وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو غزل کی تشریح
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
یہ غزل کی ابتدا میں شاعر پرانے تعلقات کے لمحات یاد دلاتا ہے۔ قرارسے مراد وہ گہرا سکون، ہم آہنگی اور روحانی نزدیکی ہے جو دو دلوں کے درمیان موجود ہوتی ہے۔ شاعر یہ بھی یاد دلا رہا ہے کہ یہ احساس اور سکون کسی اتفاق یا معمولی بات کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک وعدہ تھا وعدہ نباہ کا یعنی ایک دوسرے کی محبت اور عہد کی پاسداری کا۔ شاعر پوچھتا ہے تمہیں یہ لمحے یاد ہیں یا نہیں۔ یہ یادداشت صرف یاد نہیں بلکہ محبت اور وفاداری کی بنیاد کی یاد ہے۔
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
یہاں شاعر اپنے محبوب کی عنایت اور نوازش کو یاد کرتا ہے۔ ہر چھوٹا سا لطف، ہر خوشی ہر مسرت جو محبوب کی وجہ سے محسوس ہوئی وہ سب شاعر کے ذہن میں تازہ ہے۔ ذرا ذرا سے مراد ہر لمحے کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں ہر ایک نظر ہر چھوٹی بات جو دل کو خوش کرتی تھی۔ شاعر یہاں محبوب سے پوچھتا ہے کہ کیا تمہیں بھی یہ سب یاد ہے ۔یہ شعر محبت کی نرمی اور شکرگزاری کا اظہار ہے اور بتاتا ہے کہ خوشیوں کا اندازہ محبت کرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
یہاں شاعر پرانی ناراضگیوں اور شکایتوں کو یاد کر رہا ہے۔ نئے گلے وہ چھوٹے جھگڑے ہیں جو محبت میں مزید شدت اور دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ مزے مزے کی حکایتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حتیٰ کہ ناراضگی بھی خوشگوار اور یادگار لمحے بن جاتی تھی۔ ہر چھوٹی بات پر تمہارا ناراض ہونا، شاعر کے لیے دلچسپی اور محبت کی علامت تھا۔ یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ محبت میں چھوٹی چھوٹی تلخیوں کا بھی مزہ ہوتا ہے اور وہ سب لمحے شاعر کو آج بھی یاد ہیں۔
کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
یہ شعر محبت کی خفیہ اور لطیف زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کبھی ہم سب کے سامنے بیٹھے ہوتے لیکن ایک دوسرے سے بات کرنے کا طریقہ اشاروں میں ہوتا تھا۔ اشارتوں ہی سے گفتگو محبت کی خفیہ زبان، نرم اندازِ بیان اور ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے کی مہارت کی علامت ہے۔ بیان شوق کا برملا سے مراد وہ اظہار محبت ہے جو کھل کر سامنے آتا لیکن صرف ہمارے درمیان محسوس ہوتا۔ شاعر اس لطیف اور نازک تعلق کی یاد دلا رہا ہے۔
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
یہاں شاعر قربت کے لمحوں کو یاد کرتا ہے۔ اگر اتفاق سے ہم قریب ہوئے تو ہر لمحہ ایک دوسرے کی وفاداری، محبت اور اعتماد کا اظہار ہوتا تھا۔ دم بہ دم یعنی ہر لمحہ اور ہر عمل میں محبت ظاہر ہوتی تھی۔ گلۂ ملامت اقربا کا مطلب یہ ہے کہ کبھی رشتہ دار یا قریبی لوگ اعتراض کرتے لیکن ہم اس سے متاثر نہیں ہوتے اور اپنی محبت کو ظاہر کرتے رہتے۔ شاعر اس پرانے تعلقات کی مضبوطی اور وفاداری کو یاد دلا رہا ہے۔
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
شاعر یہاں محبت کی نرمی اور برداشت کو بیان کرتا ہے۔ اگر کبھی کوئی بات تمہیں ناگوار گزری تو ہم اسے بات بڑھا کر نہیں رکھتے بلکہ دل سے بھلا دیتے۔ یہ چھوٹے چھوٹے اختلافات محبت کی شدت کو کم نہیں کرتے بلکہ اس کو اور مضبوط کرتے ہیں۔ یہ شعر تعلقات میں فہم و فراست، نرم دلی اور گذشتہ تلخیوں کو بھلا دینے کی عکاسی کرتا ہے۔
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
یہاں شاعر تعلقات کی مختلف کیفیتوں کی یاد دلا رہا ہے۔ کبھی ہم دل کی چاہت میں ڈوبے ہوئے تھے کبھی ہم ایک دوسرے سے ملنے کے لیے راستہ نکالتے تھے۔ راہ تھی یعنی ملاقات، قربت اور مشترکہ وقت گزارنا۔ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا یعنی ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔ یہ شعر تعلق کی ترقی، قربت اور مشترکہ لمحوں کی یاد دلاتا ہے۔
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
شاعر پرانے وعدے کی یاد دلا رہا ہے۔ کئی سال پہلے جو وعدہ کیا گیا تھا اس کی پاسداری اور نباہنے کی کوشش بھی کی گئی۔ یہ شعر تعلق میں اعتماد، وعدے کی پاسداری اور محبت کی عہد بندی کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ صرف یاد نہیں بلکہ محبت اور وفاداری کا ضامن بھی ہے۔
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
شاعر یاد دلا رہا ہے کہ ایک بات جو اس نے دل کی سچائی اور خلوص سے کہی محبوب نے مذاق یا ہلکی ناراضگی میں رد کر دی۔ کوٹھے کی بات کسی نجی یا خفیہ ملاقات کی طرف اشارہ ہے اور چلو جانے مری بلا ایک ہلکی مزاح یا محبت بھری ناراضگی کا اظہار ہے۔ یہ شعر تعلق میں مٹھاس معصوم جھگڑے اور لطافت کی عکاسی کرتا ہے۔
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح
یہاں شاعر ملاقات کی رات کی یاد دلا رہا ہے۔ محبوب کبھی چھوٹی باتوں پر بگڑ جاتا کبھی ہر بات پر نہیں کہہ کر اپنے مزاج اور شرارت کا اظہار کرتا۔ یہ سب چھوٹے چھوٹے مناظر محبت میں دلچسپی اور رنگینی پیدا کرتے ہیں۔ ہر آن ادا سے مراد ہر حرکت، ہر انداز، ہر ردعمل جو دل کو خوش کر دیتا تھا۔
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
تشریح
آخر میں شاعر اپنی پہچان اور محبت کو یاد دلا رہا ہے۔ جسے تم اپنے قریب، وفادار اور دل سے محبت کرنے والا جانتے تھے وہی شاعر ہے۔ مبتلا یعنی عشق اور محبت میں گرفتاریعنی اب بھی دل اسی کیفیت میں ہے۔ یہ شعر یادداشت، محبت، وفاداری اور تعلق کی مضبوطی کو اجاگر کرتا ہے اور محبت کی اصل روح کو تازہ کر دیتا ہے۔
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو غزل کا خلاصہ
مومن خاں مومن کی غزل وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا اردو غزل کی حسین مثال ہے جس میں عشق، یاد اور ماضی کے حسین لمحات کو انتہائی نزاکت اور لطافت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس غزل کا مجموعی مضمون ایک دل شکستہ عاشق کے دل کی کیفیت اور اس کے ماضی کے تعلقات کی یادوں پر مبنی ہے۔ شاعر یہاں ماضی کے ہر لمحے کو تازہ کرتا ہے اور محبوب سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ سب تمہیں بھی یاد ہے یا نہیں۔ غزل کے ہر شعر میں محبت کی باریکی، تعلق کی نزاکت اور جذبات کی گہرائی نمایاں ہے جو قاری کے دل کو بھی اسی کیفیت میں لے جاتا ہے۔
غزل میں مومنؔ نے پہلے محبوب اور شاعر کے درمیان کبھی موجود ہم آہنگی اور سکون بھری ملاقاتوں کو یاد کیا ہے جو صرف لمحاتی سکون نہیں بلکہ ایک وعدہ نباہ کی مانند تھے۔ پھر محبوب کی شفقت، کرم اور لطافت بھری نوازشیں چھوٹی چھوٹی شکایتیں اور محبت کے نازک جھگڑے بیان کیے گئے ہیں جو محبت کے کھیل کو مزید دلچسپ اور حقیقت پسندانہ بناتے ہیں۔ شاعر نے اپنے اور محبوب کے درمیان اشاروں، خاموشی اور غیر مرئی زبان کے ذریعے محبت کے اظہار کو بھی نمایاں کیا ہے جہاں الفاظ کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود جذبات کی شدت محسوس کی جا سکتی ہے۔ غزل میں ماضی کے اتفاقی قریب آنے، وفا کے اظہار اور رشتہ داروں کی ملامت کے باوجود محبت کی مضبوطی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ شاعر نے محبوب کی حساسیت اور تعلق کی نزاکت کو یاد کرایا اور اس بات پر زور دیا کہ اگر کبھی محبوب کو کوئی بات برا لگے تو وہ خود اسے بھول جاتا تاکہ تعلق میں تلخی نہ آئے۔ آخر میں شاعر اپنے آپ کو یاد دلاتا ہے کہ وہی مومن ہے وہی عاشق جو محبوب کے نزدیک کبھی آشنا اور باوفا سمجھا گیا تھا۔
مجموعی طور پر یہ غزل ماضی کے حسین لمحوں، محبت کی گہرائی، یادوں کی نزاکت اور عشق کی صداقت کو یکجا کرتی ہے اور مومنؔ کے طرز بیان، دلکشی اور نفیس اسلوب کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔
مومن خاں مومن کی شاعری کی خصوصیات
مومن خاں مومن کی شاعری اردو غزل کی دنیا میں ایک نایاب اور انفرادی شان رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں عشق، جذبہ، تخیل اور حسنِ بیان کی وہ چمک ملتی ہے جو اردو شاعری کو ایک نئی زندگی عطا کرتی ہے۔ مومن نے غزل کو محض عشق کے روایتی اظہار تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس میں داخلیت اور خارجیت کا ایسا حسین امتزاج پیدا کیا جس نے غزل کو احساس، صداقت اور نزاکت کا پیکر بنا دیا۔ ان کے اشعار میں سچے جذبات، گہرے احساسات اور نفیس اندازِ بیان کی جھلک نمایاں ہے۔ مومن کے نزدیک عشق ایک جیتی جاگتی کیفیت ہے جو محض خیالی یا فلسفیانہ تصور نہیں بلکہ انسانی دل کی سچائی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک زندہ محبوبہ کا تصور جھلکتا ہے اور یہی حقیقت پسندی ان کے کلام کو دلکش اور اثر انگیز بناتی ہے۔ مومن نے اپنی غزلوں میں عشق کی مختلف کیفیات کو بڑی صفائی اور تہذیب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے یہاں عشق میں شدت تو ہے مگر اس میں وقار اور خودداری بھی موجود ہے۔ وہ عاشق کو بے بس یا غلام نہیں بناتے بلکہ ایک حساس، خوددار اور صاحبِ احساس انسان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مومن کے ایک مشہور شعر میں ان کے عشق کی سچائی اور خودی کی جھلک نمایاں ہے
آئے غزالِ چشم صیدا میرے دام میں
صیاد ہی رہا میں، گرفتار کم ہوا
اس شعر میں شاعر نے عشق کے میدان میں اپنی فتح مندی اور اپنے وقار کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے حسن و عشق کے کھیل میں وہ ہمیشہ صیاد یعنی شکار کرنے والا رہا خود کبھی کسی کے جال میں گرفتار نہ ہوا۔ اس طرح کے اشعار مومن کی شخصیت کی رنگینی، ان کے شعری کمال اور ان کے جذبے کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔
مومن کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی، تغزل کی لطافت اور خیالات کی نزاکت ایک ساتھ جلوہ گر ہیں۔ انہوں نے پرانے اور مروجہ مضامین کو ایک نئے تخیل اور دلکش اسلوب میں پیش کیا۔ ان کے اشعار میں ایک تہذیبی آہنگ اور نرمی پائی جاتی ہے جو انہیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ لکھنوی رنگ کو دہلی کے سادہ مگر پراثر انداز سے ہم آہنگ کر کے انہوں نے ایک ایسا خوبصورت امتزاج پیدا کیا جو ان کے کلام کو ایک خاص دلکشی عطا کرتا ہے۔ غالبؔ جیسے خود نگر شاعر کا یہ کہنا کہ وہ مومن کے ایک شعر پر اپنا دیوان قربان کرنے کو تیار ہیں مومن کی شاعری کی بلندی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ مومن نے عشق کی سچائی، احساس کی گہرائی اور زبان کی صفائی کے ذریعے اردو غزل کو نئی وسعت دی۔ ان کے کلام میں جذبات کی شدت کے ساتھ فکری توازن بھی موجود ہے جو انہیں ایک مکمل شاعر کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں تغزل، شگفتگی، رمزیت اور لطافت کے امتزاج نے اردو غزل کو ایک نیا وقار دیا اور انہیں اردو کے ممتاز شعرا کی صف میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