urdu me novel nigari ki riwayat اردو میں ناول نگاری کی روایت

اردو ناول کی ابتدا انیسویں صدی کے وسط میں ہوئی جب برصغیر میں سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا ایک نیا دور شروع ہو رہا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کے ہندوستانی معاشرے خاص طور پر مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی نے ایسی ادبی صنف کی ضرورت محسوس کرائی جو نہ صرف تفریح فراہم کرے بلکہ معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بھی بنے۔ یوں اردو ناول کی بنیاد ایک اصلاحی مقصد کے ساتھ رکھی گئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فنی پیچیدگی اور موضوعاتی وسعت کی طرف بڑھا۔

اردو ناول کے اولین دور میں ڈپٹی نذیر احمد اور ان کے معاصرین کا کام سب سے نمایاں ہے۔ نذیر احمد جو ایک مصلح بھی تھے نے اردو کا پہلا ناول مراۃ العروس ہے جو کہ 1869ء میں لکھا۔ اس کے بعد انہوں نے بنات النعش، توبتہ النصوح، فسانہ مبتلا، ابن الوقت، ایامیٰ اور رویائے صادقہ جیسے کئی ناول تحریر کیے۔ فنی لحاظ سے یہ ناول کمزور ضرور ہیں مگر ان کی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ اردو ناول کی بنیاد رکھے جانے والے پہلے نقوش تھے۔ ان ناولوں کا مقصد مذہبی، تعلیمی اور اخلاقی اصلاح تھا۔ ان میں پلاٹ واضح ہے کہانی آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے اور زبان مؤثر ہے۔ نذیر احمد کے کردار زیادہ تر ٹائپ ہیں یعنی وہ شروع سے آخر تک ایک جیسے رہتے ہیں اور ان میں فطری تبدیلی نہیں آتی۔ البتہ کچھ کردار جیسے کلیم ظاہر دار بیگ اور ابن الوقت ارتقا دکھاتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ ان پر تبلیغی رنگ زیادہ ہے اکثر جگہ وعظ و نصیحت اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ کہانی کا بہاؤ ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف نذیر احمد نے مسلم خاندانوں کی زندگی اور آداب معاشرت کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ مراۃ العروس میں اکبری اور اصغری کی کہانی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے دی گئی۔ بنات النعش میں گھریلو کام اور عام معلومات کی تعلیم پر زور ہے۔ توبتہ النصوح میں والدین کو بچوں کی تربیت کا ذمہ دار بتایا گیا۔ فسانہ مبتلا میں کثرت ازواج کی برائی دکھائی گئی۔ ابن الوقت میں انگریزی تہذیب کی اندھی تقلید کے نقصانات اجاگر کیے گئے۔ ایامیٰ میں بیوہ کی دوسری شادی کا مسئلہ اٹھایا گیا جبکہ رویائے صادقہ مذہبی رنگ کا حامل ہے۔ نذیر احمد کے بعد اردو ناول میں دوسرا بڑا نام پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ہے۔ ان کا مشہور ناول فسانہ آزاد 1885ء میں شائع ہوا۔ اس میں لکھنؤ کی تہذیب اور معاشرت کی خوبصورت تصویر ملتی ہے لیکن ناول میں پلاٹ اور تسلسل کی کمی ہے۔ اس کے باوجود خوجی کا کردار آج بھی زندہ کردار سمجھا جاتا ہے۔ سرشار کے دوسرے ناولوں میں سیر کہسار اور جام سرشار اہم ہیں۔

اس دور کے ایک اور بڑے ناول نگار مولانا عبدالحلیم شرر ہیں جنہوں نے تاریخی ناول لکھنے کی روایت ڈالی۔ ان کے ناولوں میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کو دکھا کر مایوس قوم کو حوصلہ دینے کی کوشش کی گئی۔ ان کے ناولوں میں ملک العزیز ورجینا، منصور موہنا، فردوس بریں، عزیز مصر، فلورا فلورنڈا، فتح اندلس، زوال بغداد اور ایام عرب شامل ہیں۔ سب سے مشہور ناول فردوس بریں ہے۔ شرر کے ناول پلاٹ اور ترتیب میں مضبوط ہیں مگر کردار سب ایک جیسے لگتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ راشد الخیری، محمد علی طبیب اور منشی سجاد حسین نے بھی ناول لکھے۔ راشد الخیری کے ناول عورتوں کے مسائل پر ہیں مگر زیادہ اصلاحی اور خطیبانہ ہونے کی وجہ سے فنی لحاظ سے کمزور ہیں۔ محمد علی طبیب نے تاریخی ناول لکھے لیکن وہ نمایاں نہ ہو سکے۔ سجاد حسین نے طنز و مزاح کے رنگ میں ناول لکھے جیسے میٹھی چھری، کایا پلٹ، احمق الذی، حاجی بغلول وغیرہ۔

انیسویں صدی کے آخر میں کچھ اور ناول بھی سامنے آئے مگر ان میں سب سے کامیاب اور اہم ناول امراؤ جان ادا ہے جو مرزا ہادی رسوا نے 1899ء میں لکھا۔ اس میں لکھنؤ کی طوائف امراؤ جان کی زندگی اور اس وقت کے معاشرتی حالات کی عکاسی کی گئی۔ یہ ناول نہ صرف ایک عورت کی ذاتی کہانی ہے بلکہ اس دور کے پورے معاشرے کی حقیقت بھی سامنے لاتا ہے۔ یہی ناول اردو میں پہلا مکمل کامیاب اور عالمی معیار کا ناول مانا جاتا ہے۔

بیسویں صدی اردو ناول کے عروج کی صدی سمجھی جاتی ہے۔ اس صدی کے شروع کے تین چار عشروں میں سب سے نمایاں نام پریم چند کا ہے۔ پریم چند ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک ایک عہد اور ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1900ء کے بعد سے لے کر 1936ء تک ہندوستان کی سیاست میں جو تبدیلیاں آئیں اور اردو ناول میں جو رجحانات پیدا ہوئے وہ سب کسی نہ کسی طرح پریم چند کے ناولوں میں جھلکتے ہیں۔

انھوں نے اپنے ناولوں میں ہندوستان کے دیہات کی اصل زندگی کو پیش کیا۔ کسانوں اور غریب عوام کے دکھ، بھوک، غربت اور مسائل کو نمایاں کیا۔ پریم چند چونکہ خود گاؤں کے رہنے والے تھے اور انھوں نے دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھا تھا اس لیے ان کے ناولوں میں گاؤں کے حالات بڑی سچائی اور اثر کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں انسانیت سے محبت اور درد کی ایک ایسی شدت ملتی ہے جو اس دور میں کسی اور کے ہاں نظر نہیں آتی۔ پریم چند نے تقریباً ایک درجن ناول لکھے جن میں اسرار معابد، ہم خرما و ہم ثواب، جلوۂ ایثار، بازار حسن، گوشۂ عافیت، نرملا، چوگان ہستی، بیوہ، غبن، میدانِ عمل، پردۂ مجاز، گؤدان اور نا مکمل ناول منگل سوتر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان سب میں گؤدان کو شاہکار مانا جاتا ہے۔

ابتدائی ناولوں میں پریم چند کے ہاں آدرش پسندی کا رنگ غالب تھا لیکن وقت کے ساتھ ان کا نظریہ بدلا۔ انگریز حکومت کا ظلم بڑھ رہا تھا جاگیردار اور مہاجن کسانوں کا خون نچوڑ رہے تھے اور قحط و سیلاب نے عوام کو بھوکوں مرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے باوجود کسانوں کو لگان دینا پڑتا تھا۔ حکومت کو صرف اپنے خزانے کی فکرتھی۔ ایسی صورت حال نے پریم چند کے دل میں مایوسی پیدا کی اور انکی سوچ حقیقت کے قریب ہوتی گئی۔ اسی دور میں  1932-33 کے زمانے میں انھوں نے گؤدان لکھنا شروع کیا۔ اس وقت کسانوں کی لگان معافی کی تحریک ناکام ہو چکی تھی مزدور مل مالکوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور گاندھی اِروِن سمجھوتے کے بعد عدم تعاون تحریک واپس لی جا چکی تھی۔ لیکن اس معاہدے میں کسانوں کی مشکلات کا ذکر تک نہ تھا۔ اس مایوسی اور دکھ بھرے ماحول میں گؤدان وجود میں آیا۔ یہ ناول حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہے۔ اس سے پہلے پریم چند اکثر اپنے کرداروں کا انجام بہتر دکھاتے تھے لیکن گؤدان میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستانی سماج میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی۔ کسان اور مزدور اسی طرح استحصال کا شکار رہیں گے اور بھوک سے مرتے رہیں گے۔

