(یاس عظیم آبادی) یگانہ چنگیزی
یاس عظیم آبادی نے جب شاعری کا آغاز کیا تو ان کے منفرد انداز اور تیکھے پن نے لوگوں کو حیران کر دیا۔ اردو شاعری میں ان کی آواز واقعی الگ اور خاص تھی۔ اس وقت کی شاعری میں رومانی خیالات کا غلبہ تھا، اور بار بار دہرائی جانے والی باتوں نے شاعری کو تازگی اور دلکشی سے محروم کر دیا تھا۔ لیکن یاس نے اس کے برعکس پوری زندگی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور اس پر ایک فتح مند نگاہ ڈالی۔ ان کا نظریہ تھا کہ اگر زندگی مشکلات سے بھری ہوئی ہے تو ہم بھی ان مشکلات کا مقابلہ کرنے میں کم حوصلہ نہیں ہیں۔ ان کے لہجے میں ایک عجیب قسم کی عظمت اور نئے انداز کا وقار تھا۔
جب کوئی عام روایت سے ہٹ کر شاعری کرتا ہے تو اسے سننے اور سمجھنے والے کم ہوتے ہیں۔ یاس کو بھی کم سامعین ملے، لیکن یہ ضرور تھا کہ ایک دن سخن فہم لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں گے اور ان کا سکہ چل جائے گا۔ اسی دوران یاس کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ پہلے انہیں عظیم آباد سے کلکتہ جانا پڑا، اور وہاں سے علاج کے لیے لکھنؤ آنا پڑا۔ لکھنؤ اس وقت شاعری کا ایک بڑا مرکز تھا، جہاں عزیز لکھنوی اور صفی لکھنوی جیسے تجربہ کار شاعر پہلے سے موجود تھے۔ لیکن ان کی شاعری میں تازگی نہیں تھی۔ جب لکھنوی شاعروں نے یاس کا کلام سنا تو انہیں یہ خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ نئی آواز ان کی آواز پر غالب نہ آ جائے، چنانچہ ایک مخالفانہ ماحول بن گیا۔ دوسری طرف، یاس کے لہجے میں طاقت تھی اور اب ان میں خود اعتمادی بھی بڑھ گئی تھی۔ اس پر مزید یہ کہ یاس غالب کی شاعری کی تنقید کرنے لگے اور ان کی غلطیاں نکالنے لگے۔ یہ دشمنوں کے لیے موقع تھا، اور وہ غالب کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ غالبؔ کی حمایت تو بس ایک بہانہ تھا، اصل میں وہ یاس سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔
یاس کے مزاج میں تھوڑی سختی پہلے سے موجود تھی، اور جب ان کا سامنا حریفوں سے ہوا تو وہ بالکل شمشیر بے نیام بن گئے۔ یاس نے خود کو “یگانہ” کہا اور اس کے ساتھ “چنگیزی” کا لقب بھی اپنا لیا۔ انہوں نے چنگیزی انداز اپنایا، اور دوسری طرف حریفوں نے ان کے خلاف اپنی مہم کو تیز کر دیا۔ پھر تو ایسا ہنگامہ برپا ہوا کہ مصفیٰ اور انشا کے زمانے کی لڑائیاں یاد آ گئیں، اور ایک طوفان بدتمیزی اٹھ کھڑا ہوا۔ یاس یگانہ کے ساتھ بہت بدسلوکی کی گئی، اور انہیں شدید رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ یگانہ کا مقام ایسا تھا کہ اگر وہ ان سب باتوں کو نظر انداز کر دیتے تو یہ ان کی عظمت کے مطابق ہوتا، مگر وہ بھی اس لڑائی میں اتر آئے۔ یگانہ نے لکھنؤ میں پہلے ہی شادی کر لی تھی، اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا، مگر انہوں نے کہا “اک تو استاد بیگانہ، دوسرے داماد ہوں” اور خود کو غالب کا چاہنے والا کہہ کر مزید دشمن بنا لیے۔ لکھنؤ ان کے لیے جہنم بن گیا۔ ایک بڑا شاعر، جو وہاں خوب ترقی کر سکتا تھا، تعصب کا شکار ہو گیا۔ اگر یگانہ کی شاعری پر توجہ دی جاتی تو وہ اردو شاعری پر گہرا اثر ڈال سکتی تھی، اور ممکن تھا کہ اس سے اردو شاعری میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا۔ نوجوان شعرا یگانہ کی آواز سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس نے ان کے مزاج میں شدید چڑچڑاہٹ پیدا کر دی، اور وہ حد سے زیادہ خود پسندی کا شکار ہو گئے۔
نئے شعرا یگانہ سے یہ سیکھ سکتے تھے کہ شاعری کو محض روایت کی پابند نہ ہونا چاہیے۔ اس میں تازگی اور توانائی ہونی چاہیے، جو ذہنوں کو جھنجوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہو، کیونکہ یہی یگانہ کی شاعری کی اہم خصوصیات تھیں۔
مجنوں گورکھپوری یگانہ کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ” جس مشاعرے میں یاس ؔ اپنا کلام سناتے تھے تو مشاعرہ برخاست ہونے کے بعد جس طرح لوگوں کی زبانوں پر یاس کے اشعار ہوتے تھے دوسرے اساتذہ کے اشعار بہت کم ہوتے تھے کہ ان کو یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ پڑھا جائے اوران پر تھم تھم کر غور کیا جائے اور ان کی تہ در تہ معنویت کو سمجھا جائے ۔ یاس کے بہت کم اشعار ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم کو زندگی کے متعلق آگا ہیاں نہ ملتی ہوں اور جن سے ہمارے اندر تازه توانائی اور تاب زندگی نہ پیدا ہوتی ہو۔ یاس کے اشعار بغیر تفکر کے اچھی طرح نہیں سمجھے جا سکتے” ۔
یگانہ یاس کو زندگی کا شعور رکھنے والا شاعر کہا گیا ہے۔ ایک ایسا شاعر جس کے بارے میں مجنوں نے کہا ہے کہ ان کی شاعری میں جذباتیت کی کراہ نہیں، بلکہ جوش اور مردانہ شان پائی جاتی ہے۔ یگانہ کی شاعری کی بڑی خوبی ان کی فکرو تامل، حکیمانہ سمجھ، گہری معنویت، اور اسلوب کی دلکشی ہے۔
یگانہ کی ایک اور خوبی ایسی ہے جس کی پیروی اردو شاعری کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ وہ بہت کم شعر کہتے تھے اور تبھی شعر کہتے تھے جب ان کے اندر کی کوئی قوت، کوئی خواہش انہیں مجبور کرتی تھی۔ مزید یہ کہ وہ شعر کہنے کو ایک سنجیدہ عمل سمجھتے تھے اور اس پر بہت دھیان دیتے تھے۔
مثا ل کے طور پر چند اشعار۔
کیوں یاسؔ یونہی دور سے منہ تکتے رہو گے
بے مانگے تو اس بزم میں ساغر نہیں ملتا
عجب کیا ہے ہم ایسے گرم رفتاروں کی ٹھوکر سے
زمانے کے بلند و پست کا ہموار ہو جانا
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کر چلے اب ترکِ دعا کرتے ہیں
ہر شام ہوئی صبح کو اک یاد فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا