Tohmat chand apne zimme dhar chale ghazal ki tashreeh تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے غزل کی تشریح

اس شعر میں خواجہ میر دردؔ زندگی کی حقیقت اور انسان کے مقصدِ حیات کو بڑی سادگی مگر گہرے فلسفیانہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر دنیا والوں نے طرح طرح کے الزام لگائے مگر ہم نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ لوگ ہمیشہ نیکوں پر تہمت لگاتے ہیں مگر سچا انسان اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ دردؔ کہتے ہیں کہ ہم اس دنیا میں جس فریضے کے لیے آئے تھے یعنی اپنے خالق کی پہچان، نیک عمل اور خدمتِ خلق کے لیے وہ ہم انجام دے کر جا رہے ہیں۔ یہ شعر بے نیازی اور دنیاوی شہرت سے لاتعلقی کا مظہر ہے۔ اس میں انسان کے سفرِ زندگی کو ایک فرض کی تکمیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کے بعد واپسی یقینی ہے۔

یہاں شاعر زندگی کو ایک طوفان سے تشبیہ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی سکون اور قرار کا نام نہیں بلکہ مصیبتوں، دکھوں اور پریشانیوں کا طوفان ہے۔ ہر طرف مصائب کی آندھیاں ہیں جو انسان کو بہا لے جاتی ہیں۔ دردؔ کہتے ہیں کہ ہم تو اس جینے کے دکھوں سے ہی مر گئے یعنی زندگی نے ہمیں اتنا ستایا کہ جینا خود ایک عذاب بن گیا۔ یہ شعر اس احساس کو ظاہر کرتا ہے کہ زندگی کا تسلسل خود موت کے قریب لے آتا ہے۔ شاعر کی زبان میں یہاں ایک شکوہ بھی ہے اور ایک روحانی احساس بھی کہ دنیا کی زندگی فانی اور بے قرار ہے۔

اس شعر میں دردؔ دنیا کی ناپائیداری کو پھولوں کی مثال سے ظاہر کرتے ہیں۔ وہ صبا یعنی ہوا سے کہتے ہیں کہ ہمیں ان پھولوں سے کیا غرض جو ایک لمحے کے لیے کھلتے ہیں اور فوراً مرجھا جاتے ہیں۔ یہاں پھول دنیا کی خوشیوں، آسائشوں اور رشتوں کی علامت ہیں جو وقتی اور زوال پذیر ہیں۔ شاعر کے نزدیک ان چیزوں سے دل لگانا فضول ہے کیونکہ یہ سب عارضی ہیں۔ دردؔ کا یہ شعر تصوف کی گہرائی کو چھوتا ہے جہاں دنیا کو فانی اور غیر حقیقی سمجھا جاتا ہے۔

یہ شعر دردؔ کے فلسفۂ حیات کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اے دوستو! ہم نے اس دنیا کا تماشا دیکھ لیا، یہاں کی خوشیاں، غم، دھوکے اور دکھ سب کا تجربہ کر لیا۔ اب ہم تھک گئے ہیں اور اپنے گھر یعنی آخرت کی طرف جا رہے ہیں۔ یہاں اپنا گھر قبر یا روحانی مقام کی علامت ہے جہاں ابدی سکون ملتا ہے۔ شاعر دنیا سے بیزاری نہیں بلکہ ایک پُرسکون رخصتی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں کو خوش رہنے کی تلقین کرتے ہیں گویا کہ یہ دنیا ایک میلہ ہے جو کبھی ختم ہو جاتا ہے۔

یہاں شاعر محبوب سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تیرا جادو کسی اور پر چلے گا، تب ہمارا دل جلے گا۔ مگر اب ہمارا دل اتنا دکھ سہہ چکا ہے کہ اب کوئی نیا دکھ بھی ہمیں متاثر نہیں کر سکتا۔ دردؔ کے اس شعر میں ایک ٹھنڈا دکھ چھپا ہے ایسا دکھ جو تڑپ نہیں بلکہ قبولیت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ عاشق کے دل کی تھکن اور مایوسی کا اظہار ہے جہاں وہ محبت کے ہر دکھ کو برداشت کر چکا ہے اور اب کسی نئی اذیت کا اثر باقی نہیں۔

دردؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ میں زخم خوردہ دل والا ہوں اور میرا دوست بھی ویسا ہی ہے۔ یعنی ہم دونوں محبت کے غم میں مبتلا ہیں۔ زمانے میں سنا ہے کہ بہت سے عاشقوں کے زخم بھر گئے مگر ہمارے زخم اب تک نہیں بھرے۔ یہ شعر عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی دونوں پہلوؤں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دل کا زخم محبتِ الٰہی سے لگا ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ دنیاوی معنی میں یہ عاشق کا درد ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔

یہ شعر دردؔ کی زندگی کے دردناک مگر روحانی پہلو کو بیان کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی اس بزم میں آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ آئے اور جاتے وقت بھی دامن تر کر کے جا رہے ہیں۔ شمع جلتی ہے تو روشنی دیتی ہے مگر خود کو جلا ڈالتی ہے ویسے ہی ہم نے بھی دوسروں کو خوشی دی مگر خود دکھ سہتے رہے۔ یہ شعر ایثار، قربانی اور دنیا سے بے نیازی کا خوبصورت اظہار ہے۔

اس شعر میں طنز کا رنگ نمایاں ہے۔ شاعر مذہبی پیشواؤں پر چوٹ کرتا ہے جو خدا کو ڈھونڈنے کے لیے جنگل پہاڑ یا خانقاہوں میں نکل جاتے ہیں۔ دردؔ کہتے ہیں کہ شیخ صاحب خدا کو اپنے دل کے اندر نہیں دیکھتے بلکہ گھر چھوڑ کر باہر تلاش کرتے ہیں۔ یہ شعر تصوف کے اس نظریے پر مبنی ہے کہ خدا انسان کے اندر موجود ہے باہر نہیں۔

یہ شعر عشق کی بے بسی کا مظہر ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم چاہ کر بھی تجھ سے دور نہ جا سکے کیونکہ جدھر بھی گئے تیری یاد نے راستہ روک لیا۔ یہ محبوب چاہے انسان ہو یا خدا اس کی محبت اتنی طاقتور ہے کہ عاشق کی ہر راہ اسی کی طرف لوٹ آتی ہے۔ یہ عشق کی مکمل سپردگی کا بیان ہے۔

یہ شعر دردؔ کے نام کی توجیہ بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں اکیلے آئے تھے مگر اب جاتے وقت درد کو ساتھ لے جا رہے ہیں۔ یہ درد ہماری زندگی کا حاصل ہے جو روح کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ یہ درد محبت، تجربہ اور روحانی شعور کا استعارہ ہے۔

یہاں شاعر زندگی کو ایک چنگاری سے تشبیہ دیتا ہے جو لمحہ بھر کے لیے جلتی ہے اور بجھ جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا میں ہر کوئی اپنی باری پوری کر کے جاتا ہے ہم نے بھی اپنا وقت پورا کر لیا۔ یہ فنا، وقت اور گردشِ کائنات کی علامت ہے۔

یہ شعر زندگی کی حقیقت اور وقت کی تیزی کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محفل ختم ہونے کو ہے اب چل چلاؤ کا عالم ہے۔ جب تک وقت باقی ہے زندگی کے جام کو بھر کر پیتے رہو۔ یہاں شراب اور ساغر زندگی کی لذت اور وقت کی علامت ہیں۔

یہ آخری شعر غزل کا نچوڑ ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسی کو یہ علم نہیں کہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے۔ یہ زندگی ایک راز ہے جسے کوئی نہیں سمجھ سکا۔ دردؔ اس شعر میں وجود، فنا اور انسان کی بے خبری پر گہری روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ تصوف کے فلسفۂ وحدت الوجود اور روحانی سفر کا اشارہ ہے۔

یہ غزل دردؔ کی فکری گہرائی، صوفیانہ وجدان اور فلسفیانہ بصیرت کا حسین مجموعہ ہے، جس میں زندگی، عشق، وقت اور فنا سب ایک ہی لڑی میں پروئے گئے ہیں۔

خواجہ میر دردؔ کی یہ غزل اُن کے فکری، روحانی اور عاشقانہ احساسات کا حسین امتزاج ہے۔ اس میں زندگی کی حقیقت، دنیا کی بے ثباتی، عشق کی گہرائی اور انسان کے روحانی سفر کو نہایت پر اثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ شاعر ایک ایسے مسافر کی مانند ہے جو اس دنیا میں آتا ہے اپنے فرض ادا کرتا ہے اور پھر خاموشی سے واپس چلا جاتا ہے۔ دردؔ کہتے ہیں کہ دنیا فریب، دھوکے، غم اور دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں جھوٹے معیار بناتے ہیں مگر سچا انسان ان سب باتوں سے بے نیاز اپنے راستے پر چلتا رہتا ہے۔ وہ اس بات پر مطمئن ہے کہ جس مقصد کے لیے آیا تھا وہ پورا کر کے جا رہا ہے۔

غزل کے ابتدائی اشعار میں شاعر زندگی کو ایک طوفان، ایک تماشا اور ایک لمحاتی حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ زندگی دکھوں، مصیبتوں اور تھکن سے بھری ہے۔ انسان جینے کے دکھ میں ہی مر جاتا ہے۔ دنیا کی خوبصورتی جیسے پھولوں کی خوشبووقتی ہے جو لمحہ بھر میں ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے دردؔ دنیاوی لذتوں سے دور رہنے اور روحانی حقیقت کی طرف متوجہ ہونے کا درس دیتے ہیں۔ غزل کے درمیانی اشعار میں عشق اور تصوف دونوں کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ کہیں عاشق محبوب کی بے وفائی پر دل گرفتہ ہے تو کہیں وہ محبت کی سچائی اور صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم نے دنیا کی محفل میں آ کر دوسروں کو خوشی دی مگر خود جلتے رہے جیسے شمع اپنی روشنی سے دوسروں کو منور کرتی ہے مگر خود کو خاک کر دیتی ہے۔ یہ ایثار و قربانی دراصل عشق کی معراج ہے۔ غزل کے آخری اشعار میں دردؔ کا مذہبی فلسفہ واضح ہوتا ہے۔ وہ مذہبی ریاکاری پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کو باہر تلاش کرنے والے لوگ غلطی پر ہیں کیونکہ خدا انسان کے دل کے اندر موجود ہے۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انسان کا آنا اور جانا دونوں ایک راز ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں جائیں گے۔ یہ دنیا محض ایک عارضی پڑاؤ ہے اصل مقام روح کا ہے۔

مجموعی طور پر یہ غزل خواجہ میر دردؔ کے گہرے وجدان، صوفیانہ شعور اور روحانی تجربے کا آئینہ ہے۔ اس میں دنیا کی بے ثباتی، عشق کی سچائی، ایثار اور انسانی زندگی کے اسرار کو نہایت سادہ مگر پُر اثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ غزل کا ہر شعر قاری کے دل کو چھو جاتا ہے اور اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ زندگی ایک عارضی سفر ہے جس کا اصل مقصد معرفتِ الٰہی اور روحانی بیداری ہے۔

Scroll to Top