گؤدان میں ایک عام کسان کی زندگی کے مسائل اور اس کی حقیقت پسندانہ جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ ناول کے کردار اور واقعات اتنے سچے لگتے ہیں کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اسی کے آس پاس کے لوگوں کی کہانی ہو۔ پریم چند نے ایک درمیانی عمر کے کسان ہوری کو ہیرو بنا کر اردو ناول میں ایک نئی روایت شروع کی۔ ہوری اس دور کے تمام ہندوستانی کسانوں کی علامت ہے۔ کسانوں کی زندگی، ان کی خواہشات، خوشیاں اور دکھ، اور ان پر جاگیرداروں، مہاجنوں، پنڈتوں اور حکومت کے ظلم کی جو تصویر پریم چند نے کھینچی اس نے گؤدان کو صرف ان کا شاہکار ہی نہیں بنایا بلکہ اردو ناول نگاری میں ایک روشن مینار کی حیثیت دے دی۔

پریم چند کے بعد ترقی پسند تحریک سے کئی ناول نگار جڑے۔ سجاد ظہیر نے لندن کی ایک رات قاضی عبدالغفار نے لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری عزیز احمد نے ہوس، مرمر اور خون، گریز، ایسی بلندی ایسی پستی، آگ کرشن چندر نے شکست، غدار، ایک گدھے کی سرگذشت ابراہیم جلیس نے چور بازار عصمت چغتائی نے ضدی، ٹیڑھی لکیر منٹو نے بغیر عنوان کے قیسی رامپوری نے آخری فیصلہ، دل کی آواز جیسے ناول لکھے۔ اس کے علاوہ رشید اختر ندوی، ایم اسلم، رئیس احمد جعفری وغیرہ نے بھی اہم ناول تخلیق کیے۔ ان سب ناولوں میں سماج کی وہ سخت حقیقتیں سامنے آتی ہیں جو پرانے ناولوں میں کم دکھائی دیتی تھیں۔

سجاد ظہیر کا ناول لندن کی ایک رات پہلا ترقی پسند ناول مانا جاتا ہے۔ یہ 1937ء میں شائع ہوا۔ اس میں لندن میں پڑھنے والے ہندوستانی طلبا کی ذہنی، جذباتی اور سماجی الجھنیں دکھائی گئی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا بے سکونی اور انتشار میں گھری ہوئی تھی۔ اس ناول میں پہلی بار شعور کی رو کی تکنیک استعمال ہوئی۔

قاضی عبدالغفار نے لیلیٰ کے خطوط میں خط لکھنے کا طریقہ اپنایا۔ اس ناول میں 52 خطوط کے ذریعے ایک طوائف کی زندگی اور اس کی اندرونی کیفیت کو پیش کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ڈپٹی نذیر احمد کا فسانہ مبتلا سجاد حسین انجم کسمنڈوی کا نشتر قاری سرفراز حسین عزمی دہلوی کا شاہد رعنا مرزا ہادی رسوا کا امراو جان ادا اور پریم چند کا بازار حسن بھی طوائف کو موضوع بنا چکے تھے۔ فرق صرف زمانے اور انداز بیان کا تھا۔ ان سب ناولوں نے بتدریج یہ دکھایا کہ ادب کے ذریعے سماج میں تبدیلی لانے اور اس کی برائیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر عورتوں، کسانوں اور مزدوروں کو استحصالی نظام کے خلاف کھڑا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی۔ لیلیٰ کے خطوط اسی سلسلے کی ایک اہم کوشش تھی۔ اس کے بعد عبدالغفار نے ڈائری کی طرز پر مجنوں کی ڈائری بھی لکھی۔

عزیز احمد کے ناول گریز اور ایسی بلندی ایسی پستی بہت اہم ہیں۔ گریز میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بیچ یورپ کی بکھری ہوئی زندگی اور افراتفری کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں بے یقینی، الجھن، کرب اور روایتی اقدار سے بیزاری جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔ ایسی بلندی ایسی پستی میں عزیز احمد نے حیدرآباد کے اعلیٰ طبقے کی حقیقت بیان کی ہے۔ وہاں کی سازشیں، خاندانی دشمنیاں، ظاہرداری، عیاشی اور دولت پرستی کو بڑے فن سے پیش کیا گیا ہے۔

کرشن چندر نے شکست میں ہندوستانی سماج کی ذات پات اور معاشی فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو موضوع بنایا۔ اس میں 1940ء کے قریب کے حالات کا نقشہ ہے جب نوجوانوں کی سوچ بدل رہی تھی مگر آخرکار پرانا نظام ہی جیت جاتا ہے۔ ان کا ایک اور ناول ایک گدھے کی سرگذشت مزدور اور غریب طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ سیاست دانوں کی چالاکیاں بڑے طبقے کی ریاکاری اور سرکاری دفتروں کی نااہلی نے عام عوام کو کتنا کمزور بنا دیا۔ یہ سب کچھ طنز کے انداز میں بیان ہوا ہے۔

عصمت چغتائی نے ٹیڑھی لکیر میں متوسط طبقے کے مسلمان گھروں کی لڑکیوں کی نفسیاتی الجھنوں کو بیان کیا ہے۔ اس میں شمن نامی لڑکی کی کہانی ہے جو والدین کی دسویں اولاد تھی۔ اسے ماں کا پیار نہ ملا اور نہ باپ کی توجہ۔ بہنوں اور گھر کے باقی افراد نے بھی اسے ہمیشہ کمتر ثابت کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں ضد اور بدلے کا جذبہ پیدا ہوا جس نے آخرکار اس کی زندگی برباد کر دی۔

ترقی پسند تحریک کے دور میں ہی ہندوستان کی تقسیم کا بڑا اور المناک واقعہ پیش آیا۔ 15 اگست 1947ء کو ایک طرف ہندوستانیوں کو آزادی ملی اور وہ برطانوی سامراج سے آزاد ہوئے تو دوسری طرف ملک کا بٹوارا بھی ہوگیا۔ اس تقسیم نے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا۔ خوف اور بدامنی نے زندگی کو مشکل بنا دیا۔ مایوسی، اجنبیت اور ذہنی الجھنیں بڑھ گئیں۔ ایسے سنگین مسائل پیدا ہوئے جنہوں نے عام انسان کی زندگی کو بہت مشکل بنا دیا۔ اس خونی سانحے پر کئی ادیبوں نے ناول لکھے جن میں قرۃ العین حیدر کا آگ کا دریا رامانند ساگر کا اور انسان مر گیا خدیجہ مستور کا آنگن ایم اسلم کا رقص ابلیس رشید اختر کا 15 اگست قدرت اللہ شہاب کا یا خدا نسیم حجازی کا خاک اور خون رئیس احمد جعفری کا مجاہد اور قیس رامپوری کا خون آبرو اور فردوس شامل ہیں۔

تقسیم کے بعد عصمت چغتائی نے معصومہ، سودائی، عجیب آدمی، دل کی دنیا، ایک قطرۂ خون اور چاندی کا گھاؤ جیسے ناول لکھے۔ ان ناولوں میں عورتوں کی بے بسی اور مظلومیت کی بھرپور تصویر ملتی ہے۔ ان کے زیادہ تر کردار متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کرشن چندر نے سڑک واپس جاتی ہے، میری یادوں کے چنار، دل کی وادیاں سو گئیں، ایک گدھے کی سرگزشت، گدھے کی واپسی، لال تاج، جب کھیت جاگے اور طوفان کی کلیاں جیسے ناول لکھے۔ ان ناولوں میں ہندو مسلم فسادات، جاگیردارانہ نظام اور اس وقت کے دوسرے مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ ان کی زبان شگفتہ، اسلوب شاعرانہ اور ناول طنز و مزاح سے بھرے ہوئے ہیں۔

اسی دور میں حیات اللہ انصاری نے لہو کے پھول جیسا ضخیم ناول لکھا جس میں آزادی کی جدوجہد اور کسان تحریک کو بڑی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔

قرۃ العین حیدر نے تقسیم، فرقہ وارانہ فسادات اور صدیوں پرانی مشترکہ تہذیب کے ٹوٹنے کے پس منظر میں اپنا پہلا ناول میرے بھی صنم خانے لکھا۔ اس کے بعد انہوں نے سفینہ غم دل، آگ کا دریا، آخر شب کے ہم سفر، کار جہاں دراز ہے، گردش رنگ چمن، چاندنی بیگم اور کئی ناولٹ جیسے سیتا ہرن، چائے کے باغ، ہاؤسنگ سوسائٹی دلربا اور اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو لکھے۔ ان کا سب سے مشہور ناول آگ کا دریا ہے۔ یہ ایک بڑا ناول ہے جس میں ہندوستان کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ اور تہذیب کو پیش کیا گیا ہے۔ اس میں گوتم، ہری شنکر، چمپا اور کمال جیسے کردار علامتی حیثیت رکھتے ہیں اور مختلف زمانوں میں بدلتے ہوئے ناموں کے ساتھ سامنے آتے ہیں تاکہ برصغیر کی تاریخی اور تہذیبی تسلسل کو جوڑ سکیں۔

خدیجہ مستور کے ناول آنگن میں آزادی کی تحریک، تقسیم اور اس کے بعد کے حالات کو ایک آنگن کے استعارے کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ اس آنگن میں کانگریس اور مسلم لیگ کے حامی ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان میں سخت نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس میں اس دور کی الجھنوں اور شک و شبہات کو حقیقت کے قریب لا کر دکھایا گیا ہے۔ عبداللہ حسین کا اداس نسلیں پہلی جنگ عظیم سے آزادی اور تقسیم کے فوراً بعد تک کے حالات پر مبنی ہے۔ اس ناول میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک پوری نسل اپنے مقصد اور سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہی۔ تقسیم اور فسادات نے ان کی مشکلات اور ذہنی الجھنوں کو اور بڑھا دیا۔

اسی دور میں شوکت صدیقی نے خدا کی بستی میں نئے بننے والے پاکستانی معاشرے کے مسائل، بدعنوانی، طاقتور طبقے کے ظلم اور کمزور لوگوں کے استحصال کو پیش کیا ہے۔ یہ ناول حقیقت پسندی کے ساتھ نئے اور پرانے نظام کے تصادم کو دکھاتا ہے۔ ممتاز مفتی کا علی پور کا ایلی اردو کا پہلا مکمل نفسیاتی ناول ہے۔ اس میں ایک نوجوان کی جذباتی گھٹن اور جنسی محرومی کو پیش کیا گیا ہے جس کا بڑا سبب باپ کی سخت گیری اور جنسی ہوس ہے۔ شب گزیدہ اودھ کی ختم ہوتی جاگیردارانہ تہذیب پر لکھا گیا ہے۔ اس میں قدیم اور جدید اقدار کی ٹکر کو بڑے سرکار اور ان کے بیٹے جمی کے کرداروں کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔ جمی مستقبل شناس اور نئے دور کو سمجھنے والا ہے مگر بڑے سرکار پرانی اقدار کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے۔ آخرکار جمی اپنی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور شادی کے دن اسے زہر دے دیا جاتا ہے۔

لہو کے پھول اردو کے بڑے ناولوں میں ہے جو 1911 کے دہلی دربار سے شروع ہو کر آزادی، تقسیم، فسادات، گاندھی جی کی شہادت اور پہلے پنچ سالہ منصوبے تک کے حالات پر ختم ہوتا ہے۔ ایوانِ غزل میں حیدر آباد کے زوال پذیر جاگیردارانہ نظام اور اس کی کھوکھلی روایات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں عورتوں کے حالات اور ان کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کا ناول ایک چادر میلی سی پنجاب کے دیہات میں عورتوں کی زندگی اور ان کے مسائل کو دکھاتا ہے۔ رانو کی زندگی دراصل ہندوستان کی بیشتر عورتوں کی کہانی ہے جو کسی بھی طبقے یا مذہب سے تعلق رکھتی ہوں۔ انتظار حسین نے بستی میں ہجرت، فسادات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو دکھایا ہے۔ اس میں ہجرت کے دکھ اور پرانی یادوں کو بہت مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہونے والی تقسیم کو غیر فطری اور غلط فیصلہ ثابت کیا گیا ہے۔

مندرجہ بالا ناول نگاروں کے علاوہ بھی بہت سے ادیب ہیں جنہوں نے اردو ناول کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان تخلیق کاروں نے ایک طرف علامتوں، استعاروں اور تمثیلوں کے ذریعے ناول کی زبان اور انداز کو نئی طاقت اور وسعت دی اور دوسری طرف ناول میں لکھنے کے نئے طریقوں پر بھی تجربے کیے۔ اردو ناول کا یہ سفر آج تک جاری ہے اور اب بھی موضوع اور فن کے لحاظ سے اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں۔

Scroll to Top