ترانئہ ہندی
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
تشریح
یہ شعر علامہ اقبال کی مشہور نظم ’ترانۂ ہندی‘ سے لیا گیا ہے جو 1904ء میں لکھی گئی۔ اس نظم میں اقبال نے وطن سے محبت اور اس پر فخر کا جذبہ پیش کیا۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہمارا ہندوستان دنیا کے تمام ملکوں سے بہتر ہے۔ یہاں کے مناظر، فضائیں اور خوبصورتی ہمیں سکون اور خوشی دیتی ہیں۔ ہم اس ملک کے رہنے والے ایسے ہی ہیں جیسے بلبل اپنے گلستاں میں خوش ہو کر چہکتی ہے۔ شاعر نے اپنے وطن کو باغ اور اس کے باشندوں کو بلبل سے تشبیہ دے کر وطن کی عظمت کو واضح کیا ہے۔
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
تشریح
اس شعر میں علامہ اقبال نے وطن سے محبت اور قربت کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چاہے ہم پردیس میں رہیں یا دنیا کے کسی بھی حصے میں، ہمارے دل کی تڑپ اور محبت ہمیشہ اپنے وطن کے لیے ہی رہتی ہے۔ دل کی وابستگی یہ بتاتی ہے کہ انسان کی اصل پہچان اس کا وطن ہے۔ وطن سے دوری جسمانی ہو سکتی ہے مگر دل ہمیشہ اسی سرزمین کے ساتھ جڑا رہتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا اور پروان چڑھا۔ اس طرح شاعر نے پردیس میں رہنے والوں کے دل کی کیفیت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
پر بت وہ سب سے انچا ہم سایہ آسمان کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
تشریح
یہ شعر علامہ اقبال کی مشہور نظم ’ترانۂ ہندی‘ سے لیا گیا ہے۔ اس میں اقبال نے ہمالیہ پہاڑ کا ذکر کیا ہے جو اپنی بلندی اور شان و شوکت کے باعث آسمان سے ہم کلام معلوم ہوتا ہے۔ شاعر نے اسے “سنتری” اور “پاسباں” کہا ہے۔ سنتری سے مراد وہ سپاہی ہے جو چوکسی سے پہرہ دیتا ہے، اور پاسباں سے مراد محافظ ہے۔ اقبال کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہمالیہ پہاڑ قدرت کی طرف سے ہمارے وطن کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط دیوار کی طرح موجود ہے۔ یہ پہاڑ وطن کی عظمت اور حفاظت کی علامت ہے۔
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا
تشریح
یہ شعر علامہ اقبال کی مشہور نظم ’ترانۂ ہندی‘ سے ہے۔ شاعر نے اس شعر میں ہندوستان کی قدرتی خوبصورتی کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے وطن کی وادیوں اور پہاڑوں میں بے شمار ندیاں اور دریا بہتے ہیں جو زمین کو زرخیز اور دلکش بناتے ہیں۔ ان ندیوں کے پانی سے باغات سرسبز اور شاداب ہوتے ہیں۔ یہی سرسبزی اور رونق ہمارے وطن کو ایسا حسین گلشن بنا دیتی ہے جو جنت کے باغات کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ شاعر نے یہاں وطن کی خوبصورتی اور قدرتی حسن پر فخر کا اظہار کیا ہے۔
اےآب رودِ گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
تشریح
اس میں شاعر نے محبتِ وطن اور تاریخی پس منظر کو بیان کیا ہے۔ اقبال گنگا کے دریا کو ایک پرانے دوست کی طرح مخاطب کرتے ہیں اور اسے یاد دلاتے ہیں کہ جب قدیم زمانے میں ہمارے بزرگ اور قافلے اس کے کنارے آئے تھے تو انہوں نے یہاں سکونت اختیار کی، زراعت کی اور اپنی تہذیب قائم کی۔ اس طرح گنگا کا دریا ہماری تاریخ اور تہذیب کا گواہ ہے۔ شاعر نے وطن کی سرزمین کے ساتھ جذباتی اور روحانی رشتہ ظاہر کیا ہے۔
مذہب نہیں سکھا تا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
تشریح
شاعر نے اس میں مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کا پیغام دیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ چاہے کوئی ہندو ہو، مسلمان ہو، سکھ ہو یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، سب مذاہب کی اصل تعلیم محبت، امن اور بھائی چارہ ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو دشمنی یا نفرت نہیں سکھاتا۔ اقبال زور دیتے ہیں کہ چونکہ ہم سب ہندوستان کے باشندے ہیں، اس لیے ہمارا رشتہ وطن کی محبت میں جڑنا چاہیے۔ یہی رشتہ ہمیں مضبوط اور کامیاب بنائے گا۔
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
تشریح
علامہ اقبال نے اس شعر میں تاریخ کے تین بڑے مراکز یونان، مصر اور روم کا ذکر کیا ہے۔ یہ وہ قومیں تھیں جو اپنے وقت میں علم، فلسفہ، فنونِ لطیفہ اور حکومت میں دنیا کی رہنما سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن وقت نے انہیں مٹا دیا اور آج ان کا صرف نام باقی ہے۔ اس کے مقابلے میں امتِ مسلمہ کی تہذیب اور اس کا نام و نشان آج بھی قائم ہے۔
اقبال اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اسلام ایک زندہ اور ابدی دین ہے۔ وہ امت کو یاد دلاتے ہیں کہ اگر ہم اپنے دین سے وابستہ رہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مٹا نہیں سکتی۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِزماں ہمارا
تشریح
علامہ اقبال نے اس شعر کے ذریعہ حب الوطنی کے جذبے کی جھلک پیش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہندوستان کی قوم میں ایسی مضبوطی اور روحانی طاقت ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی مشکلات، دشمنوں کی سازشیں اور زمانے کے نشیب و فراز بھی ہماری ہستی کو مٹا نہیں سکے۔ صدیوں تک بیرونی حملے اور ظلم ہوتے رہے، لیکن ہماری تہذیب، ہماری شناخت اور ہمارا وجود اب بھی قائم ہے۔ اس شعر میں اقبال نے قوم کے حوصلے اور اس کی طاقت پر فخر کا اظہار کیا ہے۔
اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہا ں ہمارا
تشریح
اس شعر میں علامہ اقبال نے اپنی تنہائی اور دل کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں انہیں کوئی ایسا ساتھی یا ہم درد نہیں ملتا جو ان کے دل کی گہرائیوں کو سمجھے اور ان کے دکھ کو بانٹے۔ “دردِ نہاں” سے مراد وہ غم اور کرب ہے جو اقبال اپنی قوم کی پستی اور غلامی کو دیکھ کر محسوس کرتے ہیں۔ شاعر کو دکھ ہے کہ لوگ اس درد کو سمجھنے کے بجائے غفلت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح یہ شعر ذاتی کرب کے ساتھ ساتھ قومی درد اور فکر کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
نظم کا مر کزی خیال
علامہ اقبال کی یہ نظم “ترانۂ ہندی” وطنِ عزیز ہندوستان کی محبت اور عظمت کو بیان کرتی ہے۔ شاعر نے اس میں ہندوستان کی خوبصورتی، فطری مناظر، دریاؤں، پہاڑوں اور باغوں کی دلکشی کو اجاگر کیا ہے۔ ساتھ ہی وہ قوم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ سب مذاہب امن اور محبت سکھاتے ہیں، اس لیے ہمیں باہمی اتحاد اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہیے۔
اقبال یاد دلاتے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ شاندار ہے اور دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں مٹ گئیں، مگر ہمارا نام و نشاں آج بھی باقی ہے۔ دشمنوں کی سازشوں اور زمانے کی سختیوں کے باوجود ہماری ہستی قائم ہے۔ اس نظم کا مقصد طلبہ اور عوام میں حب الوطنی، اتحاد، اور وطن پر فخر کے جذبات کو ابھارنا ہے۔