یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا غزل کی تشریح
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا
تشریح
شاعر اپنے محبوب کے ذکر اور یاد کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا معمول قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرا دل چونکہ عشق کی شدت میں بیمار ہے اس لیے ہر وقت محبوب کو یاد کرنا میرے لیے ایک عبادت (وظیفہ) کی طرح ہے۔ جیسے ایک صوفی عبادت میں مشغول رہتا ہے ویسے ہی عاشق اپنے محبوب کی یاد میں مگن رہتا ہے۔ یہاں شاعر نے دل بیمار کا ذکر کرکے یہ بتایا ہے کہ عشق دل کو بے چین اور مضطرب کر دیتا ہے اور اس بے چینی کا واحد علاج محبوب کی یاد ہے۔ اس شعر میں عشق کی والہانہ کیفیت اور عاشق کے دل کی روحانی وابستگی دونوں جھلکتے ہیں۔
آرزوئے چشمۂ کوثر نئیں
تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا
تشریح
اس شعر میں شاعر عشق کی شدت کو جنت کی نعمتوں کے مقابل لا کر بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے کوثر کے چشمے کی طلب نہیں ہے کیونکہ میری اصل پیاس محبوب کے دیدار سے بجھتی ہے۔ عاشق کے لیے محبوب کا دیدار ہی سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑی لذت ہے۔ جنت کی نہریں، کوثر کا پانی سب محبوب کی ایک جھلک کے سامنے بے معنی ہیں۔ یہ شعر عشق کے جنون اور اس کی شدت کو ظاہر کرتا ہے جہاں عاشق روحانی اور جسمانی تمام آسائشوں کو چھوڑ کر صرف محبوب کی زیارت کا خواہش مند رہتا ہے۔
عاقبت کیا ہووے گا معلوم نئیں
دل ہوا ہے مبتلا دل دار کا
تشریح
یہاں شاعر اپنی بے خودی اور عشق کی اندھیری کیفیت کا اظہار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم میری آخرت کیا ہوگی لیکن میرا دل تو محبوب کے عشق میں مبتلا ہو چکا ہے۔ عاشق کے لیے مستقبل کی فکر باقی نہیں رہتی۔ عشق ایسا طوفان ہے جو ہر سوچ، ہر تدبیر اور ہر احتیاط کو بہا کر لے جاتا ہے۔ اس شعر میں عاشق کی بے نیازی، والہانہ کیفیت اور عشق کی اندھی تقلید کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
کیا کہے تعریف دل ہے بے نظیر
حرف حرف اس مخزن اسرار کا
تشریح
یہاں شاعر دل کی عظمت اور اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دل ایک بے مثال خزانہ ہے جس کے ہر لفظ اور ہر دھڑکن میں اسرار چھپے ہوئے ہیں۔ یہ دل ہی ہے جو محبت کرتا ہے راز چھپاتا ہے اور عشق کے بھید اپنے اندر سمیٹے رکھتا ہے۔ شاعر کے نزدیک دل کی تعریف کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ ایک ایسا مخزن ہے جو اسرار و رموز کا گنجینہ ہے۔ اس شعر میں ولیؔ نے تصوف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دل انسان کے اندر سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور وہی حقیقتوں کو دریافت کرنے کا اصل ذریعہ ہے۔
گر ہوا ہے طالب آزادگی
بند مت ہو سبحہ و زنار کا
تشریح
یہ شعر ایک صوفیانہ اور وسیع النظری پر مبنی پیغام رکھتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر کوئی حقیقت میں آزادی چاہتا ہے تو اسے تسبیح (مسلمانوں کی علامت) اور زنار (ہندوؤں کے مذہبی دھاگے) کے بندھن میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ یعنی اصل آزادی مذہبی رسومات یا ظاہر کی پابندیوں میں نہیں ہے بلکہ دل کی صفائی اور روح کی پاکیزگی میں ہے۔ یہاں ولیؔ نے ایک بہت بڑا روحانی پیغام دیا ہے کہ مذہب کی اصل روح انسانیت اور دل کی آزادی ہے نہ کہ محض رسموں اور علامتوں کی پابندی۔
مسند گل منزل شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدۂ بے دار کا
تشریح
شاعر اس شعر میں فطرت کی ایک حسین مثال سے انسانی حقیقت بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ پھول ایک مسند (تخت) کی طرح ہے اور شبنم اس پر جا کر ٹھہرتی ہے۔ اس منظر سے شاعر نتیجہ نکالتا ہے کہ جاگتی ہوئی آنکھ (دیدۂ بے دار) کا درجہ بھی بہت بلند ہے کیونکہ وہ حقیقتوں کو دیکھتی اور سمجھتی ہے۔ یہاں شبنم کی لطافت اور پھول کی نزاکت کو مثال بنا کر بیداری اور ہوشیاری کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس شعر میں شاعر نے فطرت کے حسن کو انسانی صفات سے جوڑ کر پیش کیا ہے۔
اے ولیؔ ہونا سریجن پر نثار
مدعا ہے چشم گوہر بار کا
تشریح
مقطع میں شاعر اپنی بات کو نتیجہ خیز انداز میں ختم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اے ولیؔ! میری آنکھیں جو موتی جیسے آنسو بہاتی ہیں ان کا مقصد صرف اور صرف خالق (سریجن، پیدا کرنے والا) کی رضا ہے۔ یعنی محبوب کا عشق آنکھوں کے آنسو اور دل کی بے قراری سب آخرکار عشقِ حقیقی یعنی اللہ کی محبت تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ شعر غزل کو ایک روحانی انجام دیتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ ولیؔ کے نزدیک عشقِ مجازی سے گزر کر عشقِ حقیقی تک پہنچنا ہی اصل مدعا ہے۔
ولیؔ دکنی کی غزل کا خلاصہ
ولیؔ دکنی اردو شاعری کے اولین اور اہم شاعر ہیں۔ ان کی غزلیں سادگی، روانی اور گہرے معنی کے اعتبار سے نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ زیرِ بحث غزل میں ولیؔ نے عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی دونوں کی کیفیات کو نہایت خوبصورت اور سادہ الفاظ میں بیان کیا ہے۔
غزل کے آغاز میں شاعر محبوب کی یاد کو اپنا وظیفہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جیسے ایک صوفی ہر وقت عبادت میں مشغول رہتا ہے ویسے ہی اس کا دل ہر گھڑی محبوب کی یاد میں مصروف ہے۔ شاعر محبوب کے دیدار کو اتنا قیمتی سمجھتا ہے کہ جنت کی نہریں اور کوثر کا چشمہ بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کے نزدیک سب سے بڑی پیاس محبوب کے جلوے کی پیاس ہے۔ شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ عشق کی شدت نے اسے اس حال میں ڈال دیا ہے کہ اب اسے اپنی عاقبت کی پروا نہیں رہی۔ اس کا دل محبوب کے عشق میں ایسا مبتلا ہو چکا ہے کہ دنیا و آخرت کی فکر مٹ گئی ہے۔ آگے چل کر شاعر دل کی عظمت کو بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دل ایک ایسا خزانہ ہے جس میں بے شمار اسرار پوشیدہ ہیں اور جس کی حقیقت بیان سے ماورا ہے۔ ولیؔ رسموں اور ظاہری مذہبی علامتوں سے بلند ہو کر اصل آزادی کا تصور پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سچی آزادی دل کی پاکیزگی اور روح کی خودمختاری میں ہے نہ کہ تسبیح یا زنار کے ظاہری بندھن میں۔ شاعر فطرت کے حسین مناظر سے بھی سبق لیتا ہے۔ وہ پھول اور شبنم کی مثال سے جاگتی آنکھ کی عظمت کو واضح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ حقیقت کو سمجھنے والی نظر سب سے زیادہ بلند مقام رکھتی ہے۔
غزل کے آخر میں شاعر اپنی کیفیت کو اللہ کی بارگاہ سے جوڑتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو دراصل خالق کی رضا کے لیے ہیں۔ یوں یہ غزل بتدریج عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کی طرف سفر کرتی ہے اور بالآخر ایک روحانی پیغام پر منتج ہوتی ہے۔