شاد عظیم آبادی
میرؔ اور پھر غالبؔ کے دور میں اردو غزل اپنے عروج پر تھی، لیکن اس کے بعد ایک ایسا دور بھی آیا جب اردو غزل کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک میں انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی، اور ہر چیز کو انگریزی معیار پر پرکھا جانے لگا۔ جب اردو شاعری کا انگریزی شاعری سے موازنہ کیا گیا، تو ہمارے بڑے شعرا، خصوصاً سرسید اور حالیؔ کو یہ کمزور اور بےکار نظر آئی۔ انہوں نے بار بار کہا کہ جو ادب فائدے اور مقصد سے خالی ہو، اس کے باقی رہنے کا کوئی حق نہیں۔
لاہور میں مولانا محمد حسین آزاد نے ایک مشاعرے کی بنیاد رکھی، جس میں روایتی طرحی مصرعے کے بجائے ایک عنوان دیا جاتا تھا، اور شاعر اس موضوع پر نظمیں سناتے تھے۔ اس وقت خواجہ الطاف حسین حالی ؔ بھی ملازمت کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھے۔ انہوں نے کئی مشاعروں میں شرکت کی اور کئی نظمیں لکھیں۔ مولانا محمد حسین آزاد نے نظم نگاری کی حمایت میں ایک اہم تقریر کی، اور مولانا حالیؔ نے قصیدہ اور غزل کے خلاف آواز اٹھائی، اور نظم کی اہمیت پر زور دیا۔
ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوئیں اور نظم کو فروغ ملنے لگا۔ اس وقت عام طور پر یہ خیال کیا جانے لگا کہ غزل کا دور اب ختم ہو چکا ہے، اور یہ زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکے گی۔ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ آنے والا وقت نظم کا دور ہوگا، نہ کہ غزل کا۔
جب لوگ غزل سے مایوس ہو چکے تھے اور اس کے خاتمے کو قریب سمجھ رہے تھے، تب اردو شاعری میں ایک نئی آواز سنائی دی جس نے قارئین اور سامعین کو حیران کر دیا۔ یہ آواز شاد عظیم آبادی کی تھی۔ غالبؔ نے شاد کے دور سے کچھ پہلے اردو غزل کے موضوعات کو وسعت دی اور اسے نئی سمتوں سے روشناس کیا، لیکن عام شعراء ابھی تک پرانے اور روایتی مضامین کو تھوڑے بہت لفظی رد و بدل کے ساتھ پیش کر رہے تھے۔ اس وجہ سے اردو غزل میں کشش باقی نہیں رہی تھی۔
شاد کی غزل موضوع اور انداز دونوں لحاظ سے مختلف تھی۔ انہوں نے جہاں تک ممکن ہو سکا، پرانے اور عام مضامین سے دوری اختیار کی۔ جھوٹے عشق کے پرانے قصے ان کے لیے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اگرچہ شاد کی غزل میں منفرد اور اعلیٰ درجے کے خیالات نظر نہیں آتے، لیکن روزمرہ زندگی کے وہ تجربات جو تازگی سے بھرپور ہوتے ہیں اور ہماری حقیقی زندگی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، وہ ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ تجربات یقینی طور پر اہم اور قیمتی کہے جا سکتے ہیں۔
موضوعات کے علاوہ، شاد کی غزل کا انداز بھی اس دور کے عام اردو شاعروں سے مختلف ہے۔ دہلی کے دبستانِ شاعری کی خاص بات سادگی ہے، جبکہ لکھنو کے دبستان کی بنیاد بناوٹ اور رنگینی ہے۔ شاد کا ذہنی میل دہلی کے دبستان سے زیادہ ہے، لیکن انہوں نے لکھنو کے دبستان سے بھی بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ان کی شاعری میں بناوٹ یا تصنع بالکل نہیں ہے، لیکن ان کا شگفتہ انداز قاری سے تعریف حاصل کرتا ہے۔ اگر میرؔ کے سادہ اور بے ساختہ انداز میں آتشؔ کی رنگینی مل جائے، تو شاد کا انداز وجود میں آتا ہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دہلی اور لکھنو دونوں دبستانوں کی خوبیاں اپنائیں اور خامیوں کو چھوڑ دیا۔
شاد عظیم آبادی کےمتعلق سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں
شاد کی شاعری حسن و عشق کے عامیانہ اور سوقیانہ انداز بیان سے تمام تر پاک ہے۔ پاک بازانہ حسن و عشق ، رزم و بزم کی دلکش روداد کے علاوہ ان کی شاعری میں اخلاق، فلسفہ، تصوف اور توحید کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ غزل گوئی کے لحاظ سے شاد میں میر ؔ کے بہت سے اندازہ پائے جاتے ہیں ۔حسن و عشق کی داستان سرائی میں وہی سادگی اور متانت ہے جھوٹے الفاظ میں ساده ترکیبیں ہیں، بیان میں و ہی رفعت ہے۔ میر ؔ ہی کے اوزان و بحور میں وہی انداز کلام ہے، وہی فقیرانہ صدا ہے۔ اس لیے شاد ؔ کو اس دور کا میر ؔ کہا جائے تو بالکل بجا ہے “۔
شادؔ ایک جدید ذہن کے مالک تھے۔ وہ کافی عرصے تک آنریری مجسٹریٹ رہے اور اس ذمہ داری کو بہت اچھے طریقے سے نبھایا۔ ان کے ذہین ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ وہ ان چند لوگوں میں شامل تھے جو سرسید کی تعلیم اور اصلاحی تحریک کی حمایت کرتے تھے۔ شاد نے حالیؔ کے تعاون سے سرسید سے ملاقات کی، علی گڑھ میں قیام کیا، حالیؔ اور بورڈنگ ہاؤس کا دورہ کیا، اور اس سے متاثر ہو کر کئی رباعیاں لکھیں، جو سرسید کی خدمت میں پیش کیں۔ سرسید ان رباعیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انہیں اپنے خاص نوٹ کے ساتھ علی گڑھ گزٹ میں شائع کروایا۔
“اس ہفتے جناب مستطاب سید علی محمد صاحب شاد رئیس پٹنہ جو اپنے کمالات میں مشہور و بے مثال ہیں۔ دہلی سے مراجعت کرتے وقت علی گڑھ میں اترے اور مدرستہ العلوم کے بنگلے میں مہمان ہوئے مدرسہ اور بورڈنگ کو ملاحظ کر کے اظہار مسرت کیا اور معائنے کے وقت دس بارہ پاکیزہ رباعیاں عالی مضامین کے ساتھ تصنیف فرمائیں جن کو میں نہایت خوشی اور شکر گزاری کے ساتھ ذیل میں چھاپتا ہوں۔ان میں سے دور با عیاں یہاں درج کی جاتی ہیں۔
پورا مری اک عمر کا ارمان کیا
کس لطف سے ہر طرح کا سامان کیا
سید سے ملا مرسہ بھی دیکھا
حالی نے یہ بہت بڑا احسا ن کیا
سرما ئہ عمر جادو دانی ہے یہی
اس قوم کی دلچسب کہانی ہے یہی
اب صفحہ دنیا سے مٹے گی نہ کبھی
سید تری ہمت کی نشانی ہے یہی
اپنی مصروفیات کے باوجود شاد نے شاعری کی طرف پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ توجہ دی۔ ان کی خداداد صلاحیت اور مسلسل محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاد کا کلام اہل نظر کے لیے خوشی کا باعث بن گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے۔
یہ بزم سے ہے، یاں کوتاہ دستی میں بے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
بزم سے مراد دنیا ہے، اور دنیا کو شراب کی محفل اس لیے کہا گیا کہ جیسے نشے کی حالت میں ہر کسی کو صرف اپنی فکر ہوتی ہے، ویسے ہی دنیا کا بھی حال ہے۔ یہاں جس نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا، یعنی کوئی کوشش نہ کی، وہ مینا یعنی نرمی سے محروم رہا۔ اور جس نے ہاتھ بڑھایا، اسے صراحی یعنی کامیابی مل گئی۔ مطلب یہ کہ دنیا میں کامیابی اسی کو ملتی ہے جو انتظار نہ کرے بلکہ جو کچھ حاصل کرنا ہے، اپنی کوشش سے حاصل کرے۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اسے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم