wali aurangabadi ki ghazal goi ka tanqeedi mutala ولیؔ اورنگ آبادی کی غزل گوئی کا تنقیدی مطالعہ

بے شک اردو شاعری ولیؔ اورنگ آبادی کے احسان سے بھرپور ہے۔ انہیں نظم اردو کی نسل کا “بابا آدم” بھی کہا گیا اور ان کے سر پر اولیت کا تاج بھی رکھا گیا، لیکن یہ بھی کہا گیا کہ ولیؔ سے پہلے اردو کے کئی شاعر گزر چکے تھے اور ان میں صاحب دیوان بھی تھے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ شمالی ہند میں اردو شاعری کا چرچا ولیؔ کا مرہون منت ہے۔

ولیؔ 1700 عیسوی میں دہلی آئے اور ادبی محفلوں میں عوامی زبان میں کہے گئے اپنے شعر سنائے۔ اس سے اہل محفل کو ایک طرف خوشی ہوئی اور دوسری طرف حیرت بھی کہ بول چال کی زبان، جسے وہ حقارت سے “ریختہ” کہتے تھے، میں بھی ایسے دلکش شعر کہے جا سکتے ہیں۔ یہاں ان کی ملاقات صوفی سعد اللہ گلشن سے ہوئی۔ انھوں نے فارسی کے شیریں الفاظ استعمال کرنے اور فارسی شاعری کے منضامین کو اپنی زبان میں ادا کرنے کا  اہم مشورہ دیا۔ دونوں باتیں ان کے دل کو لگیں ۔ دکن واپس جانے کے بعد ولیؔ نے ان مشوروں پر عمل جاری رکھا اورتقریبا انیس سال بعد جب ان کا دیوان دہلی پہنچا تو بقول آزاد

اشتیاق نے ادب کے ہاتھوں پر لیا۔ قدردانی نے غور کی آنکھوں سے دیکھا۔ لذت نے زبان سے پڑھا۔ گیت موقوف ہو گئے ۔ قوال معرفت کی محفلوں میں انہی کی غزلیں گانے بجانے لگے۔ ارباب نشاط یاروں کو سنانے لگے جو طبیعت موزوں رکھتے تھے انھیں دیوان بنانے کا شوق ہوا ( آب حیات)

 اور کیوں نہ ہوتا ولیؔ کا دیوان ایسی دلکش غزلوں کا مجموع ہے کہ دل اس پر مائل ہوئے بغیرنہیں رہتا۔

ولیؔ بنیادی طور پر حسن اور عشق کے شاعر ہیں۔ ان کے اشعار میں محبوب کے حسن و جمال، اس کے قدوقامت، اور مختلف اداؤں کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری کے خاص مضامین میں کبھی وہ تنہائی کی راتیں یاد آتی ہیں جب ان کے اور محبوب کے درمیان سرگوشی کے انداز میں باتیں ہوتی تھیں، کبھی وہ یاد آتا ہے جب محبوب خراماں خراماں ان کے گھر آیا کرتا تھا، اور کبھی یہ یاد آتا ہے کہ جب محبوب ولیؔ سے مخاطب ہوتا، تو رقیب رشک سے جلتے تھے۔

ولیؔ عشقیہ شاعری کی ایک اہم خصوصیت اس کا نشاطیہ عنصر ہے، وہ کہتے تو یہ ہیں کہ

لیکن ہجر کا ذکر صرف بیان کے لطف کے لیے ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ولیؔ وصال کے شاعر ہیں اور ہمیشہ گل و گلزار کی طرح شاداب و خوشحال رہتے ہیں۔ ولیؔ کی شاعری میں عشق ان کا پیشہ ہے اور عاشقی ان کے مزاج میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ، وہ ایک صوفی بھی ہیں اور ایک معروف صوفی سلسلے میں بیعت ہیں۔ اس لیے ولیؔ کے کلام میں تصوف کے مضامین بھی ملتے ہیں۔ وہ کبھی بھی عشق مجازی کو عشق حقیقی کا پردہ قرار دیتے ہیں۔

وہ فلسفہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ دیگر صوفیا  کرام کی طرح ان کا عقیدہ بھی یہ ہے کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ذات تو اصلی ہے۔ باقی جو کچھ ہے وہ اس کی پرچھائیں ہے ۔ ہم ان پر چھائیوں میں الجھ کر رہ جائیں اور اصل شے کو نہ دیکھ سکیں تو یہ ہماری نظر کا قصور ہے ورنہ اس کا حسن تو ہر طرف بکھرا پڑا ہے ۔

سلیقہ مندی سے ہوا ہو۔ ولی اورنگ آبادی اپنے تجربات کو خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کرنے کا سلیقہ خوب اچھی طرح جانتے تھے  مگر ان کے تجربات کا دائرہ محدود ہے ۔ وہ عشق مجازی کے دائرے سے باہر قدم مشکل ہی سے رکھتے ہیں۔ بہت ہوا تو عشق حقیقی کی کیفیت کو بیان کر دیا۔ اس کے علاوہ گنتی کے محض چند مضامین ہیں جو ان کے کلام میں نظر آتے ہیں مثلاً چند عام سی نصیحتیں ، دنیا کی نا پائداری کا ذکر اور افلاس جیسی لعنت کی مذمت ۔

سلیقہ مندی سے ہوا ہو۔ ولی اورنگ آبادی اپنے تجربات کو خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کرنے کا سلیقہ خوب اچھی طرح جانتے تھے  مگر ان کے تجربات کا دائرہ محدود ہے ۔ وہ عشق مجازی کے دائرے سے باہر قدم مشکل ہی سے رکھتے ہیں۔ بہت ہوا تو عشق حقیقی کی کیفیت کو بیان کر دیا۔ اس کے علاوہ گنتی کے محض چند مضامین ہیں جو ان کے کلام میں نظر آتے ہیں مثلاً چند عام سی نصیحتیں ، دنیا کی نا پائداری کا ذکر اور افلاس جیسی لعنت کی مذمت ۔

موضوعات کی تنگی کی وجہ سے ولیؔ میرؔ اور غالبؔ کے ہم پلہ نہیں کہلاتے۔ ان کی شاعری اپنی تمام خوبصورتی کے باوجود عظیم شاعر ہونے کا حق نہیں رکھتی، کیونکہ ان کی شاعری کا دائرہ بہت مختصر ہے۔ ولیؔ کی شاعری کی اصل خوبی ان کا بیان کی دلکشی ہے۔ ایک کامیاب شاعر اپنے تجربات، یعنی دل پر گزرے ہوئے حالات، کو سب سے زیادہ پرکشش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے مختلف تدابیر استعمال کرتا ہے، جنہیں فنی یا شعری تدابیر بھی کہا جاتا ہے۔

ولیؔ کو شاعری میں حسین اور رنگین تصویریں بنانے میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ مصور رنگوں سے تصویر بناتا ہے، جبکہ شاعر اپنے جذبات اور الفاظ سے تصویر تخلیق کرتا ہے۔ تشبیہ اور استعارہ تصویر کشی میں بہت مددگار ہوتے ہیں۔ مثلاً جب شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب اپنے گھر سے ادا و ناز کے ساتھ اس طرح اٹھلاتا ہوا نکلتا ہے جیسے سورج مشرق سے نکل کر آہستہ آہستہ مغرب کی طرف بڑھتا ہے، تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ ولیؔ کے محبوب کا چہرہ سورج کی طرح روشن ہے اور وہ سورج کی طرح سست خرام ہے۔ گویا شاعر نے مکمل تصویر کھینچ دی ہے۔

کلام ولیؔ کی ایک اور اہم خصوصیت موسیقی ہے۔ ان کے زیادہ تر اشعار ایسے ہیں کہ انہیں پڑھتے ہوئے دلکش ترنم پیدا ہوتا ہے۔ ایک مثال اس غزل کی ہے جس کی ردیف “آہستہ آہستہ” ہے۔ ان کے دیوان میں ایسی مثالیں بھرپور تعداد میں ملتی ہیں۔شاعری میں مصوری، یعنی پیکر تراشی، کی طرح موسیقی یا ترنم بھی ضروری ہے۔ موسیقیت کے بغیر شعر میں دلکشی نہیں پیدا ہو سکتی۔ ولیؔ اس راز سے واقف نظر آتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے اشعار کو زیادہ سے زیادہ مترنم بنائیں۔ کورچ نے کہا ہے کہ لفظوں کی بہترین ترتیب نثر ہوتی ہے اور بہترین لفظوں کی بہترین ترتیب شعر ہوتی ہے۔ ابتدائی زمانے کے کلام سے قطع نظر، ولیؔ بہترین لفظوں کے انتخاب اور ان کی بہترین ترتیب کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ وہ مترنم بحروں کا انتخاب کرتے ہیں اور ایسی ردیف اختیار کرتے ہیں جو موسیقی پیدا کرتی ہے۔ لفظوں کی ترتیب میں وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ہر لفظ ایسے مقام پر ہو جہاں دلخواہ اثر بھی پیدا ہو اور خوش آہنگی میں بھی اضافہ ہو۔ مثلاً

ولیؔ کا ایک خاص کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے فارسی کے پہلو بہ پہلو ہندی الفاظ کا  بھی استعمال نہایت ہنر مندی سے کیا اور بقول آزاد ” ایک زبان کو دوسری زبان سے ایسا بے معلوم جوڑ لگایا ہے کہ آج تک زمانے نے کئی پلٹے کھائے ہیں مگر پیوند میں جنبش نہیں آئی” اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہندی الفاظ کے ساتھ ہندی تہذیب بھی اردو شاعری میں داخل ہو گئی مگر افسوس ایک مختصر سی مدت کے لیے۔

 کلام ولیؔ میں ہندی الفاظ کا استعمال اور ہندی تہذیب کی تصویر کشی۔

ولیؔ ؔکے کلام میں ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جن کا استعمال برسوں پہلے ترک کر دیا گیا اور جنھیں آج متروک کہا جاتا ہے لیکن ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں

Scroll to Top