ گئے، یا گرفتار کر لیے گئے۔ اس جملے میں “بے چراغ” کا مطلب ہے کہ ان گھروں میں کوئی نہیں بچا جو وہاں روشنی یا زندگی کا نشان ہو۔ یہ جملہ شہر کی ویرانی اور تباہ حالی کو بیان کرتا ہے، جہاں نہ صرف مادی نقصان ہوا ہے، بلکہ سماجی اور روحانی نقصان بھی عظیم ہے۔

غالب اس جملے سے دہلی کی اُس حالت کو ظاہر کرتے ہیں جو انہیں ہر طرف نظر آتی ہے۔ جن گھروں میں کبھی روشنی، خوشیاں اور لوگ ہوا کرتے تھے، اب وہاں سنّاٹا اور ویرانی ہے۔ یہ ایک بہت ہی دردناک تصویر پیش کرتا ہے کہ دہلی کے شہری کیسے اپنے گھروں، خوشیوں اور زندگانی سے محروم ہو گئے ہیں۔

مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں میں غالب ان لوگوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو 1857 کی بغاوت کے دوران یا بعد میں انگریزی حکومت کی نظر میں مجرم قرار پائے۔ انگریزوں نے بغاوت کے بعد دہلی میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، اور جو بھی ان کی نظر میں مشکوک یا باغی نظر آتا، اسے سزا دی جاتی تھی۔ یہاں “مجرم سیاست” سے مراد وہ لوگ ہیں جو سیاسی بنیادوں پر مجرم قرار دیے جا رہے تھے، چاہے وہ واقعی بغاوت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔

غالب کا یہ جملہ اس وقت کے خوفناک سیاسی ماحول اور انگریزوں کی سختیوں کو ظاہر کرتا ہے، جہاں کسی بھی شخص پر بغاوت کا الزام لگا کر اسے مجرم قرار دیا جا سکتا تھا۔ دہلی کے لوگ اس وقت شدید دباؤ اور خوف میں زندگی گزار رہے تھے، اور غالب اس جملے کے ذریعے اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں۔

مرزا غالب کا زمانہ، خاص طور پر 1857 کے غدر کا دور، ہندوستان کی تاریخ کا ایک انقلابی اور پراگندہ دور تھا۔ دہلی اس وقت ہندوستان کی مرکزی سلطنت کا حصہ تھا، اور 1857 کی بغاوت یا جنگ آزادی نے اس شہر کو بُری طرح متاثر کیا۔ اس بغاوت میں مقامی باشندوں نے انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کی، لیکن جب انگریزوں نے اس بغاوت کو کچلا، تو دہلی کی حالت انتہائی ابتر ہو گئی۔

غالب کے خطوط میں اس دور کی دہلی کی تباہی، ویرانی اور لوگوں کی حالتِ زار واضح طور پر نظر آتی ہے۔ وہ اپنے خطوط میں شہر کی ویرانی، گھروں کی خالی حالت اور لوگوں کی ہجرت کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ انگریز حکومت نے دہلی کے مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا، ان کے گھروں کو تباہ کیا، اور جو بھی بغاوت میں ملوث تھا یا مشکوک تھا، اسے پکڑ کر سزائیں دی گئیں۔

غالب کے خطوط اس دور کی سیاسی، سماجی اور ذاتی مشکلات کا ایک زندہ ریکارڈ ہیں۔ وہ دہلی کے اس خوفناک دور کو اپنی نثر میں بڑی حساسیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جس سے نہ صرف شہر کی ویرانی کا نقشہ سامنے آتا ہے، بلکہ اس دور کے لوگوں کے دلوں میں موجود خوف، غم اور بے بسی بھی عیاں ہوتی ہے۔

یہ خط مرزا غالب نے منشی نبی بخش حقیر کو لکھا ہے۔ غالب اس میں موجودہ حالات اور اپنی روزمرہ زندگی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گرمی اس سال بے حد شدید ہے، ایسی گرمی اور دھوپ انھوں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ بارش کا بھی ذکر کرتے ہیں، جو جیٹھ کے مہینے میں غیر معمولی طور پر ہوئی۔ وہ رمضان کے روزے کا حال بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ روزے کو “بہلا” لیتے ہیں، یعنی کبھی پانی پی لیتے ہیں، کبھی حقہ یا روٹی کھا لیتے ہیں، جسے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ روزہ نہیں رکھتے، حالانکہ روزہ بہلانا ان کے لیے ایک الگ چیز ہے۔

غالب جے پور کے حالات کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منشی صاحب سے آپ کو خبر مل چکی ہوگی، اس لیے دوبارہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہاتھرس میں ہونے والے بلوے اور مجسٹریٹ کے زخمی ہونے کی خبر پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور منشی نبی بخش سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس بارے میں مزید تفصیل فراہم کریں۔

خلاصہ یہ کہ غالب نے اپنے روزمرہ حالات، موسم کی شدت،اوربلوے کی خبروں کا ذکر کیا ہے اور ان سے متعلق اپنے خیالات اور سوالات بیان کیے ہیں۔

غالب نے گرمی کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ انہوں نے اپنے ساٹھ سالہ تجربے میں ایسی شدید گرمی نہیں دیکھی۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس موسم میں دھوپ اور تپش انتہائی ناقابل برداشت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

یہ الفاظ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ موجودہ موسم کی شدت اس قدر ہے کہ اس کا موازنہ ماضی کے تجربات سے نہیں کیا جا سکتا۔

غالب نے رمضان کے چھٹے اور ساتویں روز ہونے والی بارش کا ذکر کیا، جو جیٹھ کے مہینے میں بھی غیر معمولی ہے۔ یہ بارش موسم کی شدت کو کچھ کم کرتی ہے، مگر وہ اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ بارش کے بعد ہوا میں ابر آلودگی برقرار رہتی ہے، جس کی وجہ سے موسم میں کسی قسم کی راحت محسوس نہیں ہوتی۔

یہ الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ دھوپ کی شدت نے روزہ رکھنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔غالب کے یہ الفاظ قاری کو موسم کی سختی کی شدت محسوس کراتے ہیں اور اس کے اثرات کو بھی واضح کرتے ہیں۔

غالب کی مکتوب نویسی کی خصوصیات درج ذیل ہیں

غالب کی تحریر عام طور پر بہت آسان اور سلیقے سے لکھی گئی ہوتی ہے۔ ان کے خطوط پڑھنے میں دلچسپ ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں جملے کی ساخت اور الفاظ کا انتخاب انتہائی مہارت سے کیا گیا ہے۔ اس طرح کے خطوط کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی عزیز دوست سے بات کر رہے ہیں۔

غالب اپنی زندگی کے تجربات اور احساسات کو خطوط میں شامل کرتے ہیں، جو انہیں ایک خاص شخصی رنگ دیتے ہیں۔ جیسے کہ خط میں روزے کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنی روزمرہ کی مشقوں کے بارے میں لکھتے ہیں، جیسے “روزہ بہلاتا رہتا ہوں”۔ یہ خاص انداز انہیں اپنے قاری کے قریب لے آتا ہے۔

غالب کے خطوط میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ وہ مختلف موضوعات پر مزاحیہ تبصرے کرتے ہیں، جیسے روزہ نہ رکھنا اور “روزہ بہلانا”۔ یہ بات قاری کو مسکرانے پر مجبور کرتی ہے اور ان کی تحریر کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔

غالب کے خطوط میں اُس وقت کے حالات اور واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان کے خطوط ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے کہ ہاتھرس کے بلوے کا ذکر، جو اُس دور کے سیاسی اور سماجی حالات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

غالب اپنی تحریر میں جذبات کی عکاسی کرتے ہیں، جیسے وہ اپنی روزمرہ زندگی، تکلیفوں اور خوشیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ جذباتی پہلو ان کی تحریر کو مزید دلکش بناتا ہے۔

غالب کے خط کے مطابق، ہاتھرس میں فساد کی کئی وجوہات تھیں

راہیں چوڑی کرنے” کے حکومتی حکم پر لوگوں نے احتجاج کیا۔ یہ حکم عام لوگوں کے لئے غیر مقبول تھا، کیونکہ اس کے نتیجے میں ان کی حویلیاں اور دوکانیں متاثر ہوئیں۔

جب حکومت کی طرف سے بلڈوزر کے ذریعے عمارتیں گرائی گئیں، تو لوگوں کا صبر جواب دے گیا۔ لوگوں نے احتجاج کیا، پتھراؤ کیا، اور اس دوران مجسٹریٹ بھی زخمی ہوا۔

غالب اس بات پر حیران ہیں کہ اگر واقعی اس طرح کے حالات تھے تو پھر مجسٹریٹ وہاں سے کیوں نہیں گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی ایک واضح لکیر موجود تھی۔

یہ سب عوامل مل کر ہاتھرس میں فساد کی شکل میں سامنے آئے، جس نے وہاں کے سماجی اور سیاسی ماحول کو بگاڑ دیا۔

Scroll to Top